فطری جمہوریت اورغیرفطری جمہوریت
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
International Day of Democracy
(15ستمبرعالمی یوم جمہوریت کے موقع پرخصوصی تحریر) |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
انسانیت کا آغاز خاندانی نظام سے ہوا۔خاندان سے قبیلے بنے اور پھر انسانی
بستیوں کی شکل میں گاؤں وجود میں آئے۔’’گاؤں ‘‘وہ اکائی ہے جہاں سے انسانی
تہذیب و تمدن نے جنم لیا۔ابتدائی زمانوں میں جب کوئی اجتماعی مسئلہ درپیش
ہوتا توپورے گاؤں میں مشاورت کی جاتی تھی۔قدیم انسانی تاریخ میں زیادہ تر
دو مواقع پر اس طرح کے مشورے چوپالوں،ڈیروں ،پنچائتوں یا بیٹھکوں میں منعقد
ہوتے تھے۔کسی دشمن کے حملے یا کسی دشمن پر حملے کے موقع پریا پھر پانی کے
ذخائر کے اختتام پر یا کسی دیگرنوعیت کی وجوہات کی بنیادپر ہجرت کے موقع
پر۔آبادی کی قلت کے باعث کم و بیش تمام مرد حضرات اس طرح کے مشوروں میں
شریک ہوتے اور منہ در منہ بات چیت منعقد ہوتی۔اس بحث و مباحثہ کے بعد
اکثریت کی رائے کو ملحوظ خاطررکھاجاتا اورقبائلی سیاسی قیادت اس اکثریتی
فیصلے پر عمل درآمدکی پابند ہوتی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ مشاورت عوام سے نکل
کر خواص میں درآئی اور ساری آبادی کو شامل مشورہ کرنا ممکن نہ رہا تو
سرداران قوم ہی مل بیٹھ کر کسی نتیجہ تک پہنچ جاتے اور انہیں اپنے اپنے
خاندانوں یا قبیلوں کااعتماد حاصل ہوتاتھا،اور ان کے فیصلوں کو قبول عام
بھی میسر آجاتا۔بہت تھوڑے پیمانے پراگرکہیں مخالفت ہوتی تو اسے مقامی
طریقوں سے دبادیاجاتاتھا۔گاؤں سے انسانی آبادیاں جب شہروں میں منتقل ہوئیں
تو قبائلی نظام ڈھیلاپڑ گیااور سیاست کے نئے رنگ ڈھنگ ابھرنے لگے اور
جمہوریت سکڑ گئی۔اب شہروں میں طاقت کاراج قائم ہونے لگااورلڑنے والے
آزادمردوں کے جنگی سرداروں کے ہاتھ میں قیادت آگئی اور ان کااجتماعی فیصلہ
ہی سیاسی فیصلے کارنگ اختیارکرلیتا۔چنانچہ اس زمانے میں فوجوں کی بغاوت
اقتدارکی تبدیلی کاباعث بن جاتی تھی اور حکمران اپنے مضبوط اقتدارکے لیے
فوجی وجنگی سرداروں سے مشورے پرمجبورہوتے تھے اوریوں جمہوریت صرف مشاورت سے
عبارت رہی۔
مورخین کے مطابق چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کے اندر جمہوریت کے کچھ
خدوخال ملتے ہیں،اس زمانے میں راجوں نے اپنے درباروں میں کچھ منتخب قبائلوں
کوجگہ دی ہوتی تھی اور ان درباریوں میں سے بھی اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر
لیاجاتاتھا۔مورخین کے مطابق بعض اوقات یہ راجے دربارعام بھی لگاتے تھے جس
میں ہرخاص و عام اور امیروغریب کو آنے کی اجازت تھی لیکن یہ اجازت صرف آزاد
شہریوں تک ہی محدود تھی۔یہ نظام اپنے بچے کھچے اثرات کے ساتھ کم و بیش
چوتھی صدی عیسوی تک چلتارہا۔خاص طورہندودھرم کے ذات پات کے نظام نے اس
جمہوری روایت کی بیخ کنی کر دی۔’’پنچائت‘‘کی اصطلاح اسی دور کی باقیات میں
سے ہے۔جب کہ یونان میں جمہوریت کے نشانات ساتویں قبل مسیح میں بھی ملتے
ہیں۔مغربی مفکرین کے مطابق جمہوریت کو سب سے پہلے یونان کے
شہر’’ایتھنز‘‘میں آزمایاگیا۔ابتدامیں ایتھنزکے عوام کوچارطبقات میں تقسیم
کیاگیاتھا،اور ان کے طبقات کے اعتبارسے ان کے حقوق و فرائض بھی آئین میں
