پاکستانیت کی قیمت

کہنا آسان مگرسہنا بہت کٹھن ہے،پاکستان میں صرف بدعنوانی نہیں بلکہ بدزبانی بھی عام ہے۔کچھ بدزبان لوگ زبان سے دوسروں کو ایسازخم لگاتے ہیں جوزندگی بھرمندمل نہیں ہوتا جبکہ کچھ زخم لگاکربھی بس نہیں کرتے بلکہ اس زخم پراہتمام کے ساتھ نمک بھی چھڑکتے ہیں۔پاکستان میں رواداری ناپیدہوگئی جبکہ بلیم گیم کاکلچر فروغ پارہا ہے، سیاستدان اپنے جس برادری بھائی پرچارج شیٹ لگا تے ہیں وہ لگانیوالے کوعدالت جانے کامشورہ دیتا ہے اور انصاف کے ایوانوں میں کئی اہم مقدمات ایڑیاں رگڑتے رگڑتے فائلوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اورپھرایک دن حکومت تبدیل ہوجاتی ہے مگر بدعنوان سیاستدانوں کامائنڈ سیٹ نہیں بدلتا ۔سیاستدانوں نے سیاسی برادری کے ساتھ ساتھ سیاست کوبھی بری طرح بدنام کردیا ہے۔عام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے احساس محرومی کاروناروکرخاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ حکمرانوں اوراقتدار کے ایوانوں تک رسائی کاتصور بھی نہیں کرسکتے ۔ حالیہ دہائیوں میں عوام کی سرمایہ دارانہ جمہوریت اورموروثی سیاست سے نفرت کوردنہیں کیا جاسکتا،پیپلزپارٹی کے ڈاؤن فال کاایک بنیادی سبب یہ بھی ہے،جس دن پنجاب میں پیپلزپارٹی کی باگ ڈور میاں منظوروٹو کے ہاتھوں میں دی گئی اس دن پنجاب سے اس کی سیاست کاجنازہ اٹھ گیا تھا ۔پنجاب جوآدھاپاکستان ہے وہاں شریف خاندان کیلئے میدان خالی کردیا گیااورنتیجتاً وہ آؤٹ آف کنٹرول ہوگئے۔جس طرح جنوبی ایشیاء میں امن کیلئے طاقت کاتوازن ناگزیر ہے اس طرح پاکستان کے اندربھی سیاسی میدان میں توازن ازبس ضروری ہے۔ون پارٹی سسٹم ون مین شو کی بدترین صورت اختیارکرجائے گی اورکوئی ریاست اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔لوگ سیاسی اشرافیہ سے بیزار اورمتنفر ہوگئے ہیں ،ان میں سے کوئی بھی حکومت بنائے وہ عام آدمی کواقتدارمیں شریک نہیں کرتا ۔ہمارے ہاں ''راج'' کرنے کیلئے ایک دوسرے کوکافر،ایجنٹ اورغدار قراردینے کارواج ہے۔اگرسیاستدانوں کی ایک دوسرے کیخلاف چارج شیٹ کودیکھاجائے توپھراس حساب سے تو دوچار کے سواتوسبھی سیاستدان دشمن ملک کے ایجنٹ اورغدار ہیں اورجوواقعی غدار ہیں بدقسمتی سے ان کیلئے ابھی تک ''انہوں''اور''صاحب '' کے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں۔میں ان سے پوچھتا ہوں اگر خدانخواستہ کوئی ان کی ماں کے کردارپر انگلی اٹھائے توکیا وہ اس کانام لکھتے یاپکارتے وقت بھی اس کیلئے ''صاحب ''کااستعمال کریں گے۔ہم ریاست کو ماں مانتے ہیں،ریاست کوگالی قومی ضمیر کوگالی جبکہ قومی حمیت پرضرب کاری ہے۔مسلمان مصلحت پسندہوسکتا ہے مگروہ بزدل اور بے غیرت نہیں ہوسکتا ۔ہمارے ہاں ہردوسراسیاستدان اقدارکوروندتے ہوئے اقتدار کے پیچھے بھاگ رہا ہے اورکچھ توبھارت کے بھگت بن جاتے ہیں جبکہ امریکہ ان کاسیاسی قبلہ بن جاتا ہے ۔بھارت اوربنگلہ دیش سے اپنی '' خدمات'' پرریوارڈاور ایوارڈوصول کرنیوالے قلم فروش بھی پاکستانیت پرلیکچر دیتے ہیں۔پاکستان میں رات کو شاہراہوں پرآوارہ پھرنے والے شہریوں سے تو بازپرس کی جاتی ہے مگرملک دشمن قوتوں سے تعلقات استوار اوران کے مذموم مفادات کی تکمیل کیلئے سہولت کاری کرنیوالے قلم فروشوں سے کوئی کچھ نہیں پوچھتا ۔جسم فروشی کی طرح قلم فروشی پربھی سخت سزامقررکی جائے ۔غداروں کوکمزورکرنے اوران کاراستہ روکنے کیلئے نظام کی مضبوطی ضروری ہے۔

