آمرانہ جمہوریت

پاکستان میں اس وقت جو نظام حکومت قائم ہے وہ بظاہر جمہوری نظام ہے جس میں عوام ووٹ بھی ڈالتے ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ انتخابات میں دھاندلی سے اپنے امیدوار کو جتایاجاتاہے،بظاہر تو اس سارے نظام کو جمہوری کہاجاتاہے لیکن حقیقت میں یہ ڈکٹیٹرشپ کی ہی ایک قسم ہے جس کو ہم آمرانہ جمہوریت کہہ سکتے ہیں۔اس آمرانہ جمہوریت میں وزیراعظم بادشاہ ہوتا ہے۔اس آمرانہ جمہوریت کے روح رواں زیادہ تر وہی لوگ ہے جو جمہوریت کا شور زیادہ مچاتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ جمہوری پسند نہیں ہوتے بلکہ ان کی سوچ اور عمل ڈکٹیٹر شپ والی ہوتی ہے۔ دیکھاجائے تو موجود حکومت کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور جمہوریت کے خلاف سازش ہورہی ہے لیکن حقیقت میں جمہوریت کونہیں ان کی ذات کوخطرہ ہوتا ہے جو آمرانہ سوچ انہوں نے آپنائی ہوتی ہے اس کوخطرہ ہوتا ہے۔موجودہ دور جو بظاہر جمہوری دور کہلاتا ہے لیکن انہوں نے آمرانہ دور کی مثال قائم کی ہوئی ہے ۔ وفاق میں نون لیگ کی حکومت ہے اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ان کی حکومت قائم ہے لیکن ایک سال کا عرصہ گزر گیا انہوں نے سپریم کورٹ کے حکومت پر تو بلدیاتی انتخابات کردیے لیکن تاحال بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات تو دور کی بات ہے۔ نمائندوں کا انتخاب بھی مکمل نہیں کیا اور ناظمین کا انتخاب بھی نہیں ہوا جس سے ان کی ڈکٹیٹر شپ ظاہر ہوتی ہے کہ اگر بلدیاتی نمائندے مقرر ہوگئے تو کچھ نہ کچھ فنڈز ان کو بھی دینا پڑے گا لہٰذاآخری سال میں دیکھا جائے گا اب خاموشی سے وقت گزاروں جبکہ پنجاب میں بلدیاتی نمائندے زیادہ تر نون لیگ کے ہی منتخب شدہ ہے ،ناظمین بھی ان ہی کے مقرر ہوں گے لیکن پھر بھی ان کو منتخب نہیں کیاجارہاہے۔یہ ہے آمرانہ جمہوریت کی سوچ جو عملی طور پر نافذ ہے اس سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم اپنے آپ کو توعوامی نمائندہ کہتاہے لیکن خود کو عوامی نمائندوں کو جوابدے نہیں سمجھتا ۔ پانامالیکس پر قوم سے خطاب اور اسمبلی میں تقریر میں کہا کہ میں خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں ، تحقیقات کا آغاز مجھ سے کی جائے لیکن تاحال تحقیقات تو دور کی بات ہے ،تحقیقات کے طریقہ کار پر بھی راضی نہیں بلکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ میری مرضی کے مطابق تحقیقات کا طریقہ کار واضع کی جائے جس میں میرا نام نہ ہو بلکہ ان لوگو ں سے تحقیقات کی جائے جس کا نام پاناما لیکس میں نہ ہو۔اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے باوجود نتیجہ صفر جمع صفر نکلا۔اکثر اپوزیشن جماعتوں نے روایاتی طریقہ کار آپنایا کہ پانامالیکس پر صرف سیاست کی جائے لیکن تحریک انصاف اور عمران خان نے حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کافیصلہ کیا جس کا آغاز انہوں نے پشاور سے گیا لیکن گزشتہ روز لاہور میں ریلی نکالی جس نے حکومت کو پریشان کردیا جبکہ راولپنڈی میں شیخ رشیداور طاہر القادری نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا کہ حکومت احتساب کیلئے تیار ہوجائے اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں قتل عام کا حساب دیں ۔