عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد ؒکے نام سے
منسوب جبل الطارق یا جبرالٹرکا آپریشن کشمیر میں کیوں کیا گیا؟۔ صدر جنرل
ایوب خان کو کس نے یقین دلایا کہ بھارت کو کشمیر تک محدودرکھا جائے گا، وہ
لاہور، سیالکوٹ یا کسی دوسرے علاقہ سے حملہ آور نہ ہو گا۔کیا پاکستان نے
کشتیاں جلا کر میدان جنگ کی جانب پیش قدمی کی۔یہ مہمہ ہے کہ آپریشن کے بعد
ایوب خان کا زوال اور ذولفقار علی بھٹو کا عروج کیسے شروع ہو ا؟ جنرل موسیٰ
کا کردار کیا تھا؟ جنرل ایوب خان دھوکے سے کیسے قائل ہو گئے؟ میجر جنرل
اختر حسین ملک نے کیا منصوبہ بنایا ؟انھیں اکھنور میں پیش قدمی سے روکنے
والا کون تھا، قادیانی سازش کیا تھی؟۔وزارت خارجہ نے کیا مشورہ دیا؟
کشمیریوں کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ناکامی کا اعتراف کرنے سے ہچکچاہٹ
کس نے کی؟اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈالنے کی روایت کب قائم ہوئی؟ جنگ تیز
ہوتے ہی کمان بدلنے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔غلطیوں سے کیا سبق
ملا؟ جواب دینے والا کوئی نہیں۔ کوئی تحقیقات نہیں۔ کوئی کمیشن نہیں۔
معاملہ ایسا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
جنرل محمد موسیٰ اس وقت پاک فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ وہ اس آپریشن کے ایک
سال بعد تک آرمی چیف رہے۔ اپنی کتاب ’’مائی ورژن‘‘ یا میرا موقف میں لکھتے
ہیں کہ ، بھارت نے 6ستمبر 1965ء کو جی ایچ کیو، سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل
ایوب خان کو حیران کر دیا۔ 5اور6ستمبر کی رات ساڑھے تین بجے بھارت نے
پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ایوب خان کو پاک فضائیہ کے کمانڈر نے حملے کے بارے
میں آگاہ کیا۔ انہوں نے جنرل موسیٰ کو فون کیا اور معلومات حاصل کیں۔ وہ
لکھتے ہیں کہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، فارن سکریٹری عزیز احمد، آزاد
کشمیر میں فوج کی بارہویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک نے
آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ بنایا تھا۔ انھوں نے حکومت سے سفارش کی کہ وہ پاک
فوج کوکشمیر بھیجنے کی ہدایت دے تا کہ وہاں گوریلا کارروائیاں شروع کی
جائیں۔ اور بھارتی قبضے کے خاتمے کے لئے کشمیریوں کو متحرک کیا جائے اور ان
کی مدد کی جائے۔ اس ریڈ کو قبائلی ریڈ یا یلغارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب یہ ریڈ شروع ہوا تو قبائلی جنگجو وادی پہنچنے لگے۔ کوئی تیاری نہیں تھی۔
وادی کے عوام کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے ہمراہ ایس ایس جی
کمانڈوز بھی تھے۔ کوئی زاد راہ ، کوئی کمک نہ تھی۔ اسی ریڈ کا نام آپریشن
جبرالٹر رکھا گیا۔ یہ کوڈ نام تھا۔ کمانڈر 12ڈویژن اختر حسین کو جی ایچ کیو
کے تعاون سے پلان کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت جنرل موسیٰ نے دی تھی۔ جی
ایچ کیو نے پلان منظور کیا۔ جنرل ایوب خان اور ان کے ملٹری سکریٹری ، سی جی
ایس میجر جنرل شیر بہادر، ملٹری آپریشنز اور انٹیلی جنس کے ڈائریکٹرز
بریگیڈیئر گل حسن اور ارشاد احمد خان بریفنگ میں موجود تھے۔ ایوب خان
آپریشن پر تیار ہو گئے۔ بریفنگ میں کوئی سویلین موجود نہ تھا۔ منصوبہ
