متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کرنے کے
حوالے سے پاکستان تحریک انصاف متحرک ہو گئی ہے ۔ مذکورہ جماعت کے کراچی کے
رہنما فیصل واڈا نے ایم کیو ایم (پاکستان) پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خط لکھ دیا ہے جبکہ دوسری طرف کچھ دیر بعد
انھوں نے اس سلسلے میں عدالت سے بھی رجوع کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر مسلم
لیگ ن کے پنجاب کے وزیر اور پارٹی کے مرکزی رہنما رانا ثناء اﷲ نے متحدہ
قومی موومنٹ پر پابندی عائد کرنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ
رینجر ز ہمارے سر کا تاج ہیں لیکن کسی سیاسی جماعت کے دفاتر مسمار کرنا
رینجرز کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اچانک ایم
کیو ایم کے حوالے سے تقریباً یو ٹرن لیا گیا ہے ۔ کل تک ڈاکٹر عارف علوی
سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کا موقف تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے دفاتر کو
مسمار نہیں کرناچاہیے بلکہ اس معاملے کو سیاسی طور پر حل ہونا چاہیے جبکہ
ایم کیو ایم پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے بھی تحریک انصاف وہی موقف تھا
کہ جو رانا ثناء اﷲ یا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا تھا لیکن
اب اچانک پی ٹی آئی نے نئے موقف کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کیا ہے۔ اچانک
پاکستان تحریک انصاف کو کراچی کی نئی صورت حال میں اپنی سیاست کی بہت
گنجائش نظر آنے لگی ہے اور اب پی ٹی آئی کی یہ خواہش ہے کہ اسے کھل کرکراچی
میں کھیلنے کا موقع ملے۔اس کیلئے اگر متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائدکی
جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے خیال میں اس سے بہتر موقع اس کے ہاتھ نہیں آ
سکتا۔جبکہ دوسری طرف پاک سر زمین پارٹی کا بھی یہی موقف ہے ۔ جب سے ڈاکٹر
فاروق ستار نے الطاف حسین سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کیا ہے اس وقت سے پاک
سر زمین پارٹی میں ایک اضطرابی کیفیت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم
پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے اور ڈاکٹر فاروق ستار سمیت اس کے تمام
رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں تاکہ پی ایس پی
کو آئندہ انتخابات میں کراچی کے عوام کا مکمل مینڈیٹ حاصل ہو سکے اور وہ
اپنے آپ کو متحدہ قومی موومنٹ کا متبادل ثابت کر سکیں لیکن اگر متحدہ پر
پابندی عائد نہیں ہوتی تو پھر ان دونوں جماعتوں، پی ایس پی اور پی ٹی آئی،
کے لئے ایم کیو ایم کراچی کے عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ
ہی ثابت ہو گی۔ بہت اہم سوال یہ ہے کہ فیصل واڈا آرمی چیف کو خط لکھ کر ہی
کیوں ایم کیو ایم پر پابندی لگوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب ان کی طرف سے
لکھے ہوئے خط پر پارٹی کے اندر اور باہر سے تنقید کی گئی تو انھوں نے اس
سلسلے میں فوراً عدالت بھی جانیکا فیصلہ کر لیا۔اکثر اوقات پاکستان تحریک
انصاف اپنی پالیسیوں سے یہ اشارے دے رہی ہوتی ہے کہ وہ کس کی زبان بولتے
ہیں اور کس کے کہنے پر کوئی بھی مطالبہ کرتے ہیں یا تحریک چلاتے ہیں یا کس
کہنے پر وہ کئی کئی مہینے دھرنا دیتے ہیں اور کس کے کہنے پر دھرنا ختم کر
دیتے ہیں۔فیصل واڈا کی طرف سے آرمی چیف کو لکھا جانے والا خط اس اعتبار سے
بھی خلاف ضابطہ اور خلاف قانون ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے آرمی چیف کا یہ
اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگائے یا اس حوالے سے کوئی
فیصلہ کریں ۔ یہ کام حکومت پاکستان کا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی ملک
دشمن سرگرمیوں کے پیش نظر اس پابندی عائد کرے یا پھر یہ کام عدالتوں کا ہے
کہ وہ از خود نوٹس کے ذریعے یا پھر کسی درخواست گزار کی طرف سے آئی ہوئی
پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ثبوتوں کی بنیاد پر سیاسی جماعت پر پابندی کا
فیصلہ سنائیں۔ہمارے کچھ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے طور پر یہ
فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک میں ہر سیاہ سفید کا مالک آرمی چیف ہے۔ اس طرح کے
مطالبات کر کے یہ سیاسی جماعتیں اور افراد آرمی چیف کی پوزیشن کو بھی خراب
کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی کوئی
اچھا پیغام نہیں جاتا۔سیاسی نشیب و فراز اپنی جگہ لیکن سیاست میں رولز آف
دی گیم کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پی ایس پی نے اگر چہ آرمی چیف کو ایم
کیو ایم پر پابندی لگانے کے حوالے سے کوئی درخواست نہیں کی تاہم ان کا بھی
مقصد موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا ہے اور ایم کیو ایم کی طرف سے ممکنہ طور
پر خالی ہونے والی جگہوں کو پر کرنا ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اب
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور مقتدر ادارے کسی بھی ایک پارٹی کو کراچی میں مکمل
اختیار نہیں دیں گے ۔ ان کی کوشش ہو گی کہ کراچی کا مینڈیٹ منقسم رہے۔ اس
میں تھوڑا تھوڑا حصہ تمام جماعتوں اور نئی ٹیسٹ ٹیوب جماعت کو بھی مل جائے
تاکہ کوئی بھی پارٹی مستقبل میں کراچی میں امن و امان کی صورت حال کیلئے
چیلنج نہ بن سکے اور اسٹبلشمنٹ اور حکومت کو بلیک میل نہ کر سکے۔ کراچی کے
حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار بھی مقتدر اداروں کو اتنے ہی عزیز ہیں کہ جتنا
کہ کوئی بھی دوسرا رہنما۔ اب جنگ یہ ہے کہ کون اپنے آپ کو زیادہ وفادار
ثابت کرتا ہے لیکن تمام تر وفاداریوں کے باوجود کسی بھی ایک جماعت خاص طور
پر پی ایس پی یا ایم کیو ایم (پاکستان) کے حوالے پورا کراچی نہیں کیا جائے
گا اور نہ ہی اب کوئی دوسرا الطاف حسین بننے دیا جائے گا تاہم امید ہے کہ
سب کو ان کا جائز حصہ ملے گا لیکن اگر مہاجروں کی منقسم قیادت نے ایک پلیٹ
فارم پر جمع ہو کر کوئی حکمت عملی بنائی تو کوئی بہتر صورت پیدا ہو سکتی ہے
لیکن اس بہتری میں بھی کسی نئے الطاف حسین کی کوئی گنجائش نہیں۔
|