پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی جانب
سے کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے کی تحقیقات کے سلسلے میں افغان حکام
کو ہر ممکن تعاون کی پیش کش اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان پرامن افغانستان
کا متمنی ہے۔ انہوں نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے
دہشت گردی اس واقعے کی مذمت کی اور جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے افغان صدر کو یقین دلایا کہ پاکستانی سرزمین کسی بھی صورت میں
افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ افغان صدر اشرف غنی نے امریکی
یونیورسٹی پر دہشت گردوں کی کارروائی کے بعد الزام لگایا تھا کہ اس کی
منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی۔ افغان حکام نے حملے کے دوران استعمال ہونے
والے موبائل فون نمبرز کے بارے میں پاکستان کو آگاہ کیا جس کی بنیاد پر پاک
فوج نے پاک افغان بارڈر کے قریب عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق کے لئے
کومبنگ آپریشن کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ سمز ایک افغان کمپنی
آپریٹ کر رہی ہے جس کے سگنل پاکستان افغانستان سرحدکے قریب بعض علاقوں میں
آتے ہیں۔ یہ معلومات افغان حکام سے بھی شیئر کی گئیں ہیں۔ جنرل راحیل نے
افغان صدر کو مزید معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے مکمل تعاون کی یقین
دہانی بھی کرائی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان مذہبی، سماجی اور جغرافیائی
لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔پاکستان آزاد، خودمختار
افغانستان کی حقیقت سے واقف ہے تاہم افغان حکومت بھی زمینی حقائق کو
نظرانداز نہ کرے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب سے پاکستان نے افغانستان کے
حوالے سے اپنی تذویراتی گہرائی کی پالیسی کی فائل بند کی ہے، بھارت وہاں
انتہائی سرگرم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور عدم اعتماد کی
خلیج گہری کرنے کی کرشش کررہا ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں
دہشت گردی کی آگ کو سلگائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے ’’بجھانے‘‘ کے بہانے
دونوں پورے خطے کو اپنے قابو میں رکھ سکیں۔ اس طرح افغانستان میں امریکہ
اور بھارت کی بڑھتی ہوئی یہ قربتیں خطے کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔خاص
طور پر پاکستان ان کی ’’پریشر توپوں‘‘ کا ہدف ہے۔ امریکہ کی جانب سے
پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ، کولیشن سپورٹ فنڈ کو روکنا اور دیگر ہتھکنڈے
بھارت کو خوش کرنے کے بہانے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربربیت،
بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے
سیامریکی خاموشی بھی اسی بات کا اظہار ہے کہ امریکہ پاکستان کو نظرانداز
جبکہ بھارت کے موقف کی حمایت کررہا ہے۔ امریکہ کی اس دوغلی پالیسی پر اس
سال جون میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے برملا کہا تھا کہ امریکا مطلب پرست
دوست ہے۔ ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس آتا ہے اورکام نکل جائے تو پوچھتا تک
نہیں۔ بلاشبہ تاریخ اس امریکی سرشت سے بھری پڑی ہے کہ جب اس نے پاکستان
سمیت بہت سے ممالک کو اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھایا اور مطلب پورا ہونے پر
انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ افغانستان میں روس کی شکست اور پھر اس کے
حصے بخرے کرنے کا خواب پورا ہوتے ہی اس نے خطے کی صورتحال کو جوں کا توں
چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا
ہوا۔9/11کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تو پاک امریکہ
تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ اس نے پاکستان کے شہریوں اور افواج کی
قربانیوں، سماجی و اقتصادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کو یکسر نظرانداز
کرتے ہوئے ’’ڈومور‘‘ کی رٹ لگانی رکھی اور آئے روز ڈرون حملے کرکے پاکستان
کی سالمیت او روقار کو روندھا۔ الزام تراشی کے اسی چکر میں پاکستان کے امیج
کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے فنڈزبھی روکے گئے۔بھارت نے بھی
پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ اسلحہ و گولہ بارود کی سپلائی کے ذریعے
نام نہاد علیحدگی کی یورشیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یقینا کوئٹہ دھماکے اور
بلوچستان میں حالیہ بدامنی کے واقعات کے ڈانڈے بھی بھارت سے جاملتے ہیں۔
باب دوستی پر پاکستان مخالف ریلی بھی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ افغان
سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ افسوسناک بات
یہ ہے کہ افغان قیادت ان سرگرمیوں کا نوٹس لینے کی بجائے کٹھ پتلی کا کردار
ادا کررہی ہے۔ جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو آئندہ کئی سال
تک عالمی سازشوں کا گڑھ بنائے رکھنا چاہتی ہے۔افغان عوام کی بڑی تعداد اپنے
حکمرانوں کی اس روش سے بیزار اور مایوس ہے۔ وہ افغانستان میں امن اور چین
دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس صورتحال میں اشرف غنی کی حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جرات مندانہ
اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ یہ سچ ہے افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے
لیے فوجی، مالی تعاون کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے افغانستان پر دوسری قوتوں
کی اجارہ داری اور ان کے مفادات کی تکمیل کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی‘ جغرافیائی‘ دینی‘ ثقافتی‘ سماجی
اور اقتصادی تعلقات تعلقات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔پاکستان نے مشکل کی ہر
گھڑی میں افغان عوام کا ساتھ دیا ہے۔ افغان جہاد کے دوران 30لاکھ افغان
مہاجرین کی ایک طویل عرصہ تک مہمان نوازی کی ہے۔ آج بھی لاکھوں افغانی
پاکستان کے مختلف علاقوں میں بس رہے ہیں بلکہ پوری آزادی کے ساتھ کاروبار
کررہے ہیں۔ انہیں تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر ہیں اور سب سے بڑی بات یہ
کہ پاکستان کے شہریوں نے انہیں نا صرف قبول بلکہ کبھی بھی اپنے شہری سے کم
تصور نہیں کیا۔ اس کے برعکس افغان حکومت کی پاکستان پر الزام تراشیوں کا
سلسلہ، پاکستان مخالف سرگرمیاں اور پراپیگنڈہ افسوسناک ہے۔اس تناظر میں غنی
حکومت کو چاہئے کہ وہ تنگ نظری چھوڑ کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ دونوں
ممالک ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی اعتماد کو فروغ دیتے ہوئے سرحدی
انتظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی عناصر کے خاتمے کے لیے ایک
دوسرے سے تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ
ہے جسے باہمی تعاون اور مخلصانہ کوششوں اور کاوشوں سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔
ایک دوسرے پر الزام تراشی اس کا حل نہیں بلکہ دہشت گردوں کے حوصلے اور
عزائم کو مزید تقویت دینے مترادف ہے۔ |