اسلام آباد فضائی حادثہ، کیا لواحقین کو پورا معاوضہ ملے گا؟

اسلام آباد میں ایک المناک فضائی حادثے میں 152 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک نجی ائرلائن ”ائربلو“ کی فلائٹ جو کراچی سے اسلام آباد پہنچی تھی، ائر پورٹ پر اترنے سے پہلے حادثے کا شکار ہوئی اور مارگلہ کی ایک اونچی پہاڑی سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں عملہ کے چھ ارکان اور ایک سو چھیالیس مسافر لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے پر جہاں فوت ہونے والوں کے لواحقین ششدر، سکتے اور سوگ کی کیفیت میں مبتلاء ہیں وہیں پورا ملک بھی صدمے اور سوگ میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ اس دنیا سے گزرنے کے بعد تمام لوگ اپنے اعمال سمیت اللہ کے پاس پہنچ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی رحیم اور کریم ہے اور اس نے حادثاتی موت کا شکار ہونے والوں کے لئے بھی شہادت کا مرتبہ رکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ فضائی حادثہ میں فوت ہونے والے تمام لوگوں کو جوار رحمت میں جگہ عطا کرے، ان کی غلطیوں اور لغزشیں درگزر فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ جب سے دنیا بنی ہے حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے لیکن زندہ اور جاندار قومیں ایسے حادثات سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لئے کوشش کرتی ہیں کہ دوبارہ اس طرح کے حادثات نہ ہوں، سوئے اتفاق سے ہمارے ارباب اختیار اور عوام بہت جلد ایسے معاملات کو بھول جاتے ہیں اور مستقبل کے لئے کسی قسم کی پیش بندی نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی مختلف فضائی حادثات میں کم و بیش چھ سو سے زائد افراد شکار بن چکے ہیں لیکن کیا کہیے کہ آج تک کسی بھی حادثہ کی تحقیقات نہ تو نتیجہ خیز ثابت ہوئیں نہ مستقبل کے لئے ان کے تدارک کی کوشش کی گئی اور نہ ہی حادثے کے شکار مسافروں کے وارثان کو کسی قسم کا معقول معاوضہ ادا کیا گیا، سارا نظام اللہ توکل چل رہا ہے اور نہ جانے کب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یقیناً زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے، اس نے جو وقت اور جگہ کسی ذی روح کی موت کے لئے مقرر کر رکھی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں، انسانی جانوں کو اہمیت نہ دیں اور اس طرح کے حادثات سے بچنے کے لئے تدارک کی راہ اختیار نہ کریں۔ ہمارے نبی مہربان ﷺ نے بھی بیماری میں علاج کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنی جان کو عزیز رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کرنا چاہئے اور پھر اللہ پر توکل کرنا چاہئے کہ ہمارے حفاظتی انتظامات کے باوجود موت برحق ہے۔

اگر ذکر کریں اسلام آباد حادثہ کا تو اس کے حوالہ سے ماہرین کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی پی آئی اے سمیت کوئی بھی ائر لائن سول ایوی ایشن کے قوانین اور ضوابط پر مکمل عملدرآمد نہیں کرتی اور نہ ہی کوئی ادارہ اس سلسلہ میں اس سے جواب طلبی کرتا ہے۔ ہر جگہ چونکہ سیاست ہورہی ہے اور اس کھیل میں اکثر اوقات ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو یقیناً نہیں ہونی چاہئیں۔ دنیا بھر کے کسی بھی ایسے ادارہ میں جہاں اس کے ورکر، ملازمین اور آفیسرز ذہن کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں وہاں ریٹائرمنٹ کی کوئی نہ کوئی حد مقرر ہوتی ہے۔ اکثر اداروں میں ریٹائرمنٹ کی حد ساٹھ سال ہوتی ہے، ساٹھ سال کی عمر میں انسان کے قوت اور اس کی صلاحیتوں میں بہرحال فرق آجاتا ہے اور وہ دن بدن صحت کے حوالہ سے تنزلی کا شکار رہتا ہے۔ ائر بلو کی متذکرہ پرواز کو جو پائلٹ فرسٹ پائلٹ کے طور پر اڑا رہے تھے وہ اپنے ساٹھ سال پورے کر کے پی آئی اے سے ریٹائر ہوچکے تھے اور اس کے بعد انہوں نے بطور کمرشل پائلٹ ائر بلو کو جوائن کر رکھا تھا، اس کے علاوہ ائر بلو کے پاس بہت زیادہ طیارے موجود نہیں اور وہ طیاروں کی محدود تعداد کے ساتھ ہی پاکستان میں اپنے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے، پی آئی اے کی نسبت ٹکٹ سستی ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اس ائر لائن کو ترجیح بھی دیتے ہیں اس لئے ان کے پاس مسافروں کا رش بھی ہوتا ہے مزید یہ کہ یہی طیارہ کراچی سے اسلام آباد آنے سے پہلے ترکی سے کراچی پہنچا تھا اور اسلام آباد کے بعد اس نے فوراً انگلستان جانا تھا۔ جب طیارہ حادثہ کا شکار ہوا اس وقت وہ لینڈنگ پوزیشن میں تھا اور موسم کی خرابی کے باوجود اسے اسلام آباد میں لینڈنگ کی اجازت کس نے دی اور کیوں دی، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب تحقیقاتی ایجنسیوں کو ضرور تلاش کرنا چاہئے، اس کے علاوہ ایک اور بات جو سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ ہوائی سفر سے منسلک کمپنیاں اور ادارے اپنے کمرشل پائلٹوں سے اسی طرح کام لیتی ہیں جس طرح سڑک پر ٹرک اور بسیں چلتے ہیں یعنی مسلسل بارہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹیاں اور وہ بھی اگر ان پائلٹوں سے لی جائیں جن کی عمریں بھی ساٹھ سال سے متجاوز ہوں تو ایسے حادثات کا خدشہ اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایک انسان کو خصوصاً جس کے کام کے ساتھ سینکڑوں انسانی جانیں وابستہ ہوں اور کسی قسم کی کوتاہی یا انسانی غلطی سے سب کی جان جانے کا خطرہ ہو وہاں انتہائی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جو حالیہ حادثہ میں صاف نظر آتی ہے۔ میں خدانخواستہ شہید ہونے والے پائلٹ پر کوئی الزام نہیں لگا رہا لیکن ساٹھ سے زیادہ عمر، موسم کی خرابی، مسلسل سفر، اسلام آباد جیسا ائر پورٹ اور محدود Visibility یقینا معمول سے زیادہ احتیاط کی متقاضی تھیں۔ حادثے کے بعد پائلٹوں کی ایسوسی ایشن پالپا کے صدر سہیل بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ائر لائنز پائلٹوں سے 12/12 گھنٹے مسلسل پرواز کراتی ہیں اور اگر کوئی پائلٹ اس طرح مسلسل سفر اور سفر کی تھکان کی وجہ سے کوئی پرواز نہ کرنا چاہے تو ائر لائن کی انتظامیہ فوری طور پر اسے شو کاز Show Cause نوٹس جاری کردیتی ہے اور بعض اوقات اسے ملازمت سے فارغ بھی کردیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ہوا بازی کے کچھ بین الاقوامی اصول و ضوابط ہیں جن میں اندرون ملک پروازوں کے حوالہ سے کچھ ترامیم کر کے انہیں تھوڑا نرم کیا گیا ہے تاکہ سب کا ”دال دلیہ“ چلتا رہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی میڈیا پر آچکی ہے کہ جب پائلٹ نے لینڈنگ کے لئے پوزیشن بنائی اور کنٹرول ٹاور سے پوچھا کہ ہم کس طرف مڑیں تو وہاں سے جواب ملا کہ ”بائیں“مڑ جائیں حالانکہ وہاں سے ”دائیں“ کہنا چاہئے تھا اور یہی وہ غلطی تھی جس نے جہاز کے ساتھ ساتھ 152 انسانوں کو بھی موت کی اندھی وادیوں میں دھکیل دیا، جب پائلٹ نے جہاز کو بائیں جانب موڑا تو سامنے مارگلہ کی پہاڑیاں تھیں اور غلطی کو سدھارنے کی گنجائش بھی ختم ہوچکی تھی، تبھی تو پائلٹ کے آخری الفاظ جو ریکارڈ کئے گئے وہ یہ تھے ”ہاں! ہم دیکھ رہے ہیں“....!

حادثہ کے بعد ایک اور بات جو نوٹ کی گئی وہ یہ کہ ہمارے ملک میں موجود مختلف ایجنسیوں میں آپس میں رابطے کا بھی انتہائی فقدان ہے، امداد کے لئے جائے حادثہ پر پہنچنا انتہائی ضروری تھا لیکن وسائل ہونے کے باجود امدادی ٹیموں کو وہاں پہنچنے میں اتنی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ بھی ایک حیران کن بات ہے کہ اسلام آباد جو ملک کا دارالخلافہ ہے وہاں وزیر اعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ ہاﺅس سے چند کلومیٹر دور ایسے علاقے موجود ہیں جہاں عام آدمی تو کیا وسائل سے بھرپور پولیس، فوج اور دیگر اداروں کے امدادی کارکنان بھی آسانی سے نہ پہنچ پائیں، اگر خدانخواستہ وہاں کوئی ملک دشمن عناصر، جو تربیت یافتہ بھی ہوں، چھپ جائیں تو کیا وہ پورے اسلام آباد کو ٹارگٹ نہیں کرسکتے؟ یہاں یہ مقام شکر ہے کہ مشہور عالم وزیر داخلہ نے اس حادثہ میں بھی طالبان کو ملوث نہیں کیا ورنہ جس طرح اس سے پہلے ہر آفت کے موقع پر وہ طالبان کے کھاتہ میں اضافہ کردیتے ہیں اکثر لوگوں کو شک تھا کہ شائد اس بار بھی ایسا ہی ہو۔

