تقریباً آٹھ سال بعد کراچی کو سٹی ناظم کے
بجائے نیا میئر مل گیا اور اس نے با ضابطہ طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا
لیا۔ ایم کیو ایم کے وسیم اختر نے میئر کراچی اور ایم کیو ایم ہی کے ارشد
وہرہ نے ڈپٹی میئر کراچی کے عہدوں کا حلف اٹھا کر کام شروع کر دیا ہے۔ حلف
برداری کی تقریب میں ایم کیو ایم (پاکستان) کی اعلی قیادت نے شرکت کی جس
میں ڈاکٹر فاروق ستار اور صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار
الحسن سمیت دیگر رہنما شامل تھے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد وسیم اختر نے
اپنے خطاب میں اور بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہر
زبان بولنے والا اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا رہتا ہے، ان کا کسی سے
کوئی اختلاف نہیں اور وہ بلا امتیاز کراچی میں ر ہنے والے تمام لوگوں کی خد
مت کریں گے ۔ وسیم اختر نے یہ بھی کہا کہ ان کا صوبائی وزیر بلدیات جام خان
شورو سے بھی کوئی اختلاف نہیں اور ضرورت پڑنے پر وہ ان کی گھر بھی چلے
جائیں گے۔ اس موقع پر کراچی کے نئے میئر نے جئے متحدہ ، جئے بھٹو اور جئے
عمران کے نعرے بھی لگائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایم کیو
ایم کی محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی پالیسی ہو گی اور وہ بلدیاتی الیکشن
میں کامیابی حاصل کرنے والی تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ یہ
بھی ایم کیو ایم کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے کسی رہنما
نے تقریب حلف برداری کے بعد الطاف حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بجائے
کسی اور جماعت کے رہنماؤں کا نام لیکر جئے بھٹو اور جئے عمران کے نعرے
لگائے ہوں۔یہ ایم کیو ایم کی پالیسی میں بڑی شفٹ ہے تاہم اب تک یہ واضح
نہیں ہو سکا کہ ایم کیو ایم کا اصل کنوینئر کون ہے۔ ایم کیوایم کی ایک
رہنما سلمان بلوچ نے منگل کو ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم
کیو ایم کے کنوینئر لندن میں موجود ندیم نصرت ہی ہیں جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر
فاروق ستار کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ انھوں نے ندیم نصرت سمیت لندن کے
دیگر رہنماؤں کو واٹس اپ گروپ سے نکال دیاہے۔خیر یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس
پر آئندہ کالم میں تفصیل سے لکھوں گا لیکن یہاں اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں
کہ جئے بھٹو اور جئے عمران کے نعروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم بہت
زیادہ دباؤ کا شکا ر ہے اور وہ اپنے اوپر موجود دباؤ کم کرنے کے لئے ہر وہ
اقدام اٹھا رہی ہے کہ جو یہ تاثر کم کرے کہ ایم کیو ایم کے اب بھی تانے
بانے لندن ہی میں موجود ہیں اور اس کی ڈوریاں لندن ہی سے ہلائی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے کراچی میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت اور رہنما بھی غیر
معمولی کنفیوژن کا شکار ہیں اور بوکھلاہٹ میں کبھی کچھ بیان دیتے ہیں ،
کبھی کچھ اور کہتے ہیں جس سے ان کے پہلے والے بیان کی نفی ہو جاتی ہے ۔
کراچی کے نئے میئر کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ ان کی خواہش کے
باوجود حلف برداری کی تقریب کے بعد انھیں مزار قائد پر حاضری نہیں دینے دی
گئی اور حلف برداری کی تقریب کے بعد انھیں کچھ دیر تذبذب کے بعد کراچی
سینٹرل جیل پہنچا دیا گیا جہاں سے انھوں نے بحیثیت میئر کراچی کام شروع کر
دیا ہے۔جیل میں انھیںBکلاس ہی میں رکھا گیا ہے کہ جہاں وہ ایک الگ سیل میں
ہیں جس میں انھیں ایک کرسی اور میز کی سہولت پہلے سے حاصل ہے تاہم امکان ہے
کہ حلف برداری کے بعد انھیں جیل میں مزید سہولتیں فراہم کر دی جائیں
گی۔وسیم اختر کی مزار قائد پر حاضری کی خواہش اتنی غیر معقول اور غیر منطقی
بھی نہیں تھی کہ انتظامیہ نے انھیں مزار قائد پر حاضری کا موقع دئیے بغیر
سیدھا جیل پہنچا دیا۔ وسیم اختر نے اپنی اس خواہش میں بھی اپنے آپ کو اور
ایم کیوایم کو محب وطن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور بظاہر وسیم اختر کی اس
خواہش میں کچھ غلط بھی نظر نہیں آتا۔ سیاسی طور پر یہ سندھ حکومت اور
رکراچی کی جیل انتظامیہ کا ایسا اقدام ہے کہ جس سے ایم کیو ایم اور اس کے
رہنماؤں کے لئے ہمدردیوں کا مزید دروازہ کھولا گیا ہے۔ بظاہر یہ بہت معمولی
بات لگتی ہے لیکن اس سے سندھ حکومت کی غیر سیاسی فکر کا اندازہ ہوتا ہے ،
یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ وزیر اعلی سندھ ٹیلیفون پر ہی وسیم اختر کو
مزار قائد پر لے جانے کی اجازت دے دیتے ۔ خیر چلئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جیل میں بیٹھ کر وسیم اختر کراچی کے شہریوں کی کیسے خدمت
کریں گے کہ جب انھیں کوئی معقول سہولتیں بھی میسر نہیں اور اگر یہ سہولتیں
مل بھی جائیں تو شاید وہ اسطرح پرفارم نہ کر سکیں جس کی تباہ حال کراچی کے
شہریوں کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔اس حوالے سے ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ
کیا سندھ حکومت ایم کیوایم کے نئے میئر کو کھل کر کام کرنے کا موقع دے گی؟
ان حالات میں کہ جب قانونی اعتبار سے میئر کراچی کو کوئی خاص اختیارات حاصل
نہیں ۔ تمام تر اختیارات وزیر بلدیات کے پاس ہیں ایسے ماحول میں وسیم اختر
سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں ؟ وزیر بلدیات کو حاصل اختیارات کی
روشنی میں اور وسیم اختر کی لاچاری کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئے
میئر کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ بھر کے منتخب بلدیاتی قیادت کو وزیر بلدیات
کے احکامات کے سامنے سر جھکانا پڑے گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ایک محاذ
آرائی کی کیفیت ہو گی جسے فی الحال ایم کیو ایم افورڈ نہیں کر سکتی۔ |