مقبوضہ کشمیر میں فوجی تنصیبات، مواصلات کی تباہی، کشمیریوں میں اسلحہ کی
تقسیم، گوریلا تحریک کی شروعات وغیر ہ کا تھا۔
اکھنور کی جانب پیش قدمی اس کا حصہ نہ تھی۔ اسے آخری حربے کے طور آزمانے کی
بات ہوئی۔ لیکن جب کرناہ اور کیرن ، حاجی پیر کے علاقوں پر قبضہ شروع کیا
تو چھمب سے آگے اکھنور کی جانب پیش قدمی کی گئی تا کہ بھارتی دباؤ کم کیا
جائے۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بھارت کو کشمیرتک محدود رکھا جائے
گا۔ بھارت پاکستان پر حملے کی جرائت نہیں کرے گا۔ لیکن یہ یقین دہانی اور
اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اس سے قبل پشاور میں پیراشوت ٹریننگ سکول میں ایک
بریفنگ میں کشمیر میں پیرا شوٹس کی مدد سے فوج اتارنے کا منصوبہ بنا جو کہ
1956کی عرب اسرائیل جنگ جیسا ہو ۔ اس کی کامیابی کی بات کی گئی۔ جنرل موسیٰ
نے کشمیر میں ریڈ سے متعلق واضح کیا تھا کہ کشمیر میں گوریلا جنگ تب ہی
کامیاب ہو گی جب کشمیری اس کا حصہ بنیں گے ، تیاری کے لئے مزید وقت در کار
مانگا گیا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گوریلا جنگ میں اگر بھارت نے
سمجھا کہ وہ ہار رہا ہے تو وہ پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ بھارت کو ہرانے کہ
لئے مزید فوج ، بہتر اسلحہ اور تربیت کی ضرورت تھی۔ انھوں نے دو ڈویژن فوج
کی بھرتی کے لئے وزارت خزانہ سے پیسہ مانگا،لیکن انکار کر دیا گیا۔ آپریشن
شروع کرنے سے قبل مزید فوج بھرتی نہ ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے فوری بعد اسی
ماہ مزید دو ڈویژن فوج بھرتی کر لی گئی۔ جنرل موسیٰ اور جنرل شیر بہادر نے
اس کی مخالفت کی لیکن ضد پر نہ اڑے رہے۔ آپریشن کا کمال دیکھیں کہ جس قوم
کو آزاد کرانا تھا اسے کچھ نہ بتایا گیا۔ اس کا اعتراف جنرل موسیٰ کی کتاب
میں بھی کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت تک کو اس منصوبے کا علم نہ ہونے دیا
گیا۔ پھر جب عوامی حمایت کا احساس ہوا تو پہلے سے قائم لبریشن سیل کا
سربراہ چوھدری غلام عباس کو مقرر کیا گیا۔ انھوں نے اسے قبول نہ کیا۔ اور
اس منصوبے سے لاعلمی ظاہر کی۔ اس میں فارن آفس، وزارت داخلہ اور وزارت امور
کشمیر کے بعض سینئر لوگ ملوث تھے۔
قائد اعظم کے سکریٹری کے ایچ خورشید نے کہا کہ ایوب خان کو کمزور کرنے کے
لئے یہ منصوبہ بنایا گیا ۔اور وہ ا س کے انجام سے بے خبر تھے۔ ورنہ جس ایوب
خان نے بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی ، اسے کبھی منظور نہ کرتے۔
کیاسازش کے تحت کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی؟ یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی
کہ بھارت نے کشمیرکو بچانے کے لئے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ اس سے
بھارت کیلئے کشمیر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت نے کرگل اور
لیہہ تک جنگ پھیلا دی۔ جب آپریشن جبرالٹر کی ناکامی پر پاکستان نے آپریشن
گرینڈ سلام کے تحت مظفر آباد کے تحفظ کے لئے بھمبر، چھمب، اکھنور کی جانب
سے حملہ کیااور 8میل تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔اس موقعہ پر پاک فضائیہ کو
بھی با خبر نہ رکھا گیا۔اس وقت پاک فضائیہ کے چیف ائر مارشل نور خان تھے۔
ایئر چیف مارشل(ر)انور شمیم اپنی کتاب ’’ کٹنگ ایج پی اے ایف‘‘میں لکھتے
