محترمی و مکرمی جناب ایاز امیر بلاشبہ کسی
تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ پاکستان کے چند بہترین کالم نگاروں میں شمار کئے
جاتے ہیں۔ صحافت اور سیاست کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں
بطور کالم نویس اُن کے کالموں کو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ 20-08-2016 کو اُن
کا روزنامہ جنگ میں کالم بعنوان ’’پاکستان کا امتیازی نشان، بے کیف جمہوریت‘‘
شائع ہوا۔ اس میں موصوف نے اپنے من پسند مشروب شراب پر کچھ اس انداز میں
لکھا ہے: ’’اپنی تمام تر کمی اور کوتاہی کے باوجود پاکستان ایک جمہوریہ ہے۔
اس میں انتخابات ہوتے ہیں۔ ووٹ کے ذریعے حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہاں
ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ مستحکم ہوتا دکھائی دیتا ہے اور
یہاں اظہار کی بھی آزادی پائی جاتی ہے لیکن یہ واحد جمہوریہ ہے جہاں کچھ
مشروبات پر سرکاری پابندی اور ان کا استعمال مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں
آتا ہے۔ اس پابندی نے پاکستان کو دیگر جمہوری ممالک کے خانے سے الگ کر رکھا
ہے۔ ہمیں اعلیٰ درجے کا جمہوری سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئٹرز لینڈ سے بھی
آگے ہونا چاہئے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا کہ وہ بہت ذہین
رہنما تھے مگر وہ باقی سے پیتے تھے۔ شریف برادران انتہائی درجے کے پرہیز
گار ہیں وہ مے نوشی اور دیگر اُمور سے پرہیز کرتے ہیں، وہ پاکستانی سیاست
میں طویل اننگز کھیل رہے ہیں۔ ان کا کوئی حریف دُور دُور تک دکھائی نہیں
دیتا‘‘۔ میں نے اس کالم کو ایک سے زیادہ بار پڑھا اور یہ بات سوچنے پر
مجبور ہو گیا کہ معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ مختلف
بُرائیوں میں رنگے ہوتے ہیں۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ اسلام میں شراب
پینا حرام ہے اور قرآن میں بھی اس کا ذکر اسی طرح ہے، اس کو اُم الخبائث
کہا گیا ہے مگر اس کے باوجود بہت سارے لوگ شراب پیتے ہیں اور یہاں تک کہ
زنا بھی کرتے ہیں مگر کیا پھر ان بُرائیوں کو عام کرنے کے لئے اخبارات میں
کالم لکھنے چاہئیں۔ پردہ بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان المبارک
میں روزے نہیں رکھتے مگر رمضان کے تقدس کا خیال بہرحال کرتے ہیں۔ محترم
ایاز امیر نے اپنے کالم میں بہت سی نامور شخصیات کا بھی پردہ چاک کیا ہے۔
جن لوگوں کو نہیں معلوم تھا اُن کو بھی پتہ چل گیا کہ یہ شخصیت شراب کی لت
میں لپٹی ہوئی تھی۔ نیکی اور بدی کے مفروضے کو شراب کے ساتھ جوڑنا کسی طرح
بھی دانشمندی نہیں ہے۔ شراب پر پابندی ختم کرنے کی بات کرنا، اس کے نرخ کم
کرنے کا کہنا۔ میں نے زندگی کے چند سال ایک ایسے غیر مسلم معاشرے میں گذارے
ہیں جہاں پر شراب کا استعمال ایسے ہوتا ہے جیسے پاکستان میں پانی استعمال
ہوتا ہو، وہاں بیئر کو شراب نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں پر نجانے کتنے قسم کی
شراب مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جو لوگ شراب پیتے ہیں وہ
کس طرح کی حرکتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
اسلام نے جن جن بُرائیوں سے منع کیا ہے اُس کی ایک خاص وجہ بتائی گئی ہے۔
شراب کو اسلام میں حرام اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے کہ یہ پینے کے بعد
انسان کو ماں بہن کی تمیز نہیں رہتی، یہاں تک کہ اُس کو یہ بھی پتہ نہیں
چلتا کہ اُس کے تن پر کپڑے ہیں یا وہ ننگا ہے۔ وہاں بے شمار شراب کلب موجود
ہیں اور اُن میں غیر مسلم کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بڑے شوق سے عیاشی کرتے
ہیں۔ اُس معاشرے میں میری آنکھ نے نجانے کتنی بار ایسے لوگوں کو دیکھا کہ
جو بے ہوش ہو کر کسی پارک، مارکیٹ یا روڈ پر پڑے ہوئے تھے۔ اُن کو کچھ بھی
