کہانی اپنے ہندوستان کی: قسط (15) تاریخ کی بھول
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
آج ہمارے ملک ہندوستان میں اکثر لوگ حقیقت
سے پرے افواہوں اور ہفوات پر زیادہ کان دھرتے ہیں، بلکہ جس قوم اور شخص کے
خلاف آتشِ بھگوائی روشن کی جاتی ہے، لوگ اسے نورِ یزدانی سمجھ کر اس کے آگے
اپنی جبینِ نیازخم کردیتے ہیں ،ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی آمدسے وہاں
کے غریبوں اور دلتوں کو جینے کا حوصلہ ملا، مگرآتشِ بھگوائی کے دہکتے شعلوں
نے ان کی گیارہ سو سالہ روشن تاریخ کوبھی سیاہ کردیااور ملک کی تاریخی
کتابوں میں ان کا چہرہ اس قدر سفاک اور ہندودشمن بناکر پیش کیاکہ انہیں سُن
سُن اور پڑھ پڑھ کر بچپن سے ہی ذہن ودماغ میں مسلم دشمنی کالاوا پھوٹنے
لگتا ہے اور پھر یہی فسطائی اور طاغوتی طاقتیں اس آگ میں پیٹرول کاکام کرتی
ہیں ،ان کے خلاف نعرے اور دشنمام طرازیاں کرکے لوگوں کے جذبات کو مذہب کی
آڑ میں برانگیختہ کرنے کی ناکام کوششیں کرتی ہیں، ان پر یہ الزام لگایا
جاتا ہے کہ انہوں نے بزورِ شمشیر ہندوستانیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور
کیا، عام لوگوں کی زندگیوں کو جہنم کدہ بنا دیا ، عورتوں کو بے آبرو کیا
اور ان کی معبد گاہوں کو منہدم و مسمار کر کے مساجد تعمیرکیے،مگر اے کاش
کوئی تو ان کی آمد سے قبل ہندوستانی تاریخ کے دریچوں میں جھانکے کی سعی کرے
!شاید مجھے لوگ مسلم حکمراں دوست کا طعنہ دے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر
ہندوستان میں ا ن کی آمد نہ ہوئی ہوتی، تو شاید راجپوت، برہمن اور دوسری
بڑی ذاتی کے علاوہ عام لوگوں کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوتی ، بلکہ
قدیم ہندوستان کی تاریخ تو ملک کے آدی باسیوں، دلتوں اور غریبوں کے خون سے
ہی لکھی گئی ہے اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ ہمارا ملک
دنیائے جمہوریت کے افق پر عظیم جمہوری ملک ہونے کا علم نصب کرچکا ہے، اس کے
باوجود اس ملک کا ایک خاص طبقہ نچلی ذات کے لوگوں کو انسان تصور کرنے سے
بھی گریزکرتا ہے اور جہاں تک ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی آمد کا سوال ہے،
تواس کا آغاز 710 عیسوی سے ہوتاہے ، اس کے بعد تقریباً تین سو سال تک کسی
مسلم حکمراں نے ہندوستان کی طرف رخ نہیں کیا،پھرتقریباً دسیوں صدی عیسوی
میں ترکی، افغان اور مغلوں نے یکے بعد دیگرے ہندوستان میں اپنی آمد درج
کرائی اور پھر1857 ء تک ہندوستان کے مختلف خطوں پراپنی اپنی حکومت کا سکہ
جمایا ،ان ایام میں مختلف خانوادوں نے اس ملک پر تقریباً 1,147سال تک
حکومتیں کیں اور ہندوستانی سناتنی مؤرخ ’بابو ناگیندر ناتھ بنر جی‘ کے بقول
:’ اگر یہ حکمراں ظالم ہوتے اور یہاں کے ہندوؤں پر اسلام قبول کرنے کے
سلسلے میں جبر کیا ہوتا، تو آج ہندوستان میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان
چار گنا زیادہ ہوتے‘، بلکہ یہ خود آپ کو بھی دعوتِ فکردیتا ہے کہ اگران
حکمرانوں کی حکومت کی بنیاد صرف اور صرف ظلم پر ہوتی، تو وہ اتنی لمبی مدت
تک کیسے حکومت کرلیتے؟ اسی طرح اگرانہوں نے لوگوں کو دھوکہ دیکر اورگردن پر
تلوار رکھ کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیاہوتا، توکیا گیارہ سو سالوں کے
بعدبھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں اور پختہ یقین اور کامل ایمان کے ساتھ اپنے
