ماموں کا رشتہ بھی عجیب رشتہ ہے کبھی یہ
چندا ماموں بن جاتا ہے تو کبھی یہ دھوکا باز شخص کا روپ دھار لیتا ہے ۔کبھی
بہن کے بیٹے ہونے کے ناتے لاڈ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی ماں کے بھائی ہونے کا
پیار ورثے میں ملتا ہے غرض دونوں ایک دوسرے کےلاج دلارے ہوتے ہیں ہمارے ہاں
ایک سیاسی ماموں بھی ہیں جو اتنے اچھے ہیں ۔۔۔۔۔اتنے اچھے ہیں۔۔۔۔ کہ ماموں
کی محبت میں سرشار بھانجاان دنوں کف اٹھا پھرتے ہیں اورماموں حضور کی طرف
میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دینے پر تلے بیٹھے ہیں آپ سمجھ
تو گئے ہوں گے ہمارا اشارہ پیارے ماموں جان نواز شریف کے جوشیلے بھانجے
عابد شیر علی کی طرف ہے۔موصوف نے اتوار کو فیصل آباد میں ایک ترقیاتی
منصوبے کا افتتاح کیا ۔۔خبر ہے کہ اسی منصوبے کا ان کے ہی جماعت کے مخالف
رہنما رانا ثنا اللہ نے بھی رات گئے افتتاح کردیاکہ جس یو سی کا یہ منصوبہ
تھا اس کا چیئرمین اور وائس چیئرمین کا تعلق عابد شیر علی اور رانا ثناللہ
گروپ سے ہے اس موقع پر دونوں دھڑوں میں تصادم بھی ہوا لیکن اس سے بڑی خبر
تو گہرے نیلے کپڑوں میں ملبوس اور کالی سیاہ عینک چڑھائے عابد شیر علی کی
تھی جنہوں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک تیر سے تین تین سیاسی مخالفین کا شکار
کیا۔۔۔۔کیا کپتان کیا قادری کیا شیخ جی سب کو عمر اور مرتبے کا لحاظ کئے
بغیر کھری کھری سنا دیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری کو تو انہوں نے گھٹیا ترین
عالم دین قرار دیا (جو انتہائی غیر مناسب ہے حالانکہ لیگی برادری تو پی ٹی
آئی والوں کو غلیظ اور بازاری زبان استعمال کرنے کے طعنے دیتی رہتی ہے )
بھانجے نے ڈاکٹر صاحب پر ماموں جانی کی خصوصی مالی شفقت،کرم فرمائی اور
سرپرستی کا بھی تذکرہ کیا یہی نہیں لال حویلی کی اینٹ سے اینٹ بجانے شیخ
رشید کو تھپڑ اور جوتے پڑوانے اور کپتان کو پینتس زبانوں والا کہہ کر بھی
خوب حق بھانجیت ادا کی ۔
عابد شیر علی ایک سیاسی شیر کے سیاسی فرزند تو ہیں ہی ساتھ میں وزیر مملکت
برائے پانی و بجلی بھی ہیں لیکن لگتا ہے کہ وہ پانی کم پیتے ہیں اسی لئے تو
انہیں غصہ زیادہ آتا ہے اور جہاں تک بجلی کا تعلق ہے تو اس سے ان کا کوئی
تعلق نہیں وہ تو بس مخالفین پر بجلی گرانےوالے وزیر ہیں اسی لئے تو جب سے
وہ قومی دھارے میں آئے ہیں وہ اپنی گرمئی طبیعت کی وجہ سے خبروں میں ہی
رہتے ہیں پیپلز پارٹی کے دور میں قومی اسمبلی میں ان کی وہ ہنگامہ آرائی
توسب کو ہی یاد ہے جب رائے ونڈ کے ذکر پر وہ اتنے جذباتی ہو گئے کہ ایم کیو
ایم کے ارکان پر سرکاری دستاویزا ت کا پلندہ اچھالنے لگے تھے وہ تو کورم
کچھ اچھا تھا کہ ساتھی ارکان نے بیچ بچاؤ کردیا ورنہ نجانے کیا ہوتا اور
ایک نجی چینل پر ان کی شرمیلا فاروقی سے جو بحث چھیڑی تو بات بیڈ رومز
کےافعال تک پہنچا دی موصوف نےایک خاتون سے متعلق جو گفتگو کی تو اس نے قوم
کے سر شرم سے جھکا دئیے پش اپس کا معاملہ ہو یا کوئی اور موقع۔۔۔۔۔۔ وہ
ماموں کی محبت ،چاہت اورالفت کے اس قدر اسیر ہو جاتے ہیں کہ انہیں کسی بات
کی کلفت نہیں ہوتی اور جو منہ میں آیا ارشاد کرجاتے ہیں ۔ بھانجے کی طرح
کچھ اور سیاسی رشتہ دار بھی ہیں مثلاً حنیف عباسی ،دانیال عزیر ، رانا ثنا
اللہ اور طلال چودھری کہ جن پر جب جلال آتا ہے تو کوئی ان کے غضب سے بچ
نہیں پاتا اب یہ کشمیری ماموں کا جمال ہے ہی جو ان کو دیکھتا ہے ان کی محبت
میں گرفتار ہو جاتا ہے۔بقول شاعر
خوباں لوگ کمال کرتے ہیں
اک نظر میں غلام کرتے ہیں
اب اسے طوق غلامی کی تاثیر کہیں کہ پاکستان کی اس قدیم ترین پارٹی کے
رہنماؤں میں برداشت کا مادہ پیدا نہیں ہوسکا یہ کہتے ہیں کہ سیاست میں
دشنام طرازی کا آغاز تحریک انصاف والوں نے کیا حالانکہ سیاسی ناقدین کے
نزدیک یہ دشنام طرازی نہیں بازاری پن ہے ۔۔۔۔ اس بحث میں نہ پڑیں کہ یہ ہے
کیا ۔۔۔ لیکن خود ہی سوچیں کہ یہ ہمیں زیب دیتی ہے لیگی بھائی تو تجربہ کار
لوگ ہیں آپ کئی بار حکومت کر چکے ہیں سیاست آپ کے گھر کی لونڈی ہے ایسے میں
عابد شیر علی کا ڈاکٹر طاہر القادری کو گھٹیا ترین عالم دین کہنا یا پھر
خواجہ آصف کا اسمبلی کے فلور پر یہ کہنا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا
ہوتی ہے یا کسی خاتون کو ٹریکٹر ٹرالی کہنا اور بھانجے کے اس پر اضافی
تبصرے ۔۔۔۔پاکستان کی خالق جماعت کے ارکان کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا ۔
کرپشن کے الزام پر دو بار اسمبلیاں تڑوا کر اورپھر سیاسی جلا وطنی اختیار
کرنا جسے نوازشریف ہجرت قرار دیتے ہیں کے باوجود آپ وہی کچھ کر رہے ہیں جو
پچاس اور نوے کی دہائی میں ہوتا رہا ہے اور ماضی سے کچھ نہیں سیکھا گیا تو
پھر قوم کو ایسی سیاست کا کیا فائدہ ۔۔۔۔۔ پھر تو یہ وہی ماموں بھانجے کی
سیاست ہو ئی ناں ! |