جماعت اسلامی کی موجودہ سیاست

اسلامی پارٹیوں میں جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی تھی جس کے کچھ اصول اور ضوابط تھے،ان اصولوں کو غلط یا ٹھیک کہا جا سکتا ہے لیکن جماعت اسلامی جب اسٹینڈ لیتی تھی تواس پر جماعت کھڑی ہوتی،جماعت اسلامی کی ایک طویل ماضی کی جدوجہد سیاست ہے جو کرسی یا اقتدار کیلئے نہیں بلکہ اقدار کیلئے ہوا کرتی تھی لیکن آج کی جماعت اسلامی ہمیں مختلف نظر آتی ہے ،بعض ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی سیاست بھی جمعیت علماء اسلام والی سیاست ہوگئی جس میں زیادہ تر فوکس اصولوں سے زیادہ اقتدار والی ہوگئی ہے جس کاجواب بھی جماعت کے دوست اس طرح دیتے ہیں کہ چونکہ لوگ کام چاہتے ہیں ، نوکریاں ، گلی محلے کے مسائل سمیت بجلی اور گیس کنکشن اور لوڈ شیڈنگ سے نجات چاہتے ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم حکومتوں میں رہے یا حکومتوں کے ساتھ تعاون رکھیں لیکن ناقدین اس جواب سے متفق نہیں ،وہ کہتے ہیں کہ جماعت کا جو پہلے والا فلسفہ تھا اب وہ نہیں رہا، جماعت کے امیروں کے ساتھ بھی وہ تبدیل ہوتا رہاہے۔پہلے جماعت اسلامی حکومتوں کے خلاف احتجاج کیا کرتی تھی ایشوز پر اسٹینڈ لیتی تھی جس کے لئے وہ دھرنے ، جلوس اور جلسے کیا کرتی تھی لیکن آج اس کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ہر مسئلے پر آواز بلند کرتی ہے اور کھل کر حکومت کی مخالفت کی جاتی ہے، توقع یہ تھی کہ جماعت اسلامی اورتحریک انصاف جو شروع میں ایک دوسرے کے قریب تھے یعنی سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کے وقت میں لیکن اب صوبے میں مشترک حکومت کے باوجود بھی جماعت اسلامی کی سیاست الگ ہے ۔ ملک کے باقی حصوں میں وہ تحریک انصاف کی جگہ نون لیگ کی اتحادی ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف جماعت کے امیر سراج الحق صاحب وفاقی حکومت پر تنقید بھی کرتے ہیں لیکن پنجاب میں ضمنی انتخابات ہو یا بلدیاتی الیکشن جماعت اسلامی نون لیگ کی اتحادی ہوتی ہے جبکہ کشمیر کے حالیہ الیکشن میں بھی جماعت اسلامی اور نون لیگ کا اتحاد قائم تھا جس کا جماعت اسلامی کو کوئی فائدنہیں پہنچا البتہ نقصان ضرور اٹھایا۔جماعت نے جس طرح ماضی کے برعکس اپنی سیاست تبدیل کی ہے اس طرح عوام میں بھی ماضی کے برعکس سیاسی شعور زیادہ پیدا ہوا ہے ۔عوام کسی بھی جماعت کی سیاست کو اب پسند نہیں کرتی جوایک طرف حکومتی اتحادی ہو دوسری طرف عوام کے سامنے اس پر تنقید بھی کرے جس طرح مولانا فضل الرحمن کرتے ہیں ۔ ملک بھر میں عموماً اور خیبر پختونخوا میں خصوصاًجماعت اسلامی مذہبی طبقے کاووٹ لے سکتی تھی لیکن جماعت نے اس پر کام کے بجائے مولانا کی سیاست کو بہتر جانا اور اس پر زیادہ تر عمل پیرا ہوگئی ۔جماعت اسلامی کے پاس یہ اچھاموقع تھا یا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں وفاقی حکومت کے خلاف بھر پور احتجاج شروع کرتی وہ احتجاج پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر بھی کی جاسکتی تھی یا علیحدہ بھی لیکن جماعت اسلامی حکومت کی نااہلیوں ، کرپشن اور دھاندلی کی پالیسی کو غلط بھی کہتی ہے اور حکومت کاساتھ بھی دے رہی ہے ۔ کوئی مسئلہ یا ایشو ایک وقت میں صحیح اور غلط کیسے ہوسکتا ہے، مولانا فضل لرحمن صاحب کے دلائل اور پالیسی کے مطابق توہوسکتا ہے لیکن جماعت کی پالیسی کے مطابق وہ ٹھیک نہیں ہوسکتا یعنی جماعت کے نزدیک پاناما لیکس غلط ہے ، حکومت کی کرپشن ، مہنگائی اور معاشی واقتصادی اعداد وشمار جو اسحاق ڈار وفاقی وزیرپیش کرتے ہیں وہ حقائق کی نفی کرتی ہے لیکن جماعت اسلامی پھر بھی حکومت کے خلاف کھل کرنہیں کھیلاتی جس طرح ماضی میں کھیلاکرتی تھی ۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کے جماعت کے رہنما کو پھانسی دینے پر احتجاج کیا جس میں مقررین نے وفاقی حکومت پر پانامالیکس کے معاملے پر بھی تنقید کی لیکن یہ احتجاج صرف اپنے کار کنوں کیلئے ریکارڈ کا حصہ بنانا تھا ۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ان محب وطن شخصیات کو بنگلہ دیشی حکومت پھانسیاں دے رہی ہے جنہوں نے مغربی اور مشرقی پاکستان کو اکٹھا رکھنے کیلئے کام کیا تھا یا وہ تقسیم پاکستان کے خلاف تھے جس طرح تاریخ میں ہوتا ہے کہ کوئی مسلمانوں کو اکٹھا رکھنے اور مضبوط قوت کے طور پر دیکھنے کیلئے تقسیم کے خلاف ہوتے ہیں اور کوئی اس کے حق میں کہ ہمیں آزادی دی جائے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی یا پاکستان کے وہ حب الوطن رہنما جو بھارت کے سازشوں سے واقف تھے انہوں نے بنگلہ دیش کو الگ کرنے کی ہندوؤں کی سازش کو بے نقاب کرنے اور ناکام بنانے کیلئے تقسیم کی مخالفت کی تھی آج 45سال بعد حسینہ واجد کی حکومت ان محب وطنوں کو پھانسیوں پرچڑھا رہی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے بالکل خاموشی اختیار کی ہے ، عالمی سطح پر اس مسئلے کو نہیں اٹھایا بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت اس کو بنگلہ دیش کا اندررونی مسئلہ قرار دے رہی ہے جس طرح آج بلوچستان میں اکثریت پاکستان کے حق میں ہے اور بلوچستان کو الگ کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں ، خدا نخواستہ کل یہ لوگ ان کے نزدیک غدار ہوں گے ؟ دوسرا مسئلہ بنگلہ دیش کے ساتھ اس وقت معاہدوں کا ہے جس میں ایسے لوگوں کو معاف کرنا شامل تھا لیکن آج 45سال بعد بنگلہ دیشی حکومت نہ صرف معاہدوں کی خلاف ورزی کررہی ہے بلکہ انسانیت کے خلاف اقدامات اٹھا رہی ہے جس پر پوری امت مسلمہ سمیت پاکستان کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے ۔ بحرکیف نون لیگ کی موجود حکومت نے کونسا ایسا اچھاکام کیا ہے جس سے ہم اب توقع رکھیں کہ وہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق پر آواز بلند کرے وہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں قتل عام ہو یا پاناما لیکس میں کھربوں کی کرپشن پر جواب دینے کے بجائے الزمات لگا رہی ہے جس طرح انہوں نے دھاندلی پر جواب نہیں دیا اور اب ہر جگہ دھاندلی ثابت ہوگئی ہے ۔ جماعت اسلامی کو واضح پالیسی آپنانی ہوگی بقول عمران خان وکٹ کی دونو ں طرف کھیلنا خود جماعت اسلامی کے لئے نقصان دہ ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس اچھاموقع ہے کہ وہ حکومت کی نا اہلیوں پر کھل کر عوام کے پاس آئے ، امید ہے کہ عوام میں جماعت اسلامی کو پذیرئی ملے گی ۔میرے خیال کے مطابق تحر یک انصاف اور جماعت اسلامی کو اکٹھا ہونے اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے سے زیادہ فائدہ ہوگا جو زیادتی وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ کررہی ہے خاص کر بجلی پیدا کرنے والے صوبے میں بجلی نہیں ہے ۔ نون لیگ کے نعروں کے برعکس ضلع نوشہر ہ جو وزیراعلیٰ کا ضلع بھی ہے اور نون لیگ کے ایک اور اہم کارکن امیدوار صوبائی اسمبلی اختیار ولی کا ڈسٹرکٹ بھی ہے اس میں آج بھی20گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے ۔ اس طرح باقی ایشوز پر اکٹھے ہونے سے صوبے کو فائدہ بھی ہوگا اور عوام میں پذیرائی بھی ملے گی۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226191 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More