دہشت گردی کے نام پر ساری دنیا کے امن کو تاراج کرنی والی قوتیں بے بسی کا شکار ہیں

مغرب میں کسی شدت پسند گروپ سے تعلق نہ رکھنے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پوپ فرانسس نے ،،اسلام اور تشدد کے درمیان ربط کو مسترد کر دیا۔
 فرانس میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد ایک جانب تو فرانسیسی حکومت کی جانب سے مسلمانوں اور مساجد پر پابندی لاگائی جارہی ہے تو دوسری جانب پوپ فرانسس نے ،،اسلام اور تشدد کے درمیان ربط کو مسترد کر دیا،، حالیہ تناظر میں پوپ کے اس بیان کو فرانس میں مسلمانوں کے خلاف پابندی کی مہم میں ایک مثبت پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ پولینڈ سے واپسی کے دوران طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پوپ کا کہنا تھا کہ "میرے نزدیک اسلام کو تشدد کے ساتھ جوڑنا درست نہیں"۔ دوسری جانب فرانسی حکومت نے انسداد شدت پسند کے پرگرام کے تحت اب تک 20 مساجد کو تالے لگانے اور کم سے کم 80 آئمہ مساجد اور مذہبی رہ نماؤں کو ملک سے بے دخل کردیا ہے۔ 77 سالہ کیتھولک فرقے کے روحانی پیشوا نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ "میں روزانہ اخبار میں اٹلی میں تشدد کے واقعات پڑھتا ہوں۔ کوئی اپنی دوست خاتون کو قتل کر دیتا ہے تو کوئی اپنی ساس کو.. یہ لوگ کٹر کیتھولک ہوتے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ " اگر میں اسلام کے تناظر میں تشدد کی بات کروں تو پھر مجھ پر لازم ہے کہ نصرانیت کے تناظر میں تشدد کے بارے میں بھی گفتگو کروں۔ تقریبا ہر مذہب میں بنیاد پرستوں کا ایک چھوٹا سا مجموعہ ضرور ہتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے یہاں بھی موجود ہیں"۔پوپ نے اس بات پر زور دیا کہ تشدد کے پیچھے حقیقی سبب مذہب نہیں ہے۔انہوں نے غیرملکیوں کے خلاف نسل پرستی اور عداوت پھیلانے والی عوامیت پسند جماعتوں میں اضافے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ "جس طرح چْھرے سے قتل کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح زبان سے بھی یہ عمل پورا ہو سکتا ہے"۔پوپ فرانسس کے مطابق " ہم نے اپنے کتنے ہی نوجوانوں کو بے روز گار چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں ان لوگوں نے منشیات ، شراب نوشی اور بنیاد پرست جماعتوں کا رخ کر لیا ہے۔ گذشتہ برس نومبر کے بعد سیفرانس میں نفرت پھیلانے والے مراکز اور اداروں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔فرانسیسی حکومت نے انتہا پسندی کے الزام میں تین اسلامی تنظیموں پر پابندی عاید کرتے ہوئے ان کے زیرانتظام چلنے والے اداروں اور مساجد کو بھی بند کر دیا ہے۔ حکومت نے انتہا پسندی میں ملوث جن تین اسلامی این جی اوز پر پابندی عاید کی ہے۔ ان میں سے ایک تنظیم کے زیراہتمام پیرس میں ایک مسجد بھی قائم کی گئی تھی جسے پچھلے سال نومبر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ فرانسیسی پولیس نے پچھلے سال دسمبر کے اوائل میں پیرس کے نواحی علاقے لانیی سورمارن کے مقام پر ایک مسجد کی تالا بندی کر دی تھی۔ یہ اقدام 13 نومبر کو پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے رد عمل میں کیا گیا تھا۔ تیرہ نومبر 2015ء کو فرانس میں دہشت گردی کے واقعات میں 130 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ان حملوں کی ذمہ داری ’’داعش‘‘ نے قبول کی تھی۔جس کے بعد عالمی برادری نے فرانس کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے ترکی اور دیگر اسلامی مملک میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات پر فرانس اور مغرب نے چپ سادھ لی ہے۔ فرانسیسی وزیرداخلہ مسٹر کازنوف فرانس میں جید علماء کرام کی نگرانی میں مساجد کے آئمہ کرام کی تربیت کا ایک پروگرام بھی متعارف کرارہے ہیں۔ جس میں آئمہ کو اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات سے روشناس کرایا جائے گا۔