وقت کا تقاضہ

3 ستمبر کو سونامی لاہور سے ٹکرائی اور لگ بھگ 4 ارب روپے ڈکار گئی۔ اُسی دِن علامہ طاہرالقادری اور شیخ رشید نے راولپنڈی میں دھمال ڈالی اور اربوں روپے کا نقصان کر گئے۔ اِس نقصان کو تو رکھیں ایک طرف ، سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھارت کے حوالے سے جو الزامات میاں فیملی پہ لگائے اور شیخ رشید نے جس طرح آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کو پکارا ، کیا وہ آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے الزامات اگر درست ہیں تو پھر وزیرِاعظم صاحب پر آرٹیکل چھ لاگو ہوتا ہے اور اگر ڈاکٹر طاہرالقادری الزامات ثابت نہیں کر سکتے تو پھر وہ خود اِس آرٹیکل کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ رہی شیخ رشید کی بات تواُن پر تو یہ آرٹیکل ہزار دفعہ لاگو ہوتا ہے کیونکہ پچھلے تین سال سے وہ متواتر انارکی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جلاؤ ،گھراؤ ،مارو، مرجاؤ جیسے نعرے ہر وقت اُن کی زبان پر ہوتے ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ کوئی اُنہیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ۔اگر انارکی پھیلانے کی کوشش کرنے والے پر بھی آرٹیکل چھ لاگو نہیں ہوتا تو پھر آئین سے اِس آرٹیکل کو نکال دینا چاہیے کیونکہ یہ محض مذاق بن کے رہ گیاہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں وزیرِاطلاعات پرویزرشید صاحب نے دعوے تو بہت کیے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ اُن کے خلاف مکمل ثبوتوں کے ساتھ کورٹ میں جائیں گے ۔لیکن تاحال تو اُن کے دعوے محض کسی دیوانے کی بَڑ ہی ظاہر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ کسی کورٹ میں گئے نہ اِس کے بارے میں مزید کوئی خبر آئی۔

اُدھر کپتان صاحب نے پورا لاہور بند کروا کے پتہ نہیں کون سا قلعہ سَر کرنے کی کوشش کی البتہ یہ ضرور ہوا کہ لاہورئیے مجبوراََ گھروں میں بند رہے ، ٹریفک مفقود رہی اور ایمبولینسزہجوم میں پھنسی رہیں جس سے 2 انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں ۔نوازلیگ اور تحریکِ انصاف ،دونوں ہی جانوں کے اِس زیاں پر ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن صفِ ماتم تو اُن گھروں میں بچھی جن کے اپنے پیارے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ۔چنگیز خاں جب کوئی علاقہ فتح کرتا تو انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر جشنِ فتح مناتا ۔اِسی کو’’ چنگیزیت‘‘ کہتے ہیں ۔کیا قوم یہ سمجھ لے کہ دَورِ چنگیزیت پھر آ چکا؟۔ کیا پھرانسانی لاشوں پرمسندِ اقتدار سجانے کا موسم لوٹ آیا ۔ حیرت ہے اِن سونامیوں پر جو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر محض دھوم دھڑکے اور میوزیکل کنسرٹ کے شوق میں چلے آتے ہیں ۔کیا اﷲ تعالےٰ نے اُنہیں اتنی عقل بھی نہیں دی کہ وہ اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرتے ہوئے سوجھ بوجھ سے کام لے سکیں ۔میرا اور آپ کا دین تو یہ کہتا ہے کہ قوم کا سردار ، قوم کا خادم ہوتا ہے ۔ میرے سامنے تو خلفائے راشدین کی مثالیں ہیں جن کی زندگیاں اور رہن سہن کسی بھی صورت میں عام انسانوں سے بہتر اور برتر نہیں تھیں لیکن یہ کیسے رہنماء ہیں جو پُرتعیش کنٹینروں میں ریلیوں کی قیادت کرتے ہیں ۔کپتان صاحب کے کنٹینر میں دو ، دو اے سی تھے ،بڑے سائز کا فرج ، لیدر کے صوفے اور کرسیاں اور دنیا جہان کی ہر سہولت جبکہ سونامیے شدید حبس میں سڑکوں پر دھکے کھا رہے تھے ۔اُدھر ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور سے پنڈی تک کا سفر کرکے تھک گئے ، اسی لیے آرام کرنے کے لیے پنڈی کے فائیوسٹار ہوٹل میں جا پہنچے اور وہاں جی بھر کے تھکن اتارنے کے بعد تازہ دَم ہوکر ریلی میں آئے ۔اُن کا دعویٰ تو پاکستان میں اسلامی نظام لانے کا ہے ۔کیا ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ خود تو اپنی ہر سہولت کا دھیان رکھا جائے اور پیروکاروں کو دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟۔

یہ سب کچھ تو رکھیں ایک طرف ، سوال یہ بھی ہے کہ اِس وقت جب دشمن ہمیں نیچا دکھانے کی بھرپور سعی کر رہا ہے اور ہم حالتِ جنگ میں ہیں ،کیا کسی رہنماء کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اِن حالات میں ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کرے؟۔ کپتان صاحب نے تو کہہ دیا کہ وہ عید کے بعد جاتی اُمرا پر حملہ آور ہوں گے لیکن کیا وہ اِس کے بھیانک انجام سے باخبر ہیں کیونکہ نوازلیگ نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگرکپتان صاحب جاتی عمرہ کا رُخ کریں گے تو بنی گالہ اور زمان پارک اُن سے دور نہیں ۔گویا تصادم کی راہیں ہموار ہوتی چلی جائیں گی ۔ شاید کپتان صاحب کو اپنی سیاست کے شجر کی آبیاری کے لیے خون چاہیے کیونکہ وہ لندن میں بیٹھے اپنے بیٹوں کے ساتھ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ ملک کا وزیرِاعظم بن کر دکھائیں گے ۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق کپتان صاحب کی ریلی میں کسی بھی صورت میں آٹھ دَس ہزار سے زائد لوگ نہیں تھے ۔ اسی لیے اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اب بھی لوگ سڑکوں پر نہ نکلے تو پھر اگلے پانچ سال بھی نواز لیگ کو ہی بھگتنا پڑے گا ۔ لوگ تو سڑکوں پر نکلنے کو تیار نہیں اور خود تحریکِ انصاف بھی بُری طرح سے اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اِس لیے اب خاں صاحب کو کچھ لاشیں چاہییں جن پر وہ علامہ طاہرالقادری کی طرح اپنی سیاست چمکا سکیں۔ اگر نوازلیگ نے صبروتحمل سے کام نہ لیا تو کپتان صاحب اپنے مقصد میں کامیاب تو ہو جائیں گے لیکن اُن کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آئے گاکیونکہ مقتدر حلقے جب حکومت سنبھالتے ہیں تو پھر 90 دِن 9 سالوں میں بدل جایا کرتے ہیں ۔ اگر خُدانخواستہ ایسی صورتِِ حال بنی تو پھر بھول جائیں ملکی ترقی کواور عظیم دوست چین کی الفت ومحبت کو کیونکہ افراتفری کی فضاء میں چین سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور ہمارا اقتصادی ترقی کا خواب کرچی کرچی ہو جائے گا۔

یومِ دفاع کے حوالے سے جی ایچ کیو میں منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے ہر دِل عزیز سپہ سالار نے فرمایا کہ پاکستان پہلے مضبوط تھا ، اب ناقابلِ تسخیر ہے، دشمنوں کی ہر ظاہری و خفیہ سازش سے آگاہ ہیں ۔چیلنج عسکری ہو یا سفارتی ، سی پیک منصوبے میں کوئی بیرونی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ کشمیر ہماری شہ رَگ ہے ۔ ہم تحریکِ آزادی کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ سپہ سالار نے یہ بھی کہا کہ سنگین جرائم ، کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ مکمل امن کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ اور معاشرے میں عدم اطمینان کا سبب ہے ۔سپہ سالار محترم راحیل شریف کا یہ بیان کہ پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے ، ہر محبِ وطن پاکستانی شہری کے لیے باعثِ اطمینان ہے ۔ سوال مگر پھر وہی کہ ہم بیرونی خطرات سے تو نپٹ لیں گے لیکن اقتدار کی ہوس میں پیدا کیے جانے والے اندرونی خطرات کا کیا حل ہے اور اِن سے کون نپٹے گا ۔
 
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643315 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More