کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری
علاقوں کی سیاست کے بدلتے ہوئے حالات اور ایم کیو ایم میں بنیادی بلکہ
بظاہر انقلابی تبدیلیوں کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد
متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال
ہے کہ جس کا جواب موجودہ سیاسی تناظر میں تلاش کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں
آفاق احمد کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے آفاق احمد متحدہ
قومی موومنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاہم انھیں الطاف حسین کی
طرف سے کوئی گرین سگنل نہیں ملا۔ الطاف حسین آفاق احمد کی طرف سے پیش کردہ
شرائط یا کہہ لیجئے کہ گزارشات ماننے کے لئے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے
مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ میں اتحاد کے حوالے سے کوئی
پیشرفت نہیں ہو سکی جبکہ دوسری طرف لندن میں موجود رابطہ کمیٹی کے ارکان
سمیت کئی مرکزی رہنماآفاق احمد کی متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت کے مخالف
تھے۔ماضی قریب میں متحدہ قومی موومنٹ سے قربتیں حاصل کرنے کے لئے آفاق احمد
نے متعدد کوششیں بھی کیں لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی
بلکہ شاید انھیں خاطر ہی میں نہیں لایا گیا اور انھیں خاموش ہوکر بیٹھنا
پڑا۔ آفاق احمد کی ان کوششوں کی وجہ سے اختلافات کے باعث ان کی پارٹی کے
کئی اہم کارکن انھیں چھوڑ کر چلے گئے جس کی وجہ سے آفاق احمد کو دہرہ نقصان
اٹھانا پڑا۔ ایک تو انھیں متحدہ کی طرف سے کوئی پزیرائی نہیں ملی اور دوسرے
انھیں اپنے کئی اہم کارکن کھونے پڑے۔ متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی
موومنٹ کے انضمام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ الطاف حسین تھے کہ جو آفاق
احمد کو کسی طور بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس حوالے سے بعض
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں جب آفاق احمد عمرہ کی ادائیگی کے
بعد لندن گئے تھے تو انھوں نے الطاف حسین سے ملاقات کرنے کی بھی کوشش کی
تھی تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ الطاف حسین سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئے
تھے کہ نہیں۔اب جب کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے ایک نئی شکل اختیار کر
لی ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار بظاہر عارضی طور پر ایم کیو ایم کے نئے سربراہ
کے طور پر سامنے آئے ہیں جبکہ انھوں الطاف حسین سے مکمل لا تعلقی کا اعلان
بھی کر دیا ہے تو ایسی صورت میں آفاق احمد کے لئے متحدہ قومی موومنٹ میں ضم
ہونے یا ساتھ ملکر کام کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر
فاروق ستار کس حد تک ایم کیو ایم کی سربراہی کر سکیں گے ، کیا وہ ایم کیو
ایم کے مستقل سربراہ کے طور پر بھی کام کر سکیں گے اور کتنے منتخب اور غیر
منتخب رہنماا ور کارکن ان کے ساتھ آئیں گے اس حوالے سے کوئی بھی حتمی بات
نہیں کی جاسکتی تاہم یہ ضرور نظر آنے لگا ہے کہ مستقبل قریب میں الطاف حسین
کی قیادت میں ایم کیو ایم دوبارہ مضبوط ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ملک کے
سیکیورٹی کے ادارے کسی بھی طور الطاف حسین یا ان سے وابستہ علامت یا شخص کو
برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، نائن زیرو کا سیل ہونا اور ایم کیو ایم کے
نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں دفاتر مسماراور سیل کئے جانا اس بات کی
علامت ہے کہ الطاف حسین اب دوبارہ اپنے کارکنوں کو پاکستان میں اپنے گرد
جمع نہیں کر پائیں گے لہذا الطاف حسین کی فی الحال پاکستان میں سیاست اور
ان کی طرف سے طاقت کے استعمال کے لئے اپنے کارکنوں کو استعمال کرنے کی کوئی
گنجائش نہیں جس کی وجہ سے غالب قیاس یہی ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت فاروق
ستار ہی کے پاس رہے گی ۔ انھیں ملک کے مقتدر اداروں اور سیاسی حلقوں کی بھی
حمایت حاصل رہے گی جبکہ ایک اور اہم بات یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں
ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار کے نام پر ہی رجسٹرڈ ہے۔ اس صورت حال کے پیش
نظر آفاق احمد مہاجروں کی ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی سیاست کو ایک پلیٹ فارم پر
لانے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آفاق احمد سے بھی
اسٹیبلشمنٹ کو کوئی پریشانی نہیں اور نہ ہی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ڈاکٹر
فاروق ستار پر کوئی بہت زیادہ شک کرتی ہے۔لہذا دونوں کے قریب آنے کے
امکانات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے تاہم کام کرنے کے طریقہ کار کے حوالے
سے اور ایم کیو ایم کی مستقل قیادت کے حوالے سے بہت سی باتیں طے ہونا باقی
ہیں۔اس پوری صورت حال سے سب سے زیادہ نقصان مصطفی کمال کی پاک سر زمین
پارٹی کو پہنچے کا امکان ہے ۔ اگر چہ پہلے ہی سیاسی حوالے سے ان کی کوئی
طاقت نہیں تھی لیکن اب شاید مقتدر اداروں اور اسٹبلشمنٹ کو ان کی ضرورت نہ
رہے لہذا نھیں بھی اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں پیش بندی کرنی پڑی گی اور
کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست کے حوالے سے بدلی ہوئی صورت حال کے
تناظر میں اپنا مستقبل تلاش کرنا پڑے گا۔ |