متعین تھے۔لیکن 594قبل مسیح میں بلاامتیازطبقات تمام لوگوں کوریاست کے
اجتماع عام میں آنے کی اجازت دے دی گئی۔عوام الناس ان اجتماعات میں تقریریں
کرتے تھے،اپنی رائے کاکھل کر اظہار کرتے تھے اور پھر کثرت رائے سے کسی
نتیجے پرپہنچاجاتاتھا۔ابتداََاٹھارہ سال سے زائدعمر کے آزادمرد جن کے باپ
بھی ایتھنز کے شہری ہوتے تھے اس اجتماع میں آنے کے اہل تھے،451قبل مسیح کے
بعدماں کاایتھنزکاشہری ہونا بھی لازمی قراردے دیاگیاتھا۔وقت کے ساتھ ساتھ
یونان میں آئین سازی کے ذریعے بہت سے تجربات کیے گئے لیکن اس وقت کی
جمہوریت کسی حدتک آزادی رائے کی حدود کے اندرتھی،حزب اختلاف یاوقت کے
حکمران کے مقابلے میں کسی متبادل قیادت کاکوئی تصورموجود نہ تھا۔یونانیوں
کے بعد رومیوں کادور آیاتو انہوں نے بھی اپنی بادشاہت کی چھتری تلے کم و
بیش یونانیوں کی طرز کے آئینی جمہوریت جیسے تجربے جاری رکھے۔رومیوں کے
دورمیں انفرادی رائے دہندگی کارواج زورپکڑنے لگالیکن ہر فرد اپنے قبیلے کے
اندر ہی رائے دہندہ ہوتااور محدودانتظامی کارندے کثرت رائے سے منتخب ہونے
لگے۔139قبل مسیح تک جمہوریت اس قدربلندقامت ہوئی کہ قبیلے کے اجتماع میں
ایک فرد اونچی آواز میں ہر فرد سے اسکی رائے پوچھتااور جواب دینے والا
زیادہ تر ہاں یاناں میں اپنی رائے کااظہارکردیتاتھا۔
جمہوریت کے ارتقاء میں مکہ کے ’’دارالندوہ‘‘نے بھی ایک تاریخ ساز
کرداراداکیا۔محسن انسانیت ﷺ کے جد امجد قصی بن کلاب بن مرۃ(400ء)نے مکہ
مکرمہ پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اپنی مطلق العنان حکمرانی قائم نہیں کی
حالانکہ وہاں اس وقت تاریخ کا سخت ترین روایتی قبائلی نظام رائج تھا۔قصی بن
کلاب نے مکہ مکرمہ میں ایک عمارت کی بنیاد رکھی اور اس کا دروازہ شمال کی
جانب بیت اﷲ کی طرف رکھا۔محسن انسانیت ﷺکے اس جدامجد نے اس عمارت کا نام
’’دارالندوہ‘‘تجویز کیا۔اس چھوٹے سے گھر میں قریش کے جملہ امور میں مشاورت
کی جاتی تھی،صلح ،جنگ،نکاح و ازدواج ،اختلافات و قضاوت اور دیگر اجتماعی
امور یہاں بذریعہ مشاورت قصی بن کلاب کی صدارت میں طے پاتے تھے۔قصی بن کلاب
نے قریش کی تمام شاخوں کے الگ الگ محلے قائم کیے تھے اور ان محلوں کے
سرداروں پر مشتمل مجلس مشاورت قائم کی،یہ مشاورت داالندوہ میں ہوتی تھی اور
یہ سرداران قوم بھی چالیس برس سے زائد عمر کے ہوتے تھے۔قصی بن کلاب بحیثیت
صدر دارالندوہ مکہ کاحکمران مانا جاتاتھااور دارالندوہ اسکی مشاورتی
پارلیمان تھی۔جمہوریت کی دلالت کے لیے یہاں کے دو رواج قابل اعتنا ہیں،پہلا
یہ کہ یہاں بیٹھنے کی ایک ہی شرط تھی کہ اہل مکہ میں سے جس کی عمر چالیس
سال سے متجاوز ہوجاتی وہ بربنائے بزرگی اس بیٹھک کارکن بن جاتااور دوسرا
رواج یہ تھا کہ یہاں کثرت رائے کی بنیادپر فیصلے کیے جاتے تھے اور یہ فیصلے
مکہ کی وادی میں نافذالعمل ہوتے تھے۔دارالندوہ میں قبائلی کشمکش جب کبھی
بھی گرمی گفتارکارنگ اختیارکرتی تو ایک طرف سے اگر جنگ کے نعرے بلند ہوتے
تودوسری طرف سے فوری طورپر امن اور صلح کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں
تھیں اور یوں بھڑکتے ہوئے شعلوں پر برموقع پانی ڈال دیاجاتااس طرح ایک
تاریخی عرصہ تک مکہ کی وادی داخلی طورپرباہمی امن کی آماجگاہ بنی رہی
اوربڑے ہی مشکل فیصلے بآسانی انجام پزیر ہوتے گئے۔اس امن کی ایک ہی وجہ
