پاک بھارت جنگ کے چند اہم واقعات

عمار صدیقی کی کتاب "مجاہدین صف شکن "میں ایک شخص کا خط بھی شائع ہوا۔ وہ شخص5 اور 6 ستمبر1965کی درمیانی رات مسجد نبوی میں موجود تھا ۔نوافل کی ادائیگی کے دوران اسے اونگھ آگئی ۔اس نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ٗ صحابہ کرام کے ہمراہ تیزرفتار گھوڑے پرسوار ہوکر کہیں جارہے ہیں ۔اس شخص نے قدم بوسی کرتے ہوئے پوچھا یا رسول ﷺ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا ٗپاکستان پر حملہ ہونے والا ہے ہم دفاع کے لیے جارہے ہیں۔اسی جنگ میں آسمان پر تلوار نمودار ہوئی تھی جس کی نوک بھارت کی جانب تھی ۔جن لوگوں نے اپنی ہوش میں جنگ دیکھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے۔واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس وقت ہماری انٹیلی اجنسی بھارتی حملے سے بے خبر تھی اور میجر شفقت بلوچ بھارتی حملے سے صرف چندگھنٹے پہلے اپنی کمپنی کے ہمراہ ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پہنچے تھے۔ ابھی مورچے بھی نہیں کھدے تھے کہ اذان فجر کے وقت فائرنگ کی آواز نے انہیں متوجہ کرلیا۔ انہوں نے رینجر سے رابطہ کیاتو انہیں یہ آواز سنائی دی ۔ سر انڈین آرمی نے پاکستان پر حملہ کردیاہے ۔ یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ کرنل کمانڈ اور بریگیڈہیڈکوارٹر بھی بے خبر تھے ۔میجر شفقت بلوچ نے جب انہیں اطلاع دی تووہ اس وقت سو رہے تھے۔ انہوں نے کہااگر تم صرف دو گھنٹے بھارتی فوج کو روک لو تو یہ پوری قوم پرآپ کااحسان ہوگا ۔ میجر شفقت نے جواب دیا ٗسر میں آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑوں گا۔حیرت کی بات ہے کہ واہگہ سرحد کی جانب ہمارا کوئی فوجی تعینات نہیں تھا۔ انڈین آرمی کے افسر اپنی جیپ پر سوار شالیمار باغ آئے لیکن پھران کے دل میں خوف پیدا ہواکہ کہیں ان کو گھیرا تو نہیں ڈالا جارہا یہ سوچ کر واپس بھاگ گئے ۔باٹا پور فیکٹری سے جوتیاں اور ڈبل ڈیکر بس پکڑ کرامرتسرلے گئے ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک سو دس جوانوں پر مشتمل 17 پنجاب ڈی کمپنی نے پورے بھارتی بریگیڈکو نہ صرف دس گھنٹے تک روکے رکھابلکہ دوبارہ حملہ آور ہونے کے لیے بھارت کو نیا بریگیڈ لانچ کرنا پڑا ۔یہ بھی اتفاق دیکھیے کہ حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ (المعروف کرماں والے )کاٗ انہی دنوں میو ہسپتال لاہورمیں پروسٹیٹ کا آپریشن ہوا تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں سفرسے منع کررکھاتھا۔ وہ گلبرگ میں ایک مرید کے گھر قیام پذیر تھے۔ 3ستمبر کی صبح انہوں نے گاڑی تیار کرنے کاحکم دیا ٗ مریدوں نے سمجھا شاید وہ اپنے شہر جارہے ہیں لیکن وہ واہگہ بارڈر جاپہنچے اور وہاں ایک چارپائی پر بیٹھ کر مٹھی میں مٹی بھرکر اس پر قرآنی آیات پڑھی اورانڈیا کی طرف پھینک دی۔اگلی صبح پھر آپ برکی سیکٹر جاپہنچے اور یہی عمل دھرایا ٗ تیسرے دن آپ گنڈا سنگھ بارڈ جا پہنچے اور مٹی پر کچھ پڑھ کر بھارت کی طرف پھینکا اورلاہور واپس آکر فرمایا الحمد اﷲ اب ہماری سرحدیں محفوظ ہیں۔ زخموں سے خون رسنے لگا تو مریدوں نے کہا حضور آپ یہ کام بعد میں بھی کرسکتے تھے ٗ ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کیا ہے ۔آپ ؒ نے فرمایا مجھے نبی کریم ﷺ کی جانب سے حکم ملا تھا جس کو مجھے ہر حال میں پورا کرنا تھا ۔اس لیے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ جنگ صرف پاک فوج نے ہی نہیں لڑی بلکہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام اور فرشتے بھی جنگ بدر کی طرح اس جنگ میں شریک تھے دوسرے لفظوں میں یہ جنگ بدر ثانی تھی جس میں ایک مجاہد کے مقابلے میں دشمن کے بیس فوجی تھے۔ایک انٹرویو میں میجر شفقت نے بتایا کہ بھارتی فوج ہم پربارود کی بارش کررہی تھی لیکن میں ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پر کھڑا انہیں سامنے دیکھ کر فائر کروا رہا تھا بھارتی ٹینک مجھ سے 200 میٹر دورتھے ۔ان کی کوئی گولی ہمیں نہیں لگی جبکہ ہماری ہر گولی اور فائر نشانے پر لگتا۔جنگ بدر میں بھی بادلوں میں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازوں نے کفار کو پریشان کردیا تھا کہ یہ کونسی فوج ہے جو دکھائی نہیں دیتی لیکن ان کی تلواروں سے گردنیں اڑی جارہی ہیں۔ وہاں بھی 313کے مقابلے میں ایک ہزار کفار تھے۔بھارتی فوج نے دس گھنٹے بعد جب میجر شفقت بلوچ کی کمپنی کو گھیرنا چاہا تو انہیں واپس آنے کا حکم مل گیا۔صرف دو جوان شہید ہوئے اور وہ بھی اپنی بارودی سرنگوں سے ٹکرا کر۔اب میجر عزیز بھٹی شہید کی کمپنی بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر تھی ۔میجر عزیر بھٹی نے دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے کے لیے جس چوبارے کا انتخاب کیااس پر بھی شدید ترین گولہ باری اور فضائی حملے ہوئے لیکن میجر اور ان کے ساتھیوں کو معمولی زخم بھی نہ آیا۔ جب بھارتی فوج نے چوبارے کو گھیر لیا تب میجر عزیز بھٹی دشمن کے سامنے چلتے ہوئے بی آر بی کے اس کنارے پر آگئے جہاں اس جنگ کا آخری معرکہ لڑاگیا۔ بھارتی فوج نے ہزاروں گولے فائر کیے لیکن کنارے پر کھڑے میجر عزیز بھٹی محفوظ رہے ۔ پھر جنگ بندی سے چند دن پہلے انہوں نے جام شہادت نوش کیا جنہیں نشان حیدر ملا۔ لیکن انہوں نے بھارتی فوج کو بی آر بی نہر عبور نہیں کرنے دی ۔یہ بات بھارتی پائلٹوں نے بھی اپنی کتابوں میں لکھی کہ ہم نے دریائے راوی کے پل کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمارا کوئی بم پل کے او پر نہیں گرا اور اگر کوئی بم پل پر گرنے بھی لگتا توایک سبز لباس والے بزرگ اس بم کو کیچ کرکے اپنے تھیلے میں ڈال لیتے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ سبز لباس والے بزرگ کون تھے جن پر بم بھی اثر نہیں کرتا تھا۔یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ 1965ء میں دریائے راوی پر صرف ایک پل ہی تھا۔اگر وہ تباہ ہوجاتاتو فوج کی نقل وحرکت ختم اور پاکستان وقتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ جاتا۔ لیکن یہ اﷲ کا ہم پر احسان تھا کہ بھارتی فضائیہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجودایک پل بھی نہیں توڑ سکی۔میں سمجھتاہوں 1965ء کی جنگ بظاہر پاک فوج نے لڑی تھی لیکن پس پردہ اﷲ تعالی کی تائید و حمایت ٗ نبی کریم ﷺ کی نظر عنایت اور اولیاء اﷲ کی عملی مددبھی شامل حال تھی۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.