کشمیریوں کی نسل کشی اور انٹرا کشمیر ٹریڈ

نہتے کشمیریوں کے خلاف مہلک اسلحہ اور زہریلی گیسوں کا بے جا استعمال جاری ہے۔ شہداء، زخمیوں ، معذوروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ قتل عام ، کرفیو، بندشوں، توڑ پھوڑ، گرفتاریوں، مظاہروں، ہڑتالوں، آزادی ریلیوں کے مسلسل 63ویں روز بھی حالات سنگین ہیں۔ جنگ بندی لائن کے آر پار اگر چہ منقسم خاندان سفر قلیل تعداد میں جاری رکھے ہوئے ہیں تا ہم انٹرا کشمیر ٹریڈ معطل ہے۔ اگست کے آخری دنوں مظفر آباد میں حریت کانفرنس ، مہاجرین نے رات کو احتجاجی دھرنادے کراس تجارت کی ممکنہ بحالی کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ دھرنے سے حریت اور مہاجر رہنماؤں غلام محمد صفی، سید یوسف نسیم، محمود احمد ساغر، عزیر احمد غزالی، مشتاق الاسلام، بلال فاروقی اور دیگر نے اس تجارت کو ناقابل قبول قرار دیا۔ ان کے بقول بھارت اسے عالمی سطح پر پروپگنڈہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ عالمی برادری کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں اور لوگ تجارت کر رہے ہیں۔ مقررین چکوٹھی کے راستے تجارت کی بحالی کو قربانیوں کے ساتھ کھلواڑ قرار دے رہے تھے۔ یہ دھرنا وادی میں کرفیو اور قتل عام کے 47ویں روز دیا گیا۔ سرینگر روڑ کئی گھنٹے تک بند رہی۔

انٹرا کشمیر ٹریڈ سے وابستہ آر پار کے تاجروں نے وادی میں قتل عام کی وجہ سے از خود تجارت بطور احتجاج معطل کر دی تھی۔ جس کی بحالی پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ تا ہم مشاورت کے بعد23اگست سے تجارت بحال کرنے کے کسی فیصلے کی باز گشت کے بعد مال بردار ٹرک چکوٹھی پہنچنے شروع ہو گئے۔ اسکے اگلے روز 24اگست کی رات کو مظفر آباد میں حریت کانفرنس اور مہاجرین نے مظاہرہ کیا۔اس تجارت سے وابستہ ایک سرگرم تاجر رہنما خورشید احمد میر نے اس مظاہرے کی مخالفت کی اور کہا کہ تاجر برادری نے خود ہی تجارت معطل کی کیوں کہ وادی میں کشمیریوں کاخون بہہ رہا ہے اور لاشیں گر رہی ہیں۔ ان حالات میں تجارت کیسے کی جا سکتی ہے۔ یہ تجارت دشمن ملک کے ساتھ نہیں بلکہ آر پار کشمیریوں کے درمیان ہو رہی ہے۔ عید کے بعد اسے بحال کرنے کے بارے میں اتفاق رائے پیدا ہوجائے گا۔
 
آر پار تجارت سے کشمیریوں کو کیا ملا۔بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے دوران یہ جاری رہے یا ختم ہو۔ اس کے جاری یا معطل رہنے سے کیا فائدہ یا نقصان ہو گا۔یہ سوالات میں نے کشمیر کی مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے سامنے رکھے۔ اس پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔

سرینگر میں بی بی سی کے ساتھ دہایؤں تک وابستہ رہنے والے سرکردہ صحافی اور دانشور یوسف جمیل نے کہا’’ وادی کے عوام کے لئے یہ سب چیزیں غیر متعلق ہو چکی ہیں جو گزشتہ دو ماہ سے بدترین تباہی سے دوچار ہیں۔ ہم روزانہ نوجوان لڑکوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ ہسپتال زخمیوں اور بزرگ و نوجوان نابیناؤں سے بھر چکے ہیں۔ ہم کیا چاہتے آزادی، نعروں، چیخ و پکار، بم دھماکوں، ٹیئر گیس، پیلٹ اور گولیوں کی گن گرج سنائی دیتی ہے۔ سڑکوں پر ہزاروں لوگ احتجاج کر تے نظر آ رہے ہیں، پتھراؤ ہو رہا ہے، جھڑپیں ہو رہی ہیں، مظالم ہو رہے ہیں۔ہر سو افراتفری کا عالم ہے۔تمام متعلقین کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے کہ یہ خون خرابے کیسے ختم ہو سکے۔اس موقع پر الزام تراشی یا ہٹ دھرمی سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ٹریڈ، کامرس اور ٹورازم جیسے ایشوز پس پشت چلے گئے ہیں ‘‘۔

