منگل کو عمران خان نے کراچی میں اپنی سیاسی
قوت کامظاہرہ کیا اور عوامی جلسے سے خطاب کیا جس میں لوگوں نے بڑی تعداد
میں شرکت کی۔ کراچی کی سیاسی صورت حال ایک نہایت اہم موڑ سے گزر رہی ہے جس
میں ایم کیو ایم کی پوزیشن بظاہر بہت کمزور نظر آ رہی ہے ایسی صورت میں
کراچی میں تمام جماعتیں قسمت آزمائی کر رہی ہیں اور کراچی کے ووٹر کو اپنی
طرف متوجہ کرنے کی ہر ممکن حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ عمران خان کراچی کے
ووٹر کو اپنی طرف متوجہ کرنیکے لئے اپنے آپ کو مہاجر ماں کا بیٹا کہنے کے
لئے بھی تیار ہیں۔ وہ بار بار میڈیا پر یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کی
والدہ اور نانا نے بھی بھارت سے1947میں ہجرت کی ہے۔ اس طرح وہ کراچی کے
ووٹروں کی ہمدردیاں اور سپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عمران خان نے یہ سیاسی
کارڈ ماضی میں کراچی میں ضمنی الیکشن کے دوران بھی استعمال کیا تھا لیکن ان
کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی بلکہ ایم کیو ایم کے امیدوار کے سامنے
پی ٹی آئی کے امید وار کی ضمانت تک ضبط ہو گئی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر عمران
وہی چلا ہوا کارتوس دوبارہ استعمال کرنے کو شش کر رہے ہیں جس سے یہ ظاہر
ہوتا ہے کہ کراچی میں سیاست کرنے کے لئے عمران خان یہ ضروری سمجھنے لگے ہیں
کہ کسی بھی طرح مہاجروں سے کوئی رشتہ داری نکالی جائے۔ یہ درست ہے کہ کراچی
کی آج کی صورت حال ماضی کی صورت حال سے بہت مختلف ہے اور جب سے متحدہ قومی
موومنٹ کے بے دخل کئے گئے قائد الطاف حسین کی طرف سے پاکستان کے خلاف ہرزہ
سرائی کی گئی ہے اس وقت سے کراچی کے مہاجروں اور ایم کیو ایم کے ووٹروں میں
نئے قسم کے جذبات نے جنم لیا ہے اور کراچی کے عوام کی اکثریت نے الطاف حسین
کی طرف سے لگائے گئے نعروں اور باتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاہے ۔ اس
صورت حال میں اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مہاجروں کا رشتہ
دار ثابت کر کے ان کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرلیں گے تو شاید اس بار وہ
پھر غلطی پر ہیں۔ اگرچہ مہاجر ووٹر نے الطاف حسین کی تقریر اور باتوں کا
برا منایا ہے مگر یہ ابھی تک واضح نہیں کہ الطاف حسین سے ایم کیو ایم کے
ووٹرز کی وابستگی اور ہمدردیاں بھی کم ہوئیں ہیں یا نہیں۔ظاہر ہے کہ اس کا
واحد پیمانہ الیکشن ہیں کہ جس میں یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ کراچی کا
ووٹر کیا چاہتا ہے کیا عمران خان کی مہاجروں سے رشتہ داری ثابت کرنے کی
کوشش کامیاب ہو گی یا نہیں۔ یہاں ایک دوسرا پہلو بھی موجود ہے کہ اگر الطاف
حسین سے ایم کیو ایم کاووٹر مایوس بھی ہوا ہے تو کیا اس کے پاس ، ایم کیو
ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی اور آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ کی شکل
میں آپریشنز موجود نہیں ہیں کہ وہ عمران خان کی طرف متوجہ ہوں اور اپنا ووٹ
مہاجروں کی قیادت میں بنائی جانے والی پارٹیوں کے حق میں استعمال کرنے کے
بجائے ایک ایسے لیڈر کو ووٹ دیں کہ جو وقتی طور پر مہاجروں کے ساتھ اپنی
رشتہ داری ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے ؟کراچی کی سیاست کی ڈائنامکس بہت
مختلف سہی لیکن اس میں الطاف حسین کے اثر رسوخ کو کلی طور پر مائنس کرنا فی
الحال بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ ایک روز قبل ہی تو سندھ ہائی کورٹ کے باہر
جنگلے پر ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘ کے بینر آویزاں کئے
گئے اور بعد میں الطاف حسین نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کو غدار بھی
قرار د ے دیا۔ ایسی صورت حال میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ الطاف حسین اور ان
کی ہمنوا کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا کنٹرول باقی رکھنا چاہتے
ہیں لیکن کیا پاکستان کے خفیہ ادارے اور سیکیورٹی فورسز اس بار الطاف حسین
کو معاف کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب لیا
جانے بہت ضروری ہے۔ ملیر میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے ضمنی الیکشن بھی
بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اورعمران خان کا کراچی میں منگل کو ہونے
والاجلسہ بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں بہت اہم معاملہ ہے کہ
جو بیان کیا جانا ضروری ہے کہ اس بار ملیر میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم
الیکشن نہیں لڑ رہی بلکہ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں کام کرنے والی ایم
کیوایم پاکستان الیکشن لڑ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ مقتدر اداروں کی یہ خواہش ہو
گی کہ فاروق ستار والی ایم کیو ایم الیکشن جیت جائے تاکہ الیکشن کے نتائج
سے ایک یہ پیغام جائے کہ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ اب الطاف حسین کا نہیں
بلکہ ایم کیو ایم پاکستان کا ہے۔ گمان یہی غالب ہے کہ اس کے لئے مقتدر
ادارے کوشش بھی کریں گے کہ ایم کیو ایم کامیاب ہو جائے تاکہ الطاف حسین کو
ایک پیغام دیا جا سکے کہ اب کراچی پر ان کا کنٹرول نہیں۔ ایسی صورت میں
عمران خان کی مہاجروں سے رشتہ داری قائم کرنے کا فی الحال کوئی بڑا فائدہ
ہوتا نظر نہیں آتا۔ جہاں تک جلسوں کی بات ہے تو کراچی سمیت پورے ملک میں
تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں کامیاب جلسے کرتی ہیں لیکن اس کا قطعی مطلب
یہ نہیں ہوتا کہ وہ الیکشن بھی جیت جائیں گی۔
|