اس طرح لاہور میں عمران خان نے احتساب ریلی نکالی تو حکومت نے اس کو روکنے کیلئے پورے شہر کوسیل کیا ، جگہ جگہ پر کنٹینر کھڑے کیے ، اس طرح پنڈی میں بھی تمام راستوں کوبند کیا تھا لیکن حکومت کی ان اقدامات کے باوجود راولپنڈی میں عوام نے حکومت کے خلاف احتجاج میں بھر پور شرکت کی اور لاہور میں بھی عوام کا جم غفیر نظر آیا لیکن اس کے باوجود حکومت کو عوام کا یہ احتجاج نظر نہیں آیا جس کو روکنے کیلئے انہوں نے مختلف افواہیں پھیلائی کہ راولپنڈی اور لاہور میں خود کش حملہ آور آئے ہیں دونوں شہروں میں دہشت گردی کاخطرہ ہے ،راستوں کو بلاک کیا جس سے احتجاج کرنے والوں کو تکلیف ضرور ہوئی لیکن عام لوگ جو ہسپتالوں یا دوسرے ایمرجنسی میں تھے ان کو بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی کا سامناکرنا پڑا جس کی وجہ سے ایک بچہ اور خواتین ہسپتال جاتے ہوئے جاں بحق بھی ہوئے ،راستے حکومت نے بلاک کیے تھے اور پولیس راستے کھولنے کیلئے تیار نہ تھی۔

عمران خان نے حکومت سے چار سوال کیے جس میں پیسہ باہر کیسے گیا،پیسہ کہاں سے آیا،کیسے کمایا گیا اور اس پر کتنا ٹیکس دیا۔عمران خان نے مطالبہ کیا کہ اگر ان سوالوں کا جواب وزیراعظم میاں نواز شر یف نہیں دیتے توعید کے بعد وہ رائے ونڈ کارخ کریں گے۔ دوسری طاہرا لقادری نے بھی جوسوال اٹھائے ہیں وہ بھی قابل غور ہے ۔حکومت بجائے یہ کہ ان سوالوں کا جواب دیتی ،اس پر سنجیدگی سے غور کرتی کہ اگر وزیراعظم ان سوالوں کاجواب نہیں دیتے تو وزیراعظم کو کرسی چھوڑنی چاہیے اور کسی دوسرے کو وزیراعظم بنانا چاہیے تاکہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو جمہوریت ایسے اقدامات سے مضبوط ہوتی ہے ، طرز حکمرانی سے ہی جمہوریت مضبوط یاکمزور ہوتی ہے۔ حکومت نے البتہ عمران خان اور طاہر القادری کو دھمکی دے ڈالی کہ اگر انہوں نے رائے ونڈ کا رخ گیا تو ان کی اینٹ سے اینٹ بج دی جائے گی۔دوسرا نقصان ان کی آمرانہ سوچ کا یہ ہے کہ جو بھی ان کے خلاف احتجاج کرے اس کے پیچھے ان کو سازش نظر آتی ہے اور اس سازش کے پیچھے فوج نظر آتی ہے ،موجوداحتجاج کے پیچھے بھی حکومتی وزرا، ممبران اور بعض صحافیوں کو اس احتجاج کے پیچھے فوج کا ہاتھ نظر آرہاہے کہ سکیورٹی ادارے ان کے پیچھے ہیں جو حکومت کیلئے حالات خراب کررہی ہے ،حکومت کی اس سوچ سے انداز ہ ہوتا ہے کہ حکومت اور سکیورٹی اداروں کے درمیان کتنا خلیج قائم ہے اور حکومت کا اپنی سکیورٹی اداروں پر اعتبار قائم نہیں ہے۔ حکومت کی سوچ حقیقت میں یہ ہے کہ اس طرح ہم عوام میں یہ شوشہ چھوڑ دے کہ حکومت کو فوج ختم کرنا چاہتی ہے لیکن عوام اور فوج کو معلوم ہے کہ اس طرح سے اپنی گوتاہیوں کو چھپایا نہیں جاسکتا ، پانامالیکس میں وزیراعظم ملو ث ہے توان کو سوالوں کے جواب دینے چاہیے اور استعفی دے کر اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو وزیراعظم بنانا چاہیے ۔ عمران خان یا طاہر القادری کا احتجاج کامقصد وزیراعظم کے کرسی پربیٹھنا نہیں بلکہ احتساب اور انصاف کا تقاضاکررہے ہیں جس سے جمہوریت مضبوط ہوگی لیکن آپ کے آمرانہ سوچ کیلئے یہ قابل قبول نہیں ہے۔جب تک حکمران اور جمہوریت کے یہ علمبردار اپنی آمرانہ سوچ تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226292 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More