سمجھ میں آتی ہے کہ رائے دینے والے جذباتی عمروں سے نکل کر بالغ نظری اور
ذہنی بلوغت رائے دہی کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے تھے۔چالیس سال کی عمر انسانی
عرصہ حیات میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور زندگی اپنی تلخیوں اور
کڑواہٹوں کابہت کچھ ذائقہ انسان کو چکھاچکی ہوتی ہے چنانچہ اس عمر کے
فیصلوں میں جذباتی و وقتی و فوری مصلحتوں کی بجائے دوراندیشی اور عقل و
دانش کے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں۔بلآخر وحی نے بھی اس چالیس سالہ عمر کے
فیصلے کی توثیق کر دی اور نبی آخرالزماں محسن انسانیتﷺکوٹھیک چالیس سال کی
عمر میں نبوت کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
عصری سیکولر جمہوریت میں رائے دہندہ کی عمر18سال ہوتی ہے۔اس عمر کے
نوجوانوں کو اپنے خاندان کے حساس معاملات میں بھی شریک مشورہ اس لیے نہیں
کیاجاتا کہ اس عمر میں عقل و دانش پر جذبات کا مکمل غلبہ ہوتاہے۔ایک فطری
جمہوریت ہے جس میں ایک فرد پہلے اپنے گھرکی باگ دوڑ سنبھالتاہے،پھر قدرت
اسے اپنے خاندان کی بزرگی عطاکرتی ہے اور بلآخر وہ اپنے قبیلے کاسردار
بنتاہے ۔یہ نمائندگی کے فطری مراحل ہیں جن کے بعد ایک انسان اپنے
تجربے،علم،عقل و دانش اور تعلقات کی بنیادپر انسانوں کے ایک گروہ کو فطری
قیادت فراہم کرنے کے قابل ہوتاہے اور اس قیادت میں بدعنوانی کا شائبہ تک
نہیں کہ کوئی بھی انسان کتنا ہی بے ایمان،دغابازاور چوراچکا کیوں نہ ہو کم
از کم اپنی نسل اور خاندان کو کبھی بھی محروم نہیں کرے گا۔دوسری غیرفطری
سیکولرجمہوریت ہے کہ کم عمر نوجوانوں کو بڑوں اور بزرگوں پر حکمران بناکر
مسلط کردیاجائے جو کہ کلیۃ غیرقدرتی اورانسانی فطرت کے عین برعکس ہے۔ایسی
غیرفطری جمہوریت کے نتیجہ میں بڑے چھوٹے بن جاتے ہیں اور چھوٹوں کو بڑا
بنادیاجاتاہے۔ایسا تو کم از کم جنگلوں میں بھی نہیں ہوتا جواس سیکولرازم کے
ہاتھوں انسانوں کی بستیوں میں ہو رہاہے۔جمہوریت اگرفطری شکل میں ہو تو اس
سے بہتر کوئی نظام نہیں، لیکن سامراجی دماغ نے آج کی غیرفطری سیکولر
جمہوریت کو چھوٹی قوموں میں غدار وں کی پرورش گاہ بنادیاہے۔جمہوریت کے نام
پر قابل فروخت انسانوں کو تلاش کیاجاتاہے،ان کو بیش بہا رقوم فراہم کی جاتی
ہیں اور سرمایادارانہ نظم معیشیت کو تحفظ فراہم کرنے والے انتخابات میں
ایسے امیدواراپنی دولت کے بل بوتے پراٹھارہ سالہ رائے دہندگان کی کثرت
حمایت سے منتخب ہوکر اقلیت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایوان میں پہنچ جاتے
ہیں۔اقلیت کی نمائندگی اس لیے کہ اگرایک حلقے میں پانچ امیدواران انتخابات
میں حصہ لیں اور چار تو پچیس پچیس ہزار ووٹ حاصل کریں اور ایک امیدوار
چھبیس ہزار ووٹ لے لے تو اس چھبیس ہزار والے کو فتح حاصل ہو گی اور یوں کم
و بیش 21%کی نمائندگی توایوان میں ہو گی لیکن 79%اپنی نمائندگی سے محروم
رہیں گے۔تب ایوان میں بیٹھنے والے اقلیت کے ہی نہیں بلکہ اس غیرفطری نظام
کے نمائندہ ہیں انہیں قوم کا نمائندہ کہنا یا اکثریت کا نمائندہ کہنا کلیۃ
سیاسی نظام کے ساتھ بدترین مذاق و استہزا ہوگا۔بس بہت جلد کل انسانیت اس
غیرفطری نظام جمہوریت کوخیرآباد کہنے والی ہے،انشاء اﷲ تعالی۔ |
|