پردے میں رہنے دو
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
کیا یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے پاکستان
مردہ باد کے نعرے لگائے۔کسی نے مادرِ وطن کے دامن کو تار تار کرنے کی کوشش
کی۔کسی نے اس وطن کو گالی دی جس نے کبھی اسے سر آنکھوں پہ بٹھایا تھا۔نہیں
ایسا ہرگز نہیں ان بدبختوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔پاکستان کی تخلیق سے پہلے
کیا گروہ کے گروہ ایسے نہ تھے جو بابائے قوم کو کھلے عام نعوذباﷲ کافر اعظم
کہا کرتے۔کیا ان کی معنوی اولادیں ریکارڈ پہ نہیں کہ اﷲ کا شکر ہے کہ ہم
پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔کیا پہلا موقع ہے کہ کوئی را کا
ایجنٹ بنا ہے۔کیا اس سے پہلے پاکستان ہی کے نام نہاد چوٹی کے لیڈروں کی
بھارت کے حکمرانوں سے نوٹوں کی تھیلیاں وصول کرنے کی تصاویر اخبار کی زینت
نہیں بنتی رہیں۔کوئی حقوق کی آڑ میں ،کوئی مذہب کے لبادے میں ۔کیا وہ سبھی
آج اسی پاکستان کے مدارالمہام نہیں۔کیا ابھی چند ہی دن پہلے کسی نے قومی
اسمبلی کے فورم پہ کھڑے ہو کے یہ نہیں کہا کہ میں اس پاکستان کو کبھی زندہ
باد نہیں کہوں گا جس میں میرا پشتون غلام ہو۔یاد رہے یہ وہ شخص ہے پاکستان
کے پختونوں نے جسے کبھی درخود اعتناء نہیں سمجھا ۔ چند سیٹوں کے عوض ریاستِ
پاکستان مجبور ہے کہ اسے کوئٹہ کی آدھی حکمرانی عطا کرے۔
ان بد بختوں کی ایک تاریخ ہے جو کھاتے پاکستان کا ہیں اور بھونکتے بھی اسی
پہ ہیں۔ان کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں۔اپنے آپ کو بہت محبِ وطن کہلوانے
والے بھی کبھی نہ کبھی اس وطن کے در پئے آزار رہے ہیں۔ریاست ماں کے جیسی
ہوتی ہے۔کھلاتی سونے کا نوالہ اور دیکھتی شیر کی نظر سے ہے۔جہاں کہیں کسی
بچے نے کسی بد تہذیبی کا ارتکاب کیا ماں کی نگران نگاہیں اسے اپنی اوقات
میں لے آتی ہیں۔کبھی کبھار بچہ حد سے بڑھنے لگے تو ماں گدی پہ ہاتھ جمانے
سے بھی گریز اور پرہیز نہیں کرتی۔ابا کا ڈراوا بھی زندگی میں ساتھ چلتا
ہے۔"آنے دو ابا کو" کا فقرہ بچوں کی زندگی میں ایٹمی ہتھیار کا سا کام کرتا
ہے کہ جسے استعمال کرنے کی نوبت تو کم ہی آتی ہے لیکن بچوں کو کینڈے میں
رکھنے کے لئے اس کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔اس کے بر عکس ایک ہوتی ہے بیوہ
ماں۔میاں کے مر جانے کے بعد اس کا مطمع ِ نظر ہوتا ہے بچے پالنا۔اسے بس ایک
ہی دھن ہوتی ہے کہ میاں کی نشانی ہیں کسی طرح پل کے پیروں پہ کھڑے ہو
جائیں۔اس میں جہاں وہ اپنی جان پہ ظلم وستم سہتی ہے وہیں بچوں پہ بھی اس کا
کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔باپ کا ڈر تو ہوتا نہیں اسی قماش کے بچے اکثر اوقات
ماؤں کو زخمی بلکہ قتل تک کرنے سے باز نہیں آتے۔ریاستِ پاکستان بھی ایسی ہی
ایک بیوہ ماں ہے۔جس کے بچوں کا باپ پیدائش کے اگلے ہی سال اسے بے
یارومددگار غنڈوں کے درمیان چھوڑ کے جنت مکانی ہو گیا۔وہ دن اور آج کا دن
دشمن تو دشمن اس کے اپنے بعض بد بخت بچے بھی اسے گالیاں دینے اور اس کی
توہین کرنے سے نہیں چوکتے۔ریاست بے چاری ممتا کی ماری ٹک ٹک انہیں دیکھے
جاتی ہے اور اونچا سانس تک نہیں لیتی کہ کہیں بچے برا نہ مان جائیں۔ جو
کماتی ہے ان نکموں کے حوالے کرتی ہے لیکن یہ کھاتے بھی ہیں اور غراتے بھی
ہیں۔
میرے قارئین لیکن اگر ایک بات پہ غور کریں۔پاکستان کی تاریخ پڑھنے سے پہلے
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو انہیں ایسی بہت سی شہادتیں مل جائیں گی کہ جس
کسی نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا اسے زندگی ہی میں اس کی عبرت ناک سزا
ملی۔جس کسی کو ایسی کوئی مثال نظر نہ آئے وہ ان لوگوں کا انجام دیکھ لے جو