اسلام پر ثابت قدم رہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ سب ہفوات جن کی آج زور
وشور سے تبلیغ چل رہی ہے ، ان کی کوئی بھی تاریخی حیثیت نہیں ہے، ہاں یہ
ایک حقیقت ہے کہ ان سلاطین وامرا نے اپنی اپنی حکومت کو دراز اور مستحکم
کرنے کے لیے جنگیں لڑی ہیں، بلکہ ان کے آپس میں بھی کئی جنگیں ہوئیں ہیں
اور ان جنگوں میں شکست خوردہ لوگوں کے جانی اور مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں،
لیکن ان کو کسی مذہب سے جوڑ کر اس مذہب کو گالی دینا ،یا اس کو موردِ الزام
ٹھہرانا کہاں کی دانش مندی ہوسکتی ہے؟اگر ہم ان لڑائیوں کو اسلام سے جوڑتے
ہیں، تو یہ بتایے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ان لڑائیوں میں مسلم راجاؤں کے
ساتھ ہندو فوج اور ہندو راجا ؤں کے ساتھ مسلم لڑاکے بھی کر ہوا کرتے
تھے؟چنانچہ18 یا 21 جون 1576کو مہارانا پرتاپ اور اکبر کے درمیان ’ہلدی
گھاٹی‘ کے میدان میں لڑائی ہوئی ، جس میں اکبر کی فوج کی سربراہی اکبرفوج
کا جرنیل’ مان سنگھ‘ کرررہا تھاجو کہ ایک ہندو تھا، جبکہ مہارانا پرتاپ کی
فوج کی قیادت حکیم خان سور کے ہاتھ میں تھی اور وہ ایک مسلمان تھا ، بلکہ
اکبر کی فوج کا سربراہِ اعلیٰ ’دارا سنگھ‘ بھی ایک ہندو تھا،اسی طرح شیواجی
مہاراج کی فوج میں بارہ سپہ سالار مسلمان تھے، بلکہ اس حکومت کے کئی بڑے
عہدوں پر بھی مسلمان فائز تھے اور سب سے زیادہ دلچسپ بات کہ شیواجی مہاراج
کا مشیرِ خاص اوران کی حکومت کا جاسوس ’رستمِ زمان‘ ایک مسلمان تھا؛ شیواجی
مہاراج کی لڑائی مغل بادشاہ اورنگزیبؒ اور ویجا پور کے سلطان عادل شاہ کے
ساتھ تھی اوریہ دونوں مسلمان تھے ، مگرقابل ذکر بات یہ ہے کہ جس فوج کو
اورنگ زیبؒ نے شیواجی کے خلاف تریب دیا تھا وہ فوج راجپوت ہندوؤں پر مشتمل
تھی، اسی طرح عادل شاہ کی فوج بھی دکنی ہندوؤں پر مشتمل تھی ، اب آپ ہی
بتائیں کہ اگر ان کی لڑائی حقیقت میں مذہب کی لڑائی ہوتی،تو کبھی بھی کوئی
ہندو کسی مسلم بادشاہ کا حلیف نہیں ہوتا اور آپ کو بتادوں کہ شیواجی مہاراج
گرچہ اورنگ زیب اور عادل شاہ کا دشمن تھا، تاہم وہ سلطان دکن نظام حیدرآباد
کا حلیف اور قریبی دوست بھی تھا، اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ
ان کی آپسی لڑائیاں صرف نظام مملکت میں دخل اندازی کرنے اور توسیع کی
بنیادپر تھی، نہ کہ مذہب کو فروغ دینے کے لیے، البتہ چونکہ وہ خود ایک
مذہبی پیروکار تھے ، اس لیے جہاں ان کی حکومت ہوتی ، وہ وہاں اپنے مذہبی
امور کو فروغ دیاکرتے تھے، لیکن مذہب کی بنیاد پر آرایس ایس اور بھگوائیوں
کی طرح کبھی بھی انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک نہیں کیا ، اورنگ زیب
عالمگیرؒ پر جس طرح کے افسوس ناک الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اگر ان کا
تاریخی جائزہ لیں، تو آپ خود یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ اپنی رعایا سے اس
قدرمحبت کرنے والا انسان مذہبی جنونی کیسے ہوسکتا ہے، چنانچہ ہندو مؤرخ
’بابو ناگیندر ناتھ بنرجی ‘نے اورنگ زیبؒ پر لگائے گئے مختلف الزامات کو اس
طرح مسترد کیا ہے: ’’ اگر اورنگ زیب ہندو مخالف ہوتا ، تو وہ اپنے پچاس
سالہ دورِ حکومت میں حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر ہندوؤں کو کبھی منتخب نہیں
کرتا، حالانکہ ان کی مملکت میں جسونت سنگھ، راجا راج روپ، کبیر سنگھ، آرگن
ناتھ سنگھ، پریم دیو سنگھ، دلیپ روے اور راسک لال کروری جیسے بڑے بڑے ہندو