حکمران جس کوچاہیں سکیورٹی رسک قراردے دیں اورجس وقت چاہیں نظریہ ضرورت کے تحت اس ''سکیورٹی رسک''کے اتحادی بن جاتے ہیں یہ ملک وقوم کے ساتھ انتہائی بھونڈامذاق نہیں تواورکیا ہے ۔ بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ اصولی سیاست کی علامت تھے مگرآج ان کے پاکستان میں اصولی نہیں وصولی کی سیاست کو کامیابی کی ضمانت سمجھاجانے لگا ہے۔بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے باضمیر عمائدین پاکستانیت کی پاداش میں جام شہادت نوش کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں جماعت اسلامی ایک طرف حکومت کیخلاف زوروشورسے جاری قصاص اوراحتساب تحریک کی حامی جبکہ آزادکشمیر حکومت میں حکمران جماعت کی اتحادی ہے۔جماعت اسلامی کوقیام پاکستان کامخالف بتایاجاتا رہا ہے مگر جماعت اسلامی کے قائدین کو بنگلہ دیش میں پاکستانیت کاپرچم سربلند کرنے کی پاداش میں تختہ دارپرلٹکایاجارہا ہے ،وہ پاکستانیت اور پاکستان سے محبت کی قیمت موت کی صورت میں چکارہے ہیں،ان غازیوں کی شہادت پاکستانیت اورنظریہ پاکستان سے کمٹمنٹ کی شاہد ہے ۔کیا بنگلہ دیش میں مسلم لیگ کاایک بھی حامی نہیں ،اس کامطلب مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے کسی رہنمانے متحدہ پاکستان کے حق میں آوازنہیں اٹھائی تھی ورنہ ان میں سے بھی کسی نہ کسی کوتختہ دارپرضرورلٹکایاجاتا۔بھارت میں بھی جماعت اسلامی زندہ ہے مگروہاں مسلم لیگ کانام نہیں لیا جاتا ۔ بنگلہ دیش میں صرف جماعت اسلامی کے لوگ تختہ دار پرجھول رہے ہیں ، کیونکہ ان میں سے کوئی پاکستان کیخلاف زہراگلتا ہے اورنہ ان کے روبرو کسی دوسرے بنگالی کوایساکرنے کی جسارت ہوتی ہے۔پاکستان میں مسلم لیگ برسراقتدارہواوربنگلہ دیش میں پاکستان نوازسیاسی عمائدین کاعدالتی قتل کیا جارہا ہوجبکہ پاکستان کے ارباب اقتدارمجرمانہ طورپرخاموش ہوں تواس سے کیا مطلب لیا جائے ۔ ضمیر کے قیدی محمدقاسم علی شہید کی پاکستانیت اورعزت نفس نے صدر سے رحم کی اپیل کرناگوارہ نہیں کیا اورانہوں نے بڑی شان سے شہادت کاجام نوش کیا ،شہادت نے محمدقاسم علی کی زبان کوبھلے خاموش کردیا مگر ان کاکام اورکردارصبح قیامت تک بولتا رہے گا ۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی توکوئی بات نہیں یہ جان توآنی جانی ہے

بھارت اوربنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کے منظم وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا،ہمارے ہاں جماعت اسلامی مختلف سیاسی ،انتظامی ،آئینی اورعوامی ایشوزپرکامیاب اجتماعات کرنے اوراپناموقف منوانے کی حیثیت رکھتی ہے ،دوسری پارٹیوں کی طرح جماعت اسلامی کے لوگ آئے دن سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کرتے۔جماعت اسلامی کی تربیت اس سے وابستہ شخصیات کے افکاروکردارسے جھلتی بلکہ چھلکتی ہے ۔جماعت اسلامی میں مقدارکی بجائے معیارپرفوکس کیا جاتا ہے،مگراقتدار کیلئے جماعت اسلامی نے بھی اقدارکادامن ہاتھ سے چھوڑدیا ہے اور بعض اوقات نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کئے جا تے ہیں ۔ جہاں تک بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے باضمیر رہنماؤں کاتعلق ہے انہوں نے آج بھی پاکستان سے اپنا روحانی تعلق توڑا اورنہ اپنے ہاتھوں سے اسلامی اقدارکادامن چھوڑا۔دوران اسیری ان ضمیر کے قیدیوں کو ''توڑنے'' کیلئے ظلم کاہرہتھکنڈاآزمایا گیا مگرانہوں نے اپنی اسلامیت اور پاکستانیت پرآنچ نہیں آنے دی۔