کبھی پاکستان کے خلاف کسی سازش میں شریک رہے۔بعض کو تو ارض وطن میں دفن
ہونے کو دوگز زمین تک نہ مل سکی۔کچھ ایسے بھی تھے جو اس ارض مقدس کی توہین
تذلیل یا تحقیر کا باعث بنے تو ان کی نسلوں تک کا نام ونشان مٹ گیا اور اب
ان کے ماننے والے دوسرے قبیلے کا ڈی این اے ادھار لے کے انہیں مصنوعی تنفس
کے بہانے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
میں کراچی کے ان لوگوں کی بات نہیں کرتا جو الطاف حسین کو نجات دہندہ نہیں
اس سے بھی آگے کی کچھ چیز سمجھتے ہیں۔ان میں را کے ایجنٹ بھی ہیں۔بھتہ خور
بھی ہیں کرائے کے قاتل بھی۔یہ لیکن ہماری رائے ہے۔زمینی حقائق اس کے بر عکس
ہیں۔ہمارے ماننے نہ ماننے سے ان حقائق کو بدلا نہیں جا سکتا۔پاکستان مردہ
باد کے نعرے لگانے کے باوجود الطاف حسین کا دست راست وسیم اختر کراچی کے
مئیر کا الیکشن جیت گیا ناں۔اس سے بڑا ثبوت کسی کو اور کیا چاہئیے۔الطاف
حسین کراچی حیدر آباد سکھر اور میرپور خاص کی ایک حقیقت ہے۔ ریاست کا بگڑا
بچہ جسے دیکھ کے ہی عام آدمی کو عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کی ہر تازہ
کمینگی کے بعد اس کے ماننے والے اس کی چاپلوسی کرتے نہیں تھکتے۔خالد مقبول
صدیقی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو توڑنے کے لئے بھی آپ کو الطاف حسین سے
مشورہ کرنا پڑیگا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو توڑا ہی کیوں
جائے۔کیا ہم نے پانچ کروڑ مہاجروں کو عاق کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟لوگوں کی
آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں۔الطاف حسین ناسور ہے مگر لوگ آج بھی اسے ووٹ
دیتے ہیں۔آئینِ پاکستان کے تحت کسی کے مینڈیٹ سے انکار نہیں کیا جا
سکتا۔الطاف حسین نے خود آپ کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ آپ اسے مکھن سے بال
کی طرح باہر نکال پھینکیں۔وہ ملک کا غدار ہے اور ملک سے غداری کی سزا موت
ہے۔یہ یاد رہے کہ غداروں کی فہرست میں الطاف کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔اس
سے پہلے کے غداروں کو پھانسی دے دیں اور پھر الطاف کو۔مہاجر بھی اس پہ
احتجاج نہیں کریں گے۔اگر کسی اور کو ہم لٹکا نہیں سکتے تو پھر الطاف کو مٹا
دینے پہ اصرار کیوں؟مسئلہ نائن زیرو نہیں آئین زیرو ہے۔ہمت کر یں اور ہر
قانون شکن کو لٹکا دیں۔
انصاف کی ضرورت ہے اور سخت احتساب کی۔فاروق ستار کی مجال کہ" بھائی" کو
فارغ کر دے۔یہ سب ملی بھگت ہے۔قانون کا نفاذ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔آپ پانچ
کروڑ لوگوں کو غدار قرار نہیں دے سکتے۔ تصویریں اتروانے سے کام نہیں چلے
گا۔ د ل میں لگی تصویریں کم ہی کھرچی جا سکتی ہیں۔قانون سب کے لئے۔جو ہو
چکا اسے بھول جائیے۔اب کی بار باقیوں کی طرح ایم کیو ایم کو بھی معاف کر
دیں اور پھر سب مل بیٹھیں۔حکومت اپوزیشن عدلیہ مقننہ انتظامیہ اور عوام اور
فیصلہ کر لیں کہ ریاست کے خلاف آئیندہ جس کسی نے ایک لفظ بھی بولا اس کی
نسل تک مٹا دی جائے گی۔اس پہ پھر عمل بھی کریں۔مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ہم اپنے
عام معاملات میں بھی مخالفت نہیں کرتے دشمنیاں پالتے ہیں اور دشمنی تعصب
پیدا کرتی ہے اور متعصب معاشرہ کبھی درست فیصلے نہیں کر پاتا۔
الطاف کا جرم ناقابل معافی ہے لیکن کیا مجیب سے بڑھ کے یا ولی خان سے بھی
زیادہ ،کیاحکومتی کارندے اچکزئی سے اونچا اور کیا مولانا فضل الرحمن سے جو
ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور حکومت میں رہتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شکر ہے کہ
ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔فیصلہ آپ کا ہے ۔قومیں تعصب پہ
کبھی استوار نہیں ہوتیں۔ملک انصاف پہ چلا کرتے ہیں۔ |
|