طیارہ حادثہ کے بعد جو رپورٹس اور خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق حادثہ کا شکار ہونے والے طیارے کو، جب وہ لینڈنگ کے لئے بالکل تیار تھا، لاہور جانے کے لئے کہہ دیا گیا۔ جب موسم خراب تھا اور اسلام آباد ائرپورٹ کے حالات موسم کی وجہ سے لینڈنگ کے لئے سازگار نہیں تھے تو پائلٹ کو پہلے ہی پرواز کا رخ لاہور موڑنے کے لئے کیوں نہ کہا گیا، پائلٹ کو ”دائیں“ موڑنے کی بجائے ”بائیں“ مڑنے کے لئے کس نے کہا؟ کون سے ایسے عوامل تھے جو ابھی درون خانہ موجود ہیں، کہاں کہاں غلطیاں بلکہ فاش غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور کن کن سے ہوئی ہیں، اس کا پتہ چلانا بہرحال متعلقہ ایجنسیوں کی اولین ذمہ داری ہے اور اگر کہیں کسی سے بھی انسانی جانوں سے کھیلنے کی غلطی ہوئی ہے تو اسے قرار واقعی سزا دینے میں بھی کسی کو تامل نہیں کرنا چاہئے۔ متعلقہ ایجنسیاں یقینا تحقیقات میں دہشت گردی کا پہلو بھی سامنے رکھے ہوئے ہوں گی لیکن خدارا صرف ”طالبان“ کو سامنے رکھ کر تحقیقات نہ کی جائیں بلکہ پاکستان کے حقیقی دشمنوں کے کردار اور سرگرمیوں کو بھی سامنے رکھا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ کنٹرول ٹاور کی مذکورہ بالا غلطی کو چھپانے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ اگر سول ایوی ایشن کی غلطی ثابت ہوگئی تو لواحقین کو معاوضے کی دائیگی بھی ان کی ذمہ داری بن جائے گی اور بدنامی الگ ہوگی۔ ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی ہے کہ جہاں حکومت نے شہید ہونے والوں کے ورثاء کے لئے مالی امداد کا اعلان کیا ہے وہیں ائربلو کی انتظامیہ کی جانب سے بھی بیان سامنے آیا ہے کہ جلد انشورنس کی رقم بھی ورثاء کو دی جائے گی، جبکہ ”وارسا“ کنونشن 1929 کے مطابق فضائی حادثے میں جان سے گزرنے والے مسافروں کے وارثان اس سے ہٹ کر بھی معاوضہ کے حقدار ٹھہرتے ہیں جو وہ حالات کے مطابق مقامی ایوی ایشن، ائرلائن یا طیارہ ساز کمپنی سے وصول کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت میں 22 مئی کو منگلور کے مقام پر ائر انڈیا کے ایک جہاز کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں ہلاک ہونے والے ہر مسافر کے وارثان کو ستر لاکھ روپے ادا کئے گئے تھے اور یہ رقم انشورنس کی رقم سے علیحدہ بطور معاوضہ (Compensation) ادا کی گئی تھی۔ ائر بلو کو بھی صرف انشورنس پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ وارسا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق لواحقین اور سوگواران کو معاوضہ کی ادائیگی کرنی چاہئے، اس سلسلہ میں چونکہ پاکستان بھی وارسا کنونشن اور دیگر تمام بین الاقوامی معاہدات کو مانتا ہے اس لئے پاکستان میں بھی اس سلسلہ میں قوانین موجود ہیں جن کے تحت حادثے میں مرنے والے کے ورثاء قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں اور کیس کر کے معاوضہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسافروں میں سے کوئی اپنے گھر کا واحد کفیل ہو اور اس کی وفات حسرت آیات کے بعد اس کے لواحقین کو حقیقتاً امداد اور معاوضہ کی ضرورت بھی ہو۔ حکومت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کے بعد اس کے نتائج سے عوام کو اور خصوصاً مرنے والوں کے لواحقین کو ضرور آگاہ کرنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ سابقہ حادثات کی طرح اس حادثہ کی فائل بھی بغیر کسی نتیجہ کے بند کردی جائے اور اگر کسی کو معاوضہ کے حصول کے لئے قانونی امداد کی ضرورت ہو تو وہ بھی مہیا کی جانی چاہئے، اس تناظر میں بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں اور سینئر وکلاء کو بھی اپنی خدمات فی سبیل اللہ یا نہایت کم فیس کے ساتھ پیش کرنی چاہئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حادثہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے والے مسافروں کے وارثان کو بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کے مطابق مکمل اور مناسب معاوضہ مل پاتا ہے یا پہلے حادثات کی طرح تھوڑی سے رقم دے کر ان دستخط کرالئے جاتے ہیں، اس سلسلہ میں ہمارے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور عوام الناس کو ان قوانین سے آگاہی کے لئے باقاعدہ پروگرام پیش کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے ایک بار پھر دعا ہے کہ حادثے کے شہداء کو جوار رحمت میں جگہ عنایت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ثم آمین۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209506 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.