سرکردہ دانشور اور کالم نگار زاہد جی محمد کا کہنا ہے کہ انٹرا کشمیر ٹریڈ کو جاری رہنا چاہیئے۔ روزنامہ چٹان کے ایڈیٹر انچیف طاہر محی الدین سمجھتے ہیں کہ یہ تجارت جاری رہیکیوں کہ اسے بند کرنیسے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس تجارت سے وابستہ ایک تاجر اعجاز احمد میر نے کہا’’بحیثیت ٹریڈرز اور عام کشمیری کے ہم اس ٹریڈ کو بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔دو طرفہ تجارت کی وجہ سے نصف صدی سے زائد عرصہ سے بچھڑے خاندانوں اور عوام کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقعہ فراہم ہوا ۔اگر دو طرفہ تجارت بند ہو گئی تو اس سے پھر آر پار کے لوگوں کے درمیان دوریاں بڑھیں گی اور رابطے ختم ہو جائیں گے۔ البتہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے دوران ٹریڈ نا ممکن ہے‘‘۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے فیکلٹی ممبر شیخ ولید الرسول نے کہا’’میں نے اس پر دو مقالے تحریر کئے ہیں۔ یہ تجارت سی بی ایم کے طور پر اعتمادبحال کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس میں اعتماد کہٰیں نظر نہیں آتا۔ اس سے بعض لوگ فائدہ مند ٹھہرے لیکن اب یہ چند این جی اوز، سمگلروں اور پوٹرز کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ تا ہم اس میں سٹیٹس کوتوڑنے اور تعلقات کے نئے بانڈزقائم کرنے کا پوٹینشل موجود ہے۔‘‘

اس تجارت سے وابستہ رہنے والے راولپنڈی میں مقیم ایک کشمیری یاسین احمد چارلی کا تعلق وادی سے ہے۔ انہوں نے وادی کے مہاجرین مقیم پاکستان کی نشست پر راولپنڈی سے آزاد کشمیر کے حالیہ اسمبلی انتخابات بطور آزاد امیدوار لڑے۔ وہ بتارہے ہیں کہ ہر وقت کشمیریوں کو لالی پاپ دے کر بے وقوف بنایا گیا۔ یہ تجارت بھی بھارت نے ڈیزائن کی۔ اس پر پرویز مشرف نے عمل کیا۔ کشمیری دشمن کی احمقانہ چالوں سے باخبر ہیں۔ جن کا مقصد کشمیر ایشو کو ڈیفیوز کرنا ہے۔ جنگ بندی لائن پر دیوار بندی بھی بھارت کے تحفظ کے لئے کی گئی۔ اسے بھی پرویز مشرف نے عملی شکل دی۔ تجارت بھی کشمیریوں کو پنجرے میں ڈالنے کے لئے ٹریپ ہے۔ کشمیری اسی دیوار پر شہادت یا آزادی تک جمع ہو جائیں ۔ وادی میں کشمیر قتل ہو رہے ہیں اور ہم چکوٹھی پر جمع ہوکت احتجاج کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اس تجارت کا کوئی فائدہ نہیں۔

حریت کانفرنس کے ایک نوجوان رہنماانجینئر مشتاق محمود کا کہنا ہے کہ پہلے سٹیج پرتو ان سب سی بی ایمز کو مسترد کر دینا چاہیئے۔ اب وہ سمجھتے ہیں کہ اس تجارت کو بند کر دیا جائے۔ اس نے چند کو کروڑ پتی اور بعض کو بھکاری بنا دیا ہے۔ پاک بھار ت قریب نہ آسکے۔ امید رکھنی چاہیئے کہ ایسے سی بی ایمز مسلہ کشمیر کے حل میں مددگار ثابت ہوں۔ ایک کشمیری براڈکاسٹر شیخ لطیف نے مقبوضہ وادی میں کسی تاجرسے رابطہ کے دوران مطالبہ کیا گیا کہ اس تجارت کو دوبارہ کھول دیا جائے اور اس نے معصوم تاجروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہوئے جذباتی طور پر بلیک میل کیا کہ اس کے بچوں کو دودھ تک نہیں مل رہا۔ وہ ایسے افراد سے سوال کرتے ہیں کہ وہ لوگ 2009سے پہلے کیا کام کرتے تھے اور کیسے گزر بسر کرتے تھے۔ ہم نے تجارت کے بجائے آزادی کی تحریک کے لئے قربانیاں دی ہیں اور ایسے سیکٹروں کاروبار آزادی پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔ سمندر پار مقیم کشمیر بھی کشمیر کے حالات سے پریشان ہیں۔ کنیڈا میں مقیم کشمیری کنسلٹنٹ فاروق صدیقی انٹرا کشمیر ٹریڈ کے بارے میں اپنی منفرد رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تجارت جاری رہنی چاہیئے۔ بلکہ اس میں اضافہ ہو۔ کیوں کہ یہ صرف تجارت ہی نہیں بلکہ اس سے سماجی کنٹریکٹ بڑھتا ہے اور یہ انڈین مارکیٹ پر انحصارمیں کمیکرتی ہے۔ لندن میں جسٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ پروفیسر نذیر احمد شال تجویز دے رہے ہیں کہ اس تجارت کے وابستگان اور لیڈر شپ کو تجارت جاری رکھنے یا معطل کرنے کے بارے میں اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا ہو گا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485747 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More