فرانس کی حکومت نے ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر پولیس کی معاونت اور امن وامان برقرار رکھنے کے لیے 10 ہزار فوجی اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جو امن کے قیام میں پولیس کی مدد کریں گے۔فرانس جہاں سیاحوں کا ہجوم ہوتا ہے، حالیہ واقعات کے بعد مضطرب دکھائی دیتا ہے۔ شہری آبادی کے تحفظ اور سیاحتی مقامات میں سیکیورٹی کے لیے پیرس میں 4000 اور ملک کے دوسرے شہروں میں 6 ہزار مزید فوجی تعینات کیے جارہے ہیں۔ فرانسیسی حکومت داعش کے خلاف جنگ کرنے والے اتحادی ممالک میں شامل ہے۔ فرانسیسی وزیر دفاع نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ،،پولیس کی معاونت کے لیے فوج کو سڑکوں پر سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپا شدت پسند گروپ دولت اسلامی ’داعش‘ کے خلاف ہماری جنگ کا حصہ ہے،،۔ان کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگ کے لیے فرانس بیرون ملک آپریشن جاری رکھے گا۔ پارلیمنٹ نے رواں سال ستمبر میں فرانسیسی بحری بیڑا چارل ڈیگال عراقی فورسز کی معاونت کے لیے روانہ کرنے کی منظوری دے رکھی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ستمبر کے اوائل ہی میں متحدہ عرب امارات اور اردن سے فرانسیسی طیارے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری میں مزید شدت لائیں گے۔ فرانسیسی حکومت کے ترجمان اسٹیفن لوفول نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ان کی جنگ پوری قوت سے جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نفرت کے مبلغین کے خلاف جنگ کو مزید وسعت دی جائے گی۔ 2001 کے بعد ساری دنیا میں دہشت گردی کو روکنے کے نام پر طاقت کا جو استعمال کیا گیا ہے، اس نے پوری دنیا کو آگ اور خون کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب ان مملک میں بھی دہشت گردی کے واقعات جنم لے رہے ہیں۔ جواس سے پہلے امن اور شانتی میں تھے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سال 2014 میں دنیا کے 95 ممالک شدت پسندی کے 13 ہزار 463 واقعات پیش آئے اور اس میں 32 ہزار سات سو زائد افراد ہلاک ہوئے ۔ پاکستان بھی 2015 میں 706 دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ۔ ان دہشت گرد حملوں میں1325انسانی جانیں ضائع ہوئی جن میں619 شہری اور348سیکیورٹی اہلکار تھے۔جبکہ 325 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ، نائجیریا میں بوکو حرام اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں بتائی جاتی ہیں۔ اس وقت دولتِ اسلامیہ کو سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کہا جارہا ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجو شامل ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق’دسمبر کے آخر تک 16 ہزار غیر ملکی دہشت گرد شام گئے ہیں۔’دولتِ اسلامیہ نے 2014 میں عراق اور شام میں غیر معمولی پر علاقوں پر قبضہ کیا ہے اور اس کی غیر ملکی شدت پسندوں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت برقرار ہے اور اس نے لیبیا، نائجیریا اور مصر میں اتحاد قائم کر لیا ہے۔ ااس باب میں نئی پیش رفت یہ ہے کہ مغرب میں کسی شدت پسند گروپ سے تعلق نہ رکھنے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس پر مغربی دانشور خاموش ہیں۔دہشت گردی کے نام پر ساری دنیا کے امن کو تاراج کرنی والی قوتیں کس بے بسی کا شکار ہیں۔ اس کا اندازہ ایک امریکی اہلکار کہ اس اعترافی بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ ،،دہشت گردی کے جس چلینج کا ہمیں سامنا ہے وہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہمیں درست اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ یہ آئندہ دہائی بلکہ یہاں تک کہ ایک سال کے اندر کیا شکل اختیار کرے گا،،۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386523 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More