اہلِ شام کی امانت ودیانت
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
عرب ملک شام میں اس وقت خون کی بدترین ہولی
کھیلی جارہی ہے،حالانکہ جب بڑے بڑے بحری سفینے اور ہوائی جہاز نہیں بنے
تھے،اُس وقت لوگ حج کے لئے برّی راستے اختیار کرتے تھے،افریقی ممالک کے لوگ
مصر آکر صحرائے سینا اور کوہِ طورکے آس پاس سے ہوتے ہوئے قدیم شام موجودہ
فلسطین ،اردن اورسوریا کے مختلف علاقوں سے جزیرۃ العرب کے ریگستانوں کو طے
کرکے حجاز مقدس یعنی حرمین شریفین جاتے،ایشیائی اور یورپی حجاج عراق وترکی
سے ہوتے ہوئے شام میں داخل ہوتے اور پھر وہاں سے سفرکےاگلے مرحلے کی تیاری
کرتے،گویا شام ان سب کی ملنے کی جگہ ،مُلتقیٰ،اور سنگم تھا،بہت سے حاجی
ضرورت سے زائداشیاء مثلاًسونا چاندی اور دراہم ودنانیر شامی تاجروں میں سے
کسی کے بھی پاس امانت چھوڑ کر واپسی میں ان سے لے لیتےاور اپنے وطن روانہ
ہوجاتے،اسی طرح ایک دور دراز کاحاجی صاحب طویل سفر کرکےبلادِشام پہنچے،اس
کے پاس لال کپڑے کی ایک پوٹلی تھی،اس میں تین ہزار درہم تھے،اس نے دمشق
کےمدحت باشا مارکیٹ جس کو السوق الطویل بھی کہتے ہیں میں ایک دکاندار کے
پاس وہ پوٹلی بطورِ امانت رکھنے کی خواہش کا اظہارکیا،دکاندار نے رقم گننے
کے بعدڈراز میں رکھی اور حاجی کو رخصت کردیا،حاجی مطمئن ہوکرحجاز کے لئے
روانہ ہوگیا،آرام سے حج کیا ،زیارتیں کیں،تین چار ماہ کے بعد واپسی کے لئے
عازم سفر ہوا،جزیرۃ العرب کے صحراؤں کو پاٹتاہوا شام پہنچ گیا،دمشق کے اسی
بازار میں آگیا،ایک دکاندار کے سامنے کھڑا ہوگیا،سیٹھ صاب کے بارے میں
پوچھا،کام کرنے والوں نے بتایا،وہ کسی کام سے گھر گیا ہے،ابھی
آجائینگے،آپ بیٹھیئے،ذرہ سانس لیجیئے،پانی نوش فرمائیے،اتنے میں سیٹھ صاب
اپنے گھر سے آتے ہوئےنمودار ہوگئے،پردیسی حاجی نے آگے بڑھ کر اس سے
مصافحہ کیا،خیریت معلوم کی،حال احوال پوچھے،پھرکہنے لگا،سیٹھ صاب میں حج
کرکے آگیا،اس نے اسے مبارکباد دی،بٹھایا،پانی وانی پلایا،پھر کہا کوئی
خدمت؟ ۔۔۔۔حاجی کو خیال ہوا کہ یہ بھول گیاہے،میں اور میری رقم اسے یاد
نہیں،توحاجی نے کہا ،وہ میری پوٹلی، دکاندار کو اس کی شکل وصورت یاد تھی نہ
کوئی پوٹلی،پھر بھی انہوں نے بڑے سلیقے سے کہا،حاجی صاب ،پوٹلی کا رنگ کیا
تھا،اس نے کہا ،لال،اچھا اس میں رقم کتنی تھی،حاجی نے کہا،تین ہزار
درہم،اچھا آپ کا نام کیا ہے،کون سے علاقے کے ہو،کس تاریخ کو وہ رقم
رکھوائی تھی،حاجی فوراًٍ فوراً سب جوابات دیتارہا،اب حاجی یہ سوچ رہاتھا کہ
سیٹھ کو یاد تو آگیا،مگر یہ سب کچھ اس لئے پوچھ رہاہے کہ رقم اصل مالک کے
بجائےکہیں کسی اور کو نہ دے ڈالے،اس لئے بڑے اطمینان سے وہ اُسے امانت کی
نشانات وعلامات بتارہاتھا،دکاندار نے اپنے کارندوں سےکہا،ان کے لئے کھانا
منگواؤ،پھر حاجی سے کہنے لگا،آپ تشریف رکھیں،تسلی سےکھانا کھائیں،میں
آتاہوں،وہ باہرگیا، رقم اور تھیلی کا بندوبست کرکے تھوڑی دیر میں چلا
آیا،حاجی کو پوٹلی پکڑادی،حاجی نے رقم نکالی،گن لی،پورے تین ہزار درہم
تھے،اس نے دکاندار کا بہت بہت شکریہ اداکیا،رخصت لی اور چل دیا،تھوڑا آگے
چل کراسی بازار میں وہ ایک دکان کے سامنے سے گذررہاتھاکہ حیرت میں پڑگیا،دل
