1947ء میں معرض پاکستان کے وقت جتنے
مہاجرین بھارت سے بے سرو سامانی میں ہجرت کرکے پاکستان پہنچے کم و بیش اتنی
ہی تعداد مہاجرین کی اب کراچی میں آبا دہے۔ میرے نانا جو پاکستان بننے سے
پہلے کانپور میں ملٹری اکاؤنٹس میں سرکاری ملازم تھے سات بھائی اور بہنوں
میں پانچویں نمبر پر تھے۔ انہوں نے جب پاکستان بنا اپنے مذہبی رحجان او ر
مولانا شرف علی تھانوی کے ایک خلیفہ کے مرید ہونے کے باعث تمام خاندان سے
بغاوت کرکے ہجرت کا فیصلہ کیا کیوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایاجاگیا
تھا ۔ دنیا کے نقشے پر یہ دوسرا اسلامی ملک تھا جو اسلام کے نام پر معرض
وجود میں آیا۔ اسلئے انہوں نے حضور ﷺ کی سنت مبارک کو زندہ کرنے کیلئے اپنے
تمام خاندان ، والدین، بہن ، بھائیوں، جائیداد، نوکری کی قربانی دیکر ممبئی
کی بندرگاہ سے پانی کے جہا زکے ذریعے کراچی کا سفر کیا۔ ان کے والدین کو جب
ان کی ہجرت کا پتہ چلا تو انہوں نے انہیں روکنے کیلئے بھاگ دوڑ کی لیکن ان
کے ممبئی بندگارہ پہنچنے سے پہلے ہی جہاز روانہ ہوچکاتھا۔ میرے نانا مرحوم
پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو یاد کرتے رہے او ران
کے والدین انہیں پہلے ویزہ میں آسانی کے باعث دونوں ممالک کے لوگ آتے جاتے
رہتے تھے لیکن بعد ازاں مشکل ہوگئی جس کے باعث وہ اپنے والدین کے جنازے تک
میں شرکت نہ کرسکے۔ مذکورہ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ جانے کتنے
ایسے لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے وطن رشتہ داروں سے جدا ہوئے۔ کتنے سکھوں کے
ہتھے چڑھ گئے ۔ کتنے شہید ہوئے، تب جاکر یہ ملک بنا لیکن افسوس کا مقام ہے
کہ ہم نے اس ملک کو مختلف قوموں ، زبانوں، رنگ و نسل، علاقوں کے نام پر
تقسیم کردیا۔ ویسے تو پاکستان کے بنانے میں تمام قوموں کا جو یہاں بستے ہیں
حصہ ہے لیکن ہجرت کرنے والوں کاسب سے زیادہ ان لوگوں کی قربانی کو کراچی کی
حد تک الطاف حسین جیسے کرداروں نے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی۔ مہاجر کا
نعرہ لگاکر اس نے نہ صرف نفرتوں کا بیج بویا بلکہ وہ اور اس جیسے دوسرے
کردار جن میں پنجابی، پختون اتحاد ، بلوچ فرنٹ ، لیاری گینگ، امن کمیٹی، اے
این پی، سنی تحریک وغیرہ وغیرہ نے تعصیت، قومیت، علاقائیت، مذہب کے نام پر
پاکستان کے دل لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والے اکنامک ہب کراجی اور
اسکے 2کروڑ شہریوں کا سکھ و چین چھین لیا جو اقدام ہمارے مذہب اور ہمارے
نبی ﷺ کے فرمان کے خلاف ہوگا اسمیں کبھی خیر کا پہلو ہو ہی نہیں سکتا۔
لسانیت کی بنیاد پر جو بھی اپنی قوم یا علاقے کی بات کرتا ہے وہ شیطان کا
ساتھی اور اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے حکم کے خلاف چلنے کے باعث اﷲ کی مدد و
نصرت سے محروم ہوجاتاہے۔ سیدنا ابو ھریرہ ؓ کی ایک روایت ہے کہ جو شخص
نامعلوم جھنڈے کے نیچے (یعنی حق و باطل میں فرق کئے بغیر بلا مقصد) لڑا اور
عصبیت کی وجہ سے طیش میں آیا یا اسنے عصبیت کی طرف دعوت دی یا عصبیت کی
بنیاد پر کسی کی مدد کی اور قتل ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا(صحیح مسلم
4829باب الامر) الطاف حسین کا شروع دن سے یہ طریقہ سیاست رہاہے او راب بھی
ہے لیکن آخر کار بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کے مصداق ایک نہ ایک دن تو
اسے مست لیڈ ر جو اکثر ہوش میں نہیں ہوتا، کی پکڑ ہونی ہی تھی آخر اسکے
اپنے ہاتھوں ہوگئی پاکستان مردہ باد ، رینجر مردہ باد کے نعروں کو کوئی محب
وطن شہری برداشت کرہی نہیں سکتا۔ نہ ہی کوئی محب وطن کراچی میں رہنے والا
یا پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں یہاں پر یہ بات لکھتا چلوں کہ کیونکہ
میر ابچپن کراچی میں گذرا ۔ میرے دادے حال اور ننھیال کا تعلق اس شہر سے ہے
میں سے 80%لوگ الطاف حسین او اسکی جماعت کے سخت خلاف ہیں۔ کوئی بھی الیکشن
ہو تو اکثریت اپنے گھروں میں موجود رہتی ہے چند فیصدلوگوں کو یرغمال بناکر
ٹھپے لگاکر اپنے من پسند نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ کراچی جو میرا پسندیدہ
شہر تھا اب گذشتہ 10سالوں سے وہاں جانا ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ وہاں کے حالات
اجازت ہی نہیں دیتے ۔ پہلے رات2بجے تک کلفٹن کی سیر، صدر میں بندو کے کباب
کھانا، صدر میں موجود مارکیٹو ں میں شاپنگ، ہل پارک، ہاکسبے وغیرہ بے دھڑک
جانا، ہٹ کرائے پر لے کر پکنک کے پروگرامز لیکن اب وہاں پر حالات رینجرز کی
کارروائیوں کے باوجود سٹریٹ کرائمز کی صورتحال اتنی بہترنہیں ہے۔ بنگلو ں
میں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے شاید ہی کوئی بنگلہ ایسا ہو جہاں پر ڈکیتی،
نقب زنی کی واردات نہ ہوئی ہو لیکن اب عید، بقر عید پر زبدرستی نذرانے اور
کھالیں وصول کرنے، بھتے کی پرچیوں جیسے جرائم میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔
کراچی کے تفریحی پارک، بچوں کے کھیل کے میدانوں پر جسکا بس چلا قبضہ کیا
گیا او راپنے کارکنوں کو نوازا گیا۔ دفاتر اور عقوبت خانے بنائے گئے اب
الطاف حسین کی ہرزہ سرائی کے بعد تمام ناجائز تجاوزات اور دفاتر کے خلاف
بھی کارروائی ہورہی ہے۔ یہ کارروائی بلا امتیاز ہراس جماعت او رگروہ کے
خلاف ہونی چاہئیے جس نے کراچی کے حسن کو تباہ کیا اور لوگوں کی زندگی اجیرن
بنائی۔ ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں کو تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا
کیا جسکے باعث ہزاروں بے قصور مسلمان اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کراچی کا
کاروبار زندگی تباہ ہوا۔ کراچی میں ایک دن کی ہڑتال کے باعث 2 سے 5ارب کا
نقصان ہوتاہے۔ کراچی کے ناگفتہ بہ حالات کے باعث کھربوں روپیہ بیرون ملک
منتقل ہوگیا۔ کتنی ماؤں کی گودیں اجڑگئیں۔ کتنے بچے یتیم ہوئگے۔ کتنو ں کی
ذاتی املاک پر قبضہ گروپوں نے قبضہ کرلیا۔ مذکورہ تمام جرائم اور برائیوں
میں پی پی پی کی سندھ حکومت برابر کی شریک رہی ہے اور ہے۔ اسکی کرپشن، لوٹ
مار کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی ہونے سے ہی کراچی کے حالات مزید بہتر
ہوسکیں گے۔ بہرحال کم خس جہاں پاک کے مصداق کراچی کے لوگوں کی الطاف حسین
سے اﷲ تعالی نے جان چھڑادی ہے۔ اب ان کے اپنا دم بھرنے والے کارکن، ایم این
ایز، ایم پی ایز، اسکانام لینے سے گھبرارہے ہیں۔ اﷲ کرکے کہ پاکستان کے
وجود کے دشمن ہر شہری کا وجود او رنام ہی باقی نہ رہے۔ ہماری مرکزی حکومت
کو مصلحتوں سے نکل کر اب بیبیاک فیصلہ کرنے ہونگے اور ایم کیو ایم لندن کا
دھڑن تختہ بھی کرنا ہوگا۔ ہاں اگر ایم کیو ایم پاکستان محب وطن جماعت کا
ثبوت دیتے ہوئے ہر قسم کی لسانیت اور قومیت سے ہٹ کر سیاست کرتی ہے تو
انہیں پور اموقع ملنا چاہئے لیکن را کے ایجنٹوں اور پاکستان مردہ باد کا
نعرہ لگانے والوں کے خلاف غداری کے مقدامات قائم کرکے انہیں قرار واقعی سزا
دینا ہر محب وطن شہری کا مطالبہ ہے ۔ یہ ملک اﷲ کے حکم سے قائم رہنے کیلئے
بنا ہے کوئی اسے ختم کرنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتاہے۔
|