احساس نہیں ہوتا کہ اُن کو کچھ آنکھیں کس انداز میں دیکھ رہی ہیں۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ وہ ہوش میں ہی نہیں ہوتے اور شاید شراب پینے والا اسی منطقی
انجام کا متلاشی رہتا ہے۔ شراب پینے والا اُس وقت تک پیتا رہتا ہے جب تک کہ
وہ مدہوش نہ ہو جائے اور مدہوش ہونے کے بعد اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنا ہی
اپنی کامیابی سمجھتا ہے لیکن جب ہوش میں آتا ہے اور اُس کو بتایا جاتا ہے
کہ تم اس طرح کی حرکتیں کر رہے تھے اور تم اس طرح کے نمونے بنے ہوئے تھے تو
پھر اُس کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مگر کیا کریں یہ ظالم چھوٹنے کا نام
نہیں لیتی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ محترم ایاز امیر کی رہائش گاہ چکوال کے
گنجان ترین علاقے چھپڑ بازار کے پاس واقع ہے اور ان کے دائیں بائیں چکوال
میں اسلام کے چیمپئین موجود ہیں جنہوں نے عالی شان مساجد، مدارس اور گھر
بنا رکھے ہیں مگر ان کی زبان سے چند الفاظ بطور احتجاج نہ نکل سکے ورنہ وہ
معمولی بات پر بھی بچوں کو بھون چوک پر لے آتے ہیں، ویسے بھی متحدہ مجلس
عمل کے ختم ہونے کے بعد دینی جماعتوں کی معاشرتی مسائل کی طرف توجہ کم ہوئی
ہے۔ اب دینی جماعتیں کم ہی عوامی مسائل کے لئے سڑکوں پر نکلتی ہیں۔ اگر
ایاز امیر کے کالم کے بعد کسی مذہبی جماعت کا اخباری بیان ہی آجاتا تو
سمجھا جا سکتا تھا کہ کسی حد تک اپنا حق ادا کر دیا ہے لیکن افسوس صد افسوس
کہ ایسا نہ ہو سکا۔ ایاز امیر نے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز
شریف کا تقابلی جائزہ شراب پینے اور نہ پینے کے انداز میں کیا ہے۔ وہ اپنے
کالم میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو بہت پیتے تھے مگر وہ بہت ذہین تھے
اور ساتھ ہی کہا کہ وہ رات کو دیر تک پیتے تھے لیکن صبح جلدی اُٹھتے تھے
اور تازہ دم ہوتے تھے جبکہ میاں محمد نواز شریف جس کو انہوں نے شریف
برادران لکھا اور کہا کہ وہ انتہائی درجے کے پرہیز گار ہیں، مے نوشی اور
دیگر اُمور سے پرہیز کرتے ہیں، وہ پاکستانی سیاست میں طویل اننگز کھیل رہے
ہیں اور ان کا کوئی حریف دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہ وہی نواز شریف
ہیں جن کے ٹکٹ پر محترم ایاز امیر 2008ء کے الیکشن میں ایم این اے منتخب
ہوئے تھے اور اس سے پہلے صوبائی ممبر بھی رہے لیکن اب مسلسل مسلم لیگ (ن)
کی پالیسیوں پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں، کچھ عرصہ عمران خان کے خود ساختہ
سونامی سے بھی متاثر ہوئے مگر وہ بھی زیادہ عرصہ ان کو متاثر نہ کر سکا۔ فی
الحال مکمل دھیان کالم نگاری پر مرکوز ہے اور سیاست کے حوالے سے ابھی تک
فیصلہ نہیں کر پائے کہ کس طرف کو جانا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان کی
طرح کے اعلیٰ پائے کے کالم نگار کو کسی طرح بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ
اسلامی معاشرے میں ایسی بُرائیوں کو عام کرنے کا مشیر بنیں جن کو اسلام نے
سختی سے منع کیا ہے۔ چونکہ ایک ممتاز کالم نگار کو سارا پاکستان اور ساری
دُنیا پڑھتی ہے اور یقینی طور پر ایسی بُرائیاں معاشرے میں عام ہونے کا
اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ تو پاکستان ہے
جنہوں نے شراب اور زنا جیسی بُرائی کرنی ہو وہ سعودی عرب میں بھی کرنے میں
کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سو ان باتوں کو اپنے کالموں کا حصہ بنانا اور اُن کو
قیمتی الفاظ دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے
الفاظ معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ نوجوان نسل ہمارے کالموں کو
پڑھ کر بے راہ روی اور بُرے کاموں سے بچنے کا ذریعہ بنے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان
کا حامی و ناصر ہو۔ |