صوبہ بننے تک!
(Muhammad Anwar Graywal, Bahawalpur)
آجکل سابق وزیراعظم سید یوسف رضا
گیلانی اپنی پارٹی کو متحرک رکھنے کے لئے میدان میں ہیں۔ پہلے انہوں نے
ملتان میں ایک کنونشن سے خطاب کیا، یہ وہی موقع ہے جہاں ان کی تقریر کے
دوران سٹیج ٹو ٹ گیا تھا اور آپ گرتے گرتے بچ گئے تھے۔ اس کے بعد دوسرا
پڑاؤ بہاول پور میں ڈالا اور اب خانیوال میں کارکنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے
پی پی کا بنیادی فلسفہ وفاداری بتایا، یعنی ٹکٹیں لینے والے تو پارٹی چھوڑ
جاتے ہیں، مگر کارکن پارٹی نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے کارکنوں کو ساتھ لے کر
چلنے کی خوشخبری بھی سنائی۔ اور سب سے اہم بات یہ کی کہ ’’اپنا صوبہ بننے
تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا‘‘۔ اپنے صوبے سے یہاں مراد جنوبی پنجاب کا صوبہ
ہے، یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پی پی ابھی تک یہ فائنل نہیں کرسکی کہ
جنوبی پنجاب کے صوبے کا حدود اربعہ کیا ہوگا، اس ممکنہ یا مجوزہ صوبے کا
نام کیا ہوگا، اس کا دارالحکومت کس شہر کو بنایا جائے گا اور یہ بھی کہ
صوبہ بنانے کے لئے کونسے لوازمات درکار ہیں؟ بس ایک سیاسی نعرہ ہے جسے
نہایت تسلسل کے ساتھ لگایا جاتا ہے، اور اپنا کام نکالنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔ تقریب سے سابق گورنر مخدوم احمد نے بھی خطاب کیا۔
سابقہ دور میں جب یہی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو جنوبی پنجاب میں
صوبوں کی تحریک زوروں پر تھی، ایک عَلم جناب محمد علی درانی نے اٹھا رکھا
تھا، تو دوسرا اِنہی مخدوم احمد محمود کے ہاتھ میں تھا اور تیسری طرف نواب
صلاح الدین بھی اسی صوبے کے حق میں پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ تینوں حضرات
بہاول پور کی بحیثیت صوبہ بحالی کے خواہاں تھے، یہی ان کا نعرہ تھا اور
شاید یہی کوشش۔ دوسری طرف ملتان والے بھی خُم ٹھونک کر میدان میں آگئے،
ہمیں بھی صوبہ چاہیے، کسی نے کہا کہ صوبے کا نام ملتان ہو، کسی نے اسے
جنوبی پنجاب کے نام سے یاد کیا اور کچھ نے دیگر تمام ناموں کو مسترد کرتے
ہوئے سرائیکی صوبے کے حق میں ا ٓواز بلند کردی، اور بہاول پور صوبہ کے
حامیوں کو سرائیکیوں کا غدار قرار دینے میں زیادہ تاخیر سے کام نہیں لیا،
تاہم بہاول پور والوں کے موقف میں کافی نرمی تھی، کہ صوبے ایک سے زیادہ بھی
بن سکتے ہیں۔ جب پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرار داد منظور ہوگئی اور اس
میں واضح طور پر بتایا گیا کہ بہاول پور صوبہ بحال کیا جائے اور دوسرے
علاقے کے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اب وفاقی حکومت نے جو بورڈ بنانا
تھا، اس میں کسی ’سٹیک ہولڈر‘ کو نامزد نہیں کیا، غیر اصولی سا بورڈ تشکیل
دے دیا، زیادہ تر لوگوں نے احتجاجاً اس کا حصہ بننے سے ہی انکار کردیا۔ یوں
یہ صوبہ یا صوبے خود پی پی کے دورِ حکومت میں ہی ناکام بنا دیئے گئے تھے۔
پی پی اب بھی جنوبی پنجاب میں صوبوں کے نام پر سیاست کررہی ہے، ظاہر ہے
سیاست کرنے کا مطلب یہی ہوتا ہے، کہ عوام کو کوئی نعرہ دے کر ٹرک کی بتی کے
پیچھے لگا دیا جائے، عوام بھی اسی امید پر پارٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے
رہیں، یہی کچھ ہورہا ہے۔ اگر گیلانی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اپنے صوبے
کے قیام کی صورت میں ہی انصاف ملے گا، تو نہ جانے وہ کونساانصاف چاہتے ہیں،
اسی جنوبی پنجاب کے رہائشی ہوتے ہوئے وہ پارٹی کے سینئر وائس پریذیڈنٹ ہیں،
یہاں رہتے ہوئے ہی انہیں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان
کے کزن مخدوم احمد محمود کو بھی جنوبی پنجاب کے رہائشی ہونے کے باوجود
پنجاب کی گورنری ملی۔ جنوبی پنجاب سے پاکستان اور پنجاب پر حکمرانی کرنے
والے سیاستدانوں کی فہرست بہت طویل ہے، جن میں صدر پاکستان اور وزیراعظم تک
شامل تھے، اگر یہ لوگ بھی خطے کے عوام کو انصاف نہیں دلوا سکے تو باہر سے
آکر کون ان کی خدمت کرے گا؟مخدوم احمد محمود نے خانیوال کے سیاستدانوں پر
حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کا باوا آدم نرالا ہے، کوئی سیاستدان
کسی ایک پارٹی میں نہیں ٹکتا۔ مخدوم صاحب کو یہ بھی علم ہوگا کہ خود وہ بھی
یہ کارِ خیر متعدد مرتبہ سرانجام دے چکے ہیں ، پارٹیاں بدلنے کی مہارت تو
اس قدر زور پکڑ چکی ہے، سالہا سال ایک لیڈر کو مغلظات سے نوازنے کے بعد
اچانک اسی لیڈر کے گُن گانے کا ماحول بنا لیا جاتا ہے۔ گیلانی صاحب کارکنوں
کو ساتھ لے کر ضرور چلیں، مگر کارکنوں کی تلاش کا مرحلہ پہلے مکمل کرلیں۔
|
|