جس وقت وہ شہیدابھی زندہ تھے تواس وقت پاکستان کے اندرجماعت اسلامی نے انہیں تختہ داراوربنگلہ دیش کی آدم خوروزیراعظم شیخ حسینہ جوصرف نام کی حسینہ ہے، کے خونیں پنجوں سے بچانے کیلئے کوئی کردارادانہیں کیابس یہ لوگ ان شہیدوں کے غائبانہ نمازجنازہ اداجبکہ اپنے اخباری بیانات کی صورت میں مذمت کرنے پراکتفا کرتے ہیں۔دوسری طرف حکومت پاکستان نے بھی ان غازیوں اورضمیر کے قیدیوں کو تختہ دار سے بچانے کیلئے اپناسیاسی وسفارتی اثرورسوخ استعمال نہیں کیا۔اگرحکومت سابق وزیراعظم اورسابق گورنرپنجاب کے مغوی بیٹوں کی بازیابی کیلئے اپناانتظامی اورسفارتی اثرورسوخ استعمال کرسکتی ہے توپھر بنگلہ دیش میں ان سچے پاکستانیوں کوبھی بھارت کی بھگت اوربدصورت شیخ حسینہ کی نحوست سے بچانے کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کیاجاسکتا تھا۔اگرسعودیہ کے حکمرا ن زراورزور کی بنیادپرمیاں نوازشریف اوران کے خاندان کو پرویز مشرف سے چھین کرجدہ کے سرورپیلس میں لے جاسکتے ہیں تووہ یقینابنگلہ دیش کی بھارت نوازحکومت کے قہرسے ان شہیدوں کوبچانے کی قدرت رکھتے تھے مگر ترک صدر طیب اردگان سمیت مسلم حکمران انہیں بچانے کیلئے آگے نہیں آیا ۔بھارت کی ہندوسیاسی قیادت اورہندوعوام میں پاکستان کیخلاف نفرت فطری امر ہے لیکن بنگلہ دیش میں پاکستان سے شدید نفرت ناقابل فہم ہے ،بنگالی مسلمان ابھی تک ماضی میں کیوں زندہ ہیں۔بھارت بار بار اعلانیہ پاکستان توڑنے کااقراراوراقبال کرچکا ہے پھربھی بنگالی قائدین اورعوام کواپنے حقیقی دشمن بھارت کی شناخت نہیں ہوئی۔بھارت نے پاکستان کے ہاتھوں اپنی شامت سے بچاؤکیلئے پاکستان اورمشرقی پاکستان کے درمیان نفاق کابیج بویا اورنفرت کی فصل کاشت کی اور د نیا کی دوسری نظریاتی اسلامی ریاست کابٹوارہ کردیا ۔متحدہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو اقتدار کی ہوس تھی اوراس ہوس نے انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا۔تاہم تاریخ نے ذوالفقارعلی بھٹو کے حق میں شہادت دی ، بھٹومرحوم سے کچھ سنگین غلطیاں ضرورسرزدہوئیں مگروہ پاکستانیت ،سیاسی قابلیت ،قائدانہ صلاحیت اورفہم وفراست کے میدان میں شیخ مجیب الرحمن سے ہزاردرجے بہتر تھے ۔ جماعت اسلامی کے شہداء کی طرف واپس آتے ہیں،اگرجماعت اسلامی کے لوگ اپنے ساتھیوں کی زندگی بچانے کیلئے کوئی ہاتھ پاؤں نہیں ماریں گے توپھرحکومت سے کسی مداخلت اورسفارتی اقدامات کی امید کس طرح کی جاسکتی ہے۔ خاص طورپروہ حکومت جوخودخطرات سے دوچار ہو۔ پیپلزپارٹی پرپاکستان توڑنے کاالزام لگایاجاتا ہے مگر مجھے افسوس ہے حکمران مسلم لیگ سمیت مسلم لیگ کے کسی دھڑے نے متحدہ پاکستان کو جوڑنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ۔میں دعااورامیدکرتا ہوں اب بھی ایسے دوررس فیصلے کئے جائیں جس سے پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فاصلے مٹ جائیں ۔ پاکستان کے منتخب حکمران آج بھی اپنے بنگالی بھائیوں کے زخموں پرمرہم رکھ سکتے ہیں جس سے یقینا ان کی نفرت میں خاطر خواہ کمی آ ئے گی اوران کاہمارے دشمن بھارت کی طرف جھکاؤ ختم ہوجائے گا۔اب بھی وقت ہے افغانی اوربنگالی بھائیوں سے رابطوں کوبحال اورانہیں حقائق سے آگاہ کیا جائے ۔ہم ہاتھ پرہاتھ رکھ کرنہیں بیٹھ سکتے ،پاکستان کے اندراقتدار کی جنگ کے نتیجہ میں بھارت کاکام آسان ہوگیا اوراس نے بنگالی مسلمانوں کے بعد افغانی مسلمانوں کوبھی پاکستان کے مقابل کھڑاکردیا ۔ پاکستان کودوررس سفارت کاری سے بھارت کی مکاری کامقابلہ اورصفایاکرنا ہوگا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.