بلند وبالا عہدوں پر فائز تھے، یہی نہیں جسونت سنگھ اور جیاسنگھ ان کی فوج
میں سب سے اونچے عہدے پر فائز تھے ، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ ہندو
مخالف تھے ، تو اتنے بڑے بڑے عہدوں پر ہندوؤں کو کیوں منتخب کررکھا تھا اور
وہ بھی فوج میں‘‘؟اسی طرح ان پر یہ بھی ا لزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے
مندروں کو توڑ کر مسجدیں تعمیر کروائی ہیں، تو آپ کو بتادوں کہ 1946 میں
بنگال میں’’اتھاس پریچے‘‘(تاریخ کا تعارف) نامی کتاب درجہ پنجم اور ششم میں
پڑھائی جاتی تھی، جس میں اورنگ زیب کے حوالہ سے یہ لکھا تھا :’’اگر اورنگ
زیب کی نیت مندروں کو منہدم کرکے مسجدوں کی تعمیر کرنا ہوتی ، تو آج ملک
میں ایک مندر بھی باقی نہیں رہتا، اس کے برعکس انہوں نے بنارس کشمیر، الہ
آباد اور ملک کے دیگر مقامات میں مندروں کے لیے بڑی بڑی جائداد وقف کی ہیں
، جو آج بھی حکومتی رکاڈ میں محفوظ ہیں‘‘، چنانچہ چترا کوٹ بالاگھاٹ کے
مشہور مندر ’وِشنو‘ اور’ بالاجی‘ کے کتبوں پر آج بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ
مندر ان کی حکومت کا مرہونِ منت ہے اورجہاں تک ہندوؤں پر جبراً اسلام قبول
کرانے کا سوال ہے، تو اسی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ 138 پر یہ مذکور ہے
:’’اورنگ زیب کے پچاس سالہ دورِ حکومت میں ایک بھی ہندو کو اسلام قبول کرنے
پر مجبور نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ کسی ہندو مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت
کیا کرتے تھے‘‘۔ چنانچہ اورنگ زیب کے زمانۂ حکومت کے اخیر میں ایک برطانوی
مؤرخ الیگزینڈرہیملٹن (Alexander Hamilton) سیاحت کی غرض سے ہندوستان آیا ،
پھر وہ اپنے سیاحی تجزیے میں لکھا کہ اورنگزیبؒ کی حکومت میں ہر شخص مذہبی
امور اور طریقۂ عبادت میں بالکل آزاد تھا‘اورکیا یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ
نہیں ہے کہ جو شخص حکومت سے اپنا وظیفہ تک نہیں لیتا تھا اور خطاطی کرکے
اور ٹوپی بن کراپنا گھرچلا تاتھا، تو بھلا کیاوہ اپنے مفاد کی خاطر اپنی
عوام کا خون کرسکتا تھا؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ ان مسلم حکمرانوں کے تعلق سے اکثر مؤرخین نے تعصب سے
کام لیا ہے اور اس تاریخی جہالت کی بنیاد پر ہی آج کچھ ناہنجار ان ہستیوں
کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کے خلاف دشنام طرازیاں کرتے ہیں اور ان سے منسوب
جگہ اور مکانات کے ناموں کو تبدیل کرنے کی بچکانہ اور جاہلانہ کوشش کرتے
ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ان مسلم حکمرانوں نے بلا کسی خاص وجہ کے کبھی کسی
مذہبی مقامات کو نقصان نہیں پہنچایا،اس کے برعکس فروری 1785میں جب مراٹھا
فوج ٹیپو سلطان پر حملہ آور ہونے کے لیے شری رنگا پٹنم گئی اور پھرکسی وجہ
سے بغیر کسی نتیجہ کے دونوں فوج کے درمیان مصالحت ہوگئی ، تو لوٹتے وقت غصہ
میں لال مراٹھا فوجیوں نے شری رنگا پٹنم کا ایک مندر توڑ دیا، جس کی مرمت
خودٹیپو سلطان نے کروائی تھی، اب آپ ہی بتایے کے مندر کو منہدم کرنے والی
فوج ہندو تھی، جب کہ اس کی اس مرمت کرنے والا ایک مسلمان تھا، لہذا اب
ہمارے لیے غور طلب امر یہ ہے کہ ہم جب بھی تاریخ کا مطالعہ کریں، توعصبیت
کاعینک اتار کر مطالعہ کریں ، ورنہ جس طرح ہم نے ان کی تاریخ کو فراموش
کرکے ان پر بہتان تراشے ہیں، تو بعد میں آنے والی نسلیں ہمیں بھی ہماری
تاریخ نادانی پر خوب کوسے گی۔ |
|