ہی دل میں کہنے لگا، ارے وہ دکان تو یہ تھی جہاں میں نےرقم رکھوائی تھی،پھر
بھی اسےتردّد تھا،اتنے میں اس دکاندار نے اسے آواز دی،حج کی مبارکباد
دی،خیریت سے اس کی واپسی پر اللہ کا شکر اداکیا اور جب یہ دکان کے اندر
آیا ،تو دکاندار نے ہاتھ بڑھاکر وہ پوٹلی نکالی اور کہا،یہ رہی آپ کی رقم،
گن لیجیئے جناب،اس نے پوٹلی کو بغور دیکھا، رقم نکال کر گنی،حیران
وپریشان،سوچوں میں گم سُم،دکاندار نے کہا،کیا بات ہے، آپ پریشان سے ہوگئے،
کوئی کمی بیشی تو نہیں۔ارے فکر نہ کریں ہم ہیں نا،بتائیے ،کیا مسئلہ
ہے،حاجی صاب بالکل خاموش،متفکر،دکاندار نے پھر کہاکہ حاجی صاب ،حج
ہوگیا،راستے میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی،آپ خیر وعافیت سے لوٹ آئے،یہ
بڑاکام تھا، رقم یا کسی چیز کی فکر نہ کریں،کمی بیشی یا کوئی مسئلہ ہے،تو
ہم کس کام کے۔۔۔بڑی دیر کے بعدحاجی گویا ہوا،تم شام کے لوگ کیا لوگ ہویار،
سیٹھ نے کہا،کیوں،ارے یہ تو ہمارا فرض بنتاہے،آپ کی امانت رکھی اور آپ
آگئے تو واپس کی،اس میں ایسی کونسی بڑی بات ہے،آپ کا یہ اعتماد ہی تو
ہمارا سرمایہ ہے،حاجی نے کہا،نہیں بھائی،مسئلہ امانت واپس کرنے کا
نہیں،دکاندار نے کہا،پھر کیا ہے،حاجی نے کہا،میں آپ کی دکان بھول کر ایک
اور دکان میں گیا،وہاں کے سیٹھ صاب نے پہلے ہمارا تفصیلی انٹرویو کیا،جب
اسے یقین ہوگیا کہ اس نے یہاں کہیں اپنی رقم رکھی تھی اور بھول رہاہے،تو اس
نے یہ دیکھو، اسی طرح کی پوٹلی اور تین ہزار درہم کا بندوبست کیا،کھانا بھی
کھلایا اور گویا اپنی ذاتی رقم دے کر رخصت کیا۔
اب اس دکاندار نے کہا جس کے پاس حقیقت میں وہ رقم تھی اور چند گھڑیاں قبل
حاجی کو واپس کردی تھی،چلیں اُس سیٹھ کے پاس جاتے ہیں،جس نے تمہیں اپنی
ذاتی رقم دی ہے،اسے اس کی رقم واپس کرتے ہیں،وہاں گئے،علیک سلیک کے بعد
حاجی صاب نے کہا،معاف کرنا حضرت ،میں نے رقم اِس شخص کے پاس رکھی تھی،سفر،
اجنبیت اور دکانوں میں مشابہت کی وجہ سے مجھے مغالطہ ہوگیا،رقم کا مطالبہ
آپ سے کیا،آپ نے دے بھی دی،لیکن آگے چل کر ان کے پاس گذر رہاتھا،تو
انہوں نے آواز دی اور میری رقم اسی پوٹلی میں میرے حوالے کردی،اُ س پہلے
والے سیٹھ نے کہا کہ جب آپ آئے تھے،تو مجھے اندازہ ہوگیاتھا،کہ یہ بھول
گیاہے،میرے پاس اس کی رقم نہیں ہے،پر اس کی رقم یہاں کسی نہ کسی کے پاس
ضرور ہے،میں نےسوچا،اگر میں انکار کروں تو یہ کبیدہ خاطر ہوکر واپس اپنے
ملک جائےگا،شامیوں کے متعلق بتائے گا،کہ خیانت کرتے ہیں،ہماری قوم اور ملک
کی بدنامی ہوگی،تو میں باہر گیا،کچھ سامان بیچا،جس سے 1000ہزار درہم ہاتھ
لگ گئے،500سو میرے پاس جیب میں تھے،1500سو قرض لیا،ایک لال کپڑا لیا،پوٹلی
بنائی اور یوں چپ چاپ آپ کو رقم دیدی۔یہ ہوتی ہیں قومیں اور یہ ہوتی ہے
امانت ودیانت،شامیوں کی غیرت ،مہمان نوازی اور ایمانداری دنیا میں مشہور
ہے،اللہ تعالیٰ شام کے عوام کو موجودہ مشکل حالات سے نکالے،ہمارے یہاں
کرپشن،خیانت اور فراڈ کے اس ماحول میں کوئی اس کا تصور کر سکتاہے؟کیا افرد
، کیا ادارے، سب کےدامن کرپشن کے دھبوں سے صرف داغدار نہیں بلکہ غار غار
ہیں۔ |
|