کچھ ہم کہیں گے تو۔۔۔

قمر زمان کائرہ صاحب ہیں تو ملک کے وزیر اطلاعات لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کی با خبری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور اس میں کسی قسم کی دراڑیں نہ پڑھنے کی خوش فہمی پر مبتلا بیان جاری نہ فرماتے۔ معلوم نہیں یہ ان کے سٹاف کی ”مہربانی“ ہے یا پھر جیالے پن کی عینک کا دکھاوا کہ مقبولیت کے لحاظ سے نچلے ترین درجے پر پہنچنے کے باوجود انہیں بھی اپنے دیگر رفقا کی طرح آج بھی اپنی جماعت ہی ”نمبر ون“نظر آرہی ہے۔ صرف وزیر موصوف ہی نہیں بلکہ زرداری کیمپ کے تمام کے تمام جیالے اور جیالیاں اسی زعم میں مگن پھر سے ”عوامی راج“ ہی کے تانے بانے بن رہے ہیں اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پیپلز پارٹی کے ہر دور اقتدار میں ہی حکومتی پیروکاروں کو یہ ”مرض“لاحق رہا لیکن ہر بار ہی ”علاج “کے بجائے ایسے ہی بیاناتی ٹوٹکوں کا سہارا لیکر ”شفایاب “ہونے کے خواب دیکھے گئے۔ کسی کے بھی خواب دیکھنے پر چونکہ کسی قسم کی بھی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی لہٰذا نہ ماضی میں ایسا ممکن ہوسکا اور نہ ہی موجودہ دور حکومت میں اس طرح کے گمان پالنے والوں کیلئے کچھ ممکن ہے البتہ صرف اور صرف اپنے میڈیا سیل اور جی حضوری کرنے والوں کے ”بہکائے“ہوﺅں کو آئینہ ضرور دکھایا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے یہ ”جسارت“ اہل اقتدار اور ان کے آگے پیچھے ”سب اچھا ہے“ کا راگ الاپنے والوں کے لئے ناقابل قبول ہو لیکن قلم کی حرمت اور الفاظ سے کھیلنے کا فن سکھانے والوں کی نصیحتوں پر عمل بہر حال ضروری ہے سو قمر زمان کائرہ سمیت متذکرہ بالاصورتحال سے دوچار احباب کی خدمت میں گزارش ہے کہ بلا جواز دعوے کرنے سے پہلے ذرا مندرجہ ذیل حقائق پر بھی نظر ڈال لیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب ستر کی دہائی میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ملک میں نئی طرز کی سیاست کی بنیاد ڈالی تو محرومیوں کے شکار عوام جوق در جوق ان کی طرف کھنچے چلے گئے لیکن بھٹو مرحوم کے بعد اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس منشور کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے اس ملک کے عام آدمی کو ویسی ہی شدت سے پیپلز پارٹی سے دور کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ ضیاءالحق کی موت اور بینظیر کی طویل عرصے کے بعد وطن واپسی اور عملی سیاست کے آغاز کے بعد زیادہ شدید رہا۔ ضیاءالحق کا دور چونکہ ملکی تاریخ میں بد ترین آمریت کا زمانہ تھا لہٰذا اس کے خاتمہ کے بعد نئی صبح کی امید ہر اہل پاکستان کا خواب تھی لیکن 1988ءمیں جب پیپلز پارٹی نے برسر اقتدار آکر ”سیاسی مجبوریوں“کا رونا رونا شروع کیا تو سارے عوامی سپنے دھڑام اور تمام خواہشات پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گئیں۔ پیپلز پارٹی کا جمہوریت بحالی کے بعد پہلا دور ختم ہوا، پھر نواز شریف آئے اور چلے گئے اور یوں خود کو عوامی پارٹی کہلانے والے پھر اقتدار پر براجمان ہوئے۔ نعرے بھی لگے اور دعوے بھی سامنے آئے لیکن بد قسمتی سے یہ دور پہلے سے بھی زیادہ مایوس کن ثابت ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اس وقت بڑا بلکہ سب سے بڑا ووٹ بینک رکھتی تھی لیکن جیسے جیسے کرپشن اور بدعنوانی جیسی ”اصطلاحات“ سامنے آتی گئیں، ووٹ بینک کم ہوتا گیا۔ اسی دور میں کسی نے بطور وزیر خارجہ(سردار آصف احمد علی) اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا تو کوئی بطور وزیر اطلاعات(خالد کھرل)میڈیا کو ”لگام“ ڈالنے کے لئے بے صبر رہا۔ سیاسی کے ساتھ ساتھ عوامی لحاظ سے بھی انہی دو ادوار میں پیپلز پارٹی نے بھر پور غلطیاں کیں جو وقتی طور پر تو فاش محسوس نہ ہوئیں لیکن عام انتخابات میں ساری کی ساری مقبولیت کا بھانڈا ضرور پھوٹ گیا۔

پیپلز پارٹی کا یہ دور کیا ختم ہوا کہ اپنے ہی پاﺅں پر کھلاڑی مارنے کا محاورہ بھی صادق آگیا۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی اور جو ملک میں باقی رہ گئی اس نے 12اکتوبر1999ء کے جمہوریت پر شب خون کے بعد ”جان بچی سو لاکھوں پائے“کے مصداق اپنی اپنی ایک اینٹ کی مسجد بنا کر اپنے اپنے نظریات ہی درست قرار دینا شروع کر دیئے۔ کسی نے کمال ”دور اندیشی“کا ثبوت دیتے ہوئے پرویز مشرف کو ”یس باس“ کہہ دیا تو کوئی بیرون ملک مقیم بینظیر بھٹو سے ہدایات لینے کے باجود عملی طور حکومت وقت کا وفادار بنا دونوں ہی فریقین کو بیوقوف بناتا رہا اور یوں ووٹ بینک کو برقرار رکھنے پر نہ تو کسی نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی دھیان۔ مشرف کا دور تمام ہوا اور پھر”خاموش انقلاب“ کی بنیاد پڑی، اسی دوران وہ سانحہ رونما ہوگیا جو تھا تو بہت ہی المناک لیکن پیپلز پارٹی کیلئے ایک طرح سے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ضرور دے گیا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو صرف اور صرف ہمدردی کا ووٹ ملا، اسی ہمدردی کے ووٹ کی بناء پر وہ حکومت میں پہنچی اور اسی کے بل بوتے پر صدر آصف علی زرداری کرسی صدارت پر براجمان ہوئے لیکن ”روایت“پھر بھی وہی کی وہی رہی بلکہ ووٹ بینک اور پارٹی اتحاد کو برقرار رکھنے یا اس میں اضافے کیلئے اب کی بار کچھ زیادہ ہی سستی دکھائی گئی۔ نتیجتاً پہلے ہی سے دھڑوں میں بٹی پارٹی مزید نظریاتی اختلافات کا شکار ہوگئے۔پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے گرد مفاد پرستوں نے گھیرا ڈال لیا اور یوں بھٹو ازم کے ماننے والے مخلص ترین جیالوں کو یوں اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا جیسے مکھن سے بال، اور جب یہ ہوا تو صرف اور صرف بھٹو کی پارٹی کے حامی کہلانے والے عام جیالوں نے بھی منہ موڑنے کا فیصلہ کیا اور یوں دراڑیں اور اختلافات شدید تر اور عوامی مقبولیت کم ترین ہوتی چلی گئی۔

صرف سیاسی یا پارٹی طور پر ہی نہیں بلکہ اس کمی میں عام آدمی بھی برابر کا شریک ہے۔ کہنے