الطاف حسین: پرچم جلانے سے پاکستان مردہ باد تک

22 اگست کو الطاف حسین کی طرف سے میڈیا ہاؤسز پر حملوں اور اشتعال انگیز ، نفرت آمیز اور پاکستان مخالف تقریر اور نعروں کے بعد ایم کیو ایم ایک بھونچال کا شکار ہے۔ابتداء میں الطاف حسین کے بیان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس دفعہ میڈیا اور رینجرز الطاف حسین کو کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ ( یہاں ہم نے قصداً نواز شریف حکومت کا نام نہیں لیا کیوں کہ اگر معاملہ اس کے ہاتھوں میں ہوتا تو وہ اس بار بھی سیاسی مصلحتوں کے تحت صرف زبانی جمع خرچ کرتی اور چوہدری نثار دو گھنٹے کی تقریر کرکے عوام کا دماغ کھاتے۔) ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف، مصطفیٰ عزیز آبادی وغیرہ نے پوری کوشش کی کہ مظلومیت کا رونا رو کر عوام کی ہمدردی حاصل کی جاسکے لیکن یہ داؤ ناکام ہوگیا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ الطاف حسین نے اپنی متنازع تقریر اور پاکستان مخالف نعروں پر معافی مانگ لی ہے۔ بعد ازاں فاروق ستار، خواجہ اظہار الحسن اور عامر لیاقت کی گرفتاری و رہائی کے بعد فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں گول مول انداز میں ایم کیو ایم لندن اور لاطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا، لیکن کچھ ہی دیر بعد لندن میں موجود واسع جلیل نے واضح کردیا کہ ایم کیو ایم لندن ہی فیصلہ ساز ہے اور الطاف حسین بھائی ہی ہمارے قائد ہیں اور وہی سارے فیصلوں کی توثیق کریں گے۔ علاوہ ازیں واسع جلیل نے بھی مظلومیت کا رونا رونے کی کوشش کی اور کہا کہ الطاف بھائی ذہنی دباؤ میں تھے، تناؤ کا شکار تھے، اس کیفیت کو سمجھیں ، ان کو انسان سمجھیں اور انسان سے غلطی ہوجاتی ہے۔واسع جلیل صاحب ان کی تقریر کو غلطی کہہ رہے تھے لیکن انہوں نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ معافی مانگنے کے بعد الطاف حسین نے امریکہ میں ایک اور اشتعال انگیز اور پاکستان مخالف تقریر کی ہے۔

واسع جلیل سمیت وہ تمام لوگ الطاف حسین کی تقریر کا دفاع اور ان کی غلطی کہہ رہے ہیں وہ سب ایک غدارِ وطن کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کے علاوہ عوام بھی ایک بنیادی نکتہ فراموش کرچکے ہیں۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ الطاف حسین پاکستان مخالفت تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان کا دفاع کرنے والوں کی خدمت میں الطاف حسین کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

الطاف حسین نے سیاسی زندگی کے آغاز ہی پاکستان کا پرچم جلانے سے کیا تھا۔ یہ بات ہے 14 اگست 1979 کی، جب الطاف حسین نے مزار قائد پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کا پرچم جلادیا۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں 9 ماہ کی سزا سنائی تھی۔وقت گزرتا رہا، الطاف حسین نے اب اے پی ایم ایس او سے مہاجر قومی موومنٹ کی طرف پیش رفت کی اور 1984میں مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔1987میں حیدر آباد میں جلسے کے دوران الطاف حسین نے ایک بار پھر قومی پرچم نظر آتش کیا اور کہا کہ پاکستان بنانا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔اس وقت کے حیدرآباد کے جے سی او سابق ڈی جی رینجرزمیجر جنرل (ر) صفدرعلی خان کا کہ تھا کہ میں نے اس وقت کمشنر حیدرآباد سے کہا کہ وہ الطاف حسین کے خلاف کارروائی کریں، تاہم کمشنر حیدر آباد نے جواب دیا کہ جنرل ضیا الحق کا حکم ہے کہ ابھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔یہ دوسرا موقع تھا کہ الطاف حسین اپنے پاکستان مخالف خیالات کا سر عام اظہار کیا۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں جناح پور کی سازش تیار کی گئی، اس کے پہلے مرحلے میں کراچی شہر کو ایک قلعے کی شکل دیدی گئی ، شہر کی ہر گلی چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی اس پر مضبوط آہنی دروازینصب کیے گئے اور ان کا کنٹرول ایم کیو ایم کے رکنان کے پاس ہوتا تھا۔ بظاہر اس کو شہریوں کی حفاظت کا ایک اقدام کہا گیالیکن درحقیقت اس طر ح شہر کو ایک جنگی قلعے کی صورت دیدی گئی جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا داخلہ نہ ہوسکے، ا س کے بعد یہ ہوتا رہا کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد تخریبی کارروائیوں کرکے گلیوں میں داخل ہوکر فرار ہوجاتے اور ان کے ساتھی گلی کے دروازے بند کردیتے تھے۔ان اقدامات کے خلاف نواز شریف حکومت نے آپریشن کا آغاز کیا لیکن اندرونی طور پر الطاف حسین کو شہر سے نکلنے کا موقع فراہم کیا گیا اور19جون 1992کے آپریشن پہلے الطاف حسین عمرے کے بہانے ملک سے فرار ہوگئے اور اس کے بعد سے وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے ہیں۔اس دروان میں میجر کلیم کا مشہور واقعہ منظر عام پر آیا اور الطاف حسین نے پاکستان توڑنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ تاہم ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی ۔

نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد بے نظیر حکومت نے بھی ان کے خلاف آپریشن جاری رکھا، اس دور میں شہر کراچی بد ترین دہشت گردی اور تشدد کا شکار رہا۔ آئے روز شہر میں لاشیں ملنے لگیں جن میں خصوصی طور پر پنجاب، اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور پولیس و فوج کے اہل کاروں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا رہا۔ایک ہی دن میں بارہ بارہ اجتماعی قتل تک کی وارداتیں کی گئیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدروں کو اغوا کے بعد قتل کیا جاتا رہا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں الطاف حسین نے ایک بار پھر پاکستان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت سے مدد مانگی۔بے نظیر بھٹو کے اسی دور میں فیڈرل بی ایریا کے صغیر سینٹر میں ایم کیو ایم کے کارکنان کی طرف سے پاکستانی پرچم نظر آتش کیا گیا۔ ان غداروں کو گرفتار بھی کیا گیا ، ا ن پر مقدمہ بھی قائم کیا گیا تاہم ان پر الزام ثابت نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی کوئی ان کے خلاف گواہی کے لیے پیش ہوا جس کے باعث یہ غدار رہا ہوگئے اور رہائی کے بعد صغیر سینٹر میں بر ملا یہ کہتے پائے گئے کہ ہمارا کسی نے کیا بگاڑ لیا۔ یہ تیسرا موقع تھا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے پاکستانی پرچم نظر آتش کیا گیا۔

نومبر2004میں الطاف حسین نے بھارت کا دورہ کیا اور وہاں ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے قیام پاکستان کو تاریخ کی عظیم غلطی قرار دیا، ساتھ ہی یہ سوال نما مطالبہ بھی کیا کہ اگر ہم آپ سے مدد مانگیں تو کیا ہماری مدد کرو گے، انہوں نے بار بار یہ سوال دہرایا لیکن شرکاء کے جانب سے کوئی رد عمل ظاہر نہ ہونے پر یہ کہتے ہوئے خاموش ہوگئے کہ شاید میں نے غلط سوال کردیا۔یہ چوتھا موقع تھا کہ انہوں نے کھل کر پاکستان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔لیکن پرویز مشرف کی جانب سے انہیں مکمل حمایت حاصل تھی جس کے باعث ان کے خالف کوئی کارروائی نہ ہوسکی ، کارروائی تو دور کی بات ہے نام نہاد آزاد میڈیا نے سرے سے یہ اتنی بڑی خبر ہی گول کردی۔

جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے کھل کر پاکستان مخالف سرگرمیاں کیں، کراچی میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے رکھا، مخالفین کو دیوار سے لگایا جاتا رہا، جنرل مشرف کے دور میں ہی بارہ مئی 2004، بارہ مئی 2007 پیش آیا۔ جنرل مشرف ہی کے دور میں الطاف حسین نے کھل کر اسلام مخالف تقاریر بھی کیں، قادیانیوں کے حق میں بیانات بھی دیئے اوران کے خلیفہ کے مرنے پر تعزیت کا اظہار بھی کیا، شعائرِ اسلام اور علمائے کرام کا مذاق اڑایا لیکن حکومت سرپرستی اور میڈیا میں ان کے لیے نرم گوشہ ہونے کے باعث یہ ساری باتیں چھپی رہیں۔

اب گزشتہ ہفتے ان کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، پاکستان توڑنے کی بات کی گئی، رینجرز کے رد عمل کے بعد ایک نام نہاد معافی مانگی گئی لیکن اس کے فوراً بعد امریکہ میں ایک اور نفرت آمیز تقریر کرکے پاکستان توڑنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ، امریکہ، انڈیا حتیٰ کہ اسرائیل تک سے مدد مانگنے کی بات کی گئی۔ان تمام باتوں کا سرسری جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی سیاست38برسوں میں پاکستان مخالفت سے شروع ہوکر پاکستان مخالفت پر ہی رکی رہی۔ان کی ذہنیت، ان کی ملک دشمنی، ان کی اسلام بیزاری اول روز سے آج تک ویسی ہی ہے۔البتہ اصل میں تو یہ ایم کیو ایم کے ذمہ داران و کارکنان کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ ایک ملت اور ملک کے غدار کے ساتھ کیوں تھے؟ اگرچہ فی الوقت انہوں نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ، لیکن معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں کا کہ ابھی ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ جب تک ان سے نرمی برتی گئی، موقع دیا جاتا رہا انہوں نے الطاف حسین کی اسلام مخالف پاکستان مخالف سرگرمیوں کے باوجود ان سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا لیکن جب ان سے سختی سے برتی گئی ہے، ان کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کی جارہی ہے تو اب یہ لاتعلقی کا اعلان ایک سیاسی چال سے زیادہ نہیں ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520145 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More