ہیں کہ فضائیہ کو آپریشن جبرالٹر سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس کے لئے کوئی
مشترکہ منصوبہ نہ بنا۔ جو لوگ اندر بھیجے گئے وہ نہ تو مقامی زبان سے واقف
تھے اور نہ راستے جانتے تھے۔ ۔ بھارت نے آزاد کشمیر کے جنوب کو شمال سے
کاٹنے کے لئے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔
ائر مارشل (ر)اصغر خان جو آپریشن جبرالٹر سے صرف ایک ماہ قبل جولائی
1965میں ریٹائر ہو گئے، انھوں نے ’’ دی فرسٹ راؤنڈ، انڈو پاکستان وار ‘‘میں
لکھا ہے کہ یہ پلان لانچنگ پیڈ پر ہی ناکام ہو گیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا گیا
کہ آپریشن فول پروف ہے۔ ہر کوئی اپنے کردار سے ہی باخبر ہے، دشمن منصوبہ کو
کبھی نہ جان سکے گا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ پہلے چار رضاکار جو بھارت نے پکڑے ،
نے 8اگست 65ء کو بھارتی فوج کی جانب سے سرحد پار کرنے سے ایک ماہ قبل ہی آل
انڈیا ریڈیو پر تمام منصوبہ بیان کر دیا۔ یہ منصوبہ غفلت اور حماقت کی
داستان تھی۔
میاں ارشاد حسین اس وقت دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ جو بعد ازاں
وزیر خارجہ بنے، نے77ء میں مطالبہ کیا تھاکہ 65ء کی جنگ کی وجوہات کی
عدالتی تحقیقات کی جائے۔ کیوں کہ انھوں نے ترکی کے سفارتخانے کے زریعے
4ستمبر1965ء کو فارن آفس کوخبر دار کیا تھاکہ بھارت پاکستان پر حملے کا
پلان بنا رہا ہے۔ لیکن کوئی توجہ نہ دی گئی۔ پھر جنرل موسیٰ کا یہ کہنا کہ
بھارت نے حملہ کر کے حیران کر دیا، کتنا درست ہو سکتاے؟۔ آج 2016کا 4ستمبر
ہے۔ یہ نصف صدی کی کہانی ہے۔ کوئی ہے جو ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش کرے؟
1965میں کشمیر کی آزادی کے لئے آپریشن شروع کیا گیا۔ لیکن کشمیری اس سے بے
خبر تھے۔ پاک ائر فورس کے سربراہ بننے کے بعد جب ائر چیٖف نور خان کو پتہ
چلا کہ کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اہم آپریشن کے سلسلے میں ملک کی فضائیہ
کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تو انھوں نے از خود پاک فضائیہ کو الرٹ کر دیا۔
انھوں نے جنرل موسیٰ سے بھی اس کی شکایت کی ۔ تا ہم آپریشن فیلڈ مارشل ایوب
خان کی ہدایت پر راز میں رکھا گیا۔ ائر فورس کو بھی اندھیرے میں رکھا جانا
ناقال قبول تھا۔ وادی میں پاک کمانڈوز فاقہ کشی کے شکار تھے۔ انھیں کوئی
رسد اور کمک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کشمیری بھی بے خبر تھے۔ اپ رائزنگ کے
امکانات کم تھے۔ ایسے میں ائر مارشل نور خان نے انتہائی بہادری سے رات کے
اندھیرے میں راڈارز سے بچتے ہوئے سی130کی امدادی مشنز خود شروع کئے۔ وادی
میں مجاہدین کے ٹھکانوں پر سپلائی اتاری گئی۔
میجر جنرل اختر حسین ملک اور بریگیڈئر عبدل علی ملک دونوں بھائی قادیانی
تھی۔ دونوں نے 1965کی جنگ لڑی۔ اختر ملک نے ہی پاک فوج کے 12ویں ڈویژن کے
کمانڈور کے طور پر آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی کی۔ اس وقت ان کے بھائی
عبدل علی ملک 24انفینٹری بریگیڈ کے سیالکوٹ چھم سیکٹر میں کمانڈر تھے۔ کہا
جاتا ہے کہ ملک برادران قادیانی ہونے کی وجہ سے اس آپریشن کی ناکامی میں
قادیانی سازش بھی کار فرما تھی۔ یہ راز بھارت تک کس نے افشاء کیا کہ پاک
فوج بھارت کو جنگ کشمیر تک محدود رکھنے پر مجبور کر دے گی۔ لیکن ایسا نہ
ہوا۔ بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا۔
بھارتی جنرل جے این چوھدری نے لاہور جم خانہ اور شالیمار باغ میں فتح کا
جشن منانے کاا علان کر دیا۔ بھارت کی فوج لاہور اور سیالکوٹ کی جانب پیش
قدمی کرنے لگی۔ لیکنجنرل چوھدری کی حسرت دل میں ہی رہی۔یہی ارمان دل میں
چھپائے ان کی جان نکل گئی۔ لاہوریوں نے بھارت کے خواب بکھیر دیئے۔
پاکستانیوں نے متحد ہو کر ملک کا دفاع کیا۔ ملک کو توڑنے کی سازش ناکام ہو
گئی۔ جنگ کے دوران جنرل یحیٰ خان کو میدان میں اتارا گیا۔ وہ 7انفینٹری
ڈویژن کے جی او سی تھے۔ یکم ستمبر1965کو پاک فوج نے آپریشن گرینڈ سلام شروع
کر دیا۔ تا کہ بھارت پر دباؤ بڑھا دیا جائے۔ حملے کے دوسرے دن ہی جنرل اختر
ملک کو ہٹا کر جنرل یحیٰ خان کو نیا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ جنرل یحیٰ خان نے
حملہ ایک دن کے لئے روک دیا۔ یہی فیصلہ کن موقع تھا۔ دفاعی مورخ میجر(ر)اے
ایچ امین کے مطابق پاک فوج کی دفاعی پوزیشن مضبوط تھی۔ اسے بھارت پر دفاعی
لحاظ سے برتری حاصل تھی۔ تا ہم کمانڈ بدلنے سے الٹ ہو گیا۔ اکھنور سیکٹر پر
پاک فوج کی اچانک کمان بدلنے کی وجہ سے رک گئی۔ بھارت کو سنبھلنے کا موقع
مل گیا۔ اسے کمک حاصل ہو گئی۔ اس طرح کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کا مشن مکمل
نہ ہو سکا۔ 22 ستمبر کو اقوام متحدہ نے پاک بھارت کے درمیان سیز فائر کرا
دیا۔ بھارت لاہور اور سیالکوٹ کے جنوب میں نہروں پر قبضہ نہ کر سکا۔ پاک
فضائیہ نے پٹھانکوٹ، آدم پور اور ہلواڑہ ہوایہ اڈوں کو تباہ کر دیا۔امرتسر
میں اہم راڈار سٹیشن اڑا دیا۔پاکستانی جانباز ایم ایم عالم نے صرف45سیکنڈز
میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے ہاک ہنٹرز تباہ کر دیئے۔پاک بحریہ کی سب
میرین پی این ایس غازی نے بھارتی بحریہ کی تمام سر گرمیاں منجمد کر دیں۔وہ
کراچی بندرگاہ کے قریب تک نہ آسکی۔ جب کہ بھارتی بحریہ کا دوارکا اڈہ تباہ
کر دیا گیا۔ جب کہ بھارتی لڑاکا طیارے سرگودھا ائر بیس پر ایک بم تک نہ گرا
سکے۔ جنگ روکنے کے لئے بھارت ہی اقوام متحدہ کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستان نے
جم کر لڑا۔ چونڈہ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ہوئی۔ جس میں پاک فوج نے
دشمن کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے۔
یحیٰ خان کو اکھنور پر پیش قدمی روکنے اور بھارت کو کمک حاصل کرنے کا موقع
نہ دیا جاتا تو کہا جاتا ہے کہ نتائج مختلف ہوتے۔ ایسا کیوں ہوا، یہ کوئی
نہیں جانتا۔ اس جنگ سے ہی ایوب خان کا زوال اور ذولفقار علی بھٹو کو عروج
شروع ہوا۔ مگر یحیٰ خان کویہ صلہ ملا کہ وہ ایک سال بعد ہی پاک فوج کے چیف
بنا دیئے گئے۔ باقی تاریخ ہے۔ آج کشمیرمیں شدید اپ رائزنگ ہے۔ بھارت کے
خلاف عوام تقریباً دو ماہ سے سڑکوں پر ہیں۔ کرفیو، ہڑتالیں، مظاہرے، جلسے
جلوس جاری ہیں۔ پاکستان میں یوم دفاع منایا جا رہا ہے۔ جب تک کشمیر بھارت
کے قبضے میں ہے، تب تک پاکستان کا دفاع مضبوط نہیں سمجھا جا سکتا۔ کشمیر کی
آزادی ہی پاکستان کو ناقابل شکست بنا سکتی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے بعد ہی
پاکستان یوم دفاع شان و شوکت سے منانے کی روایت قائم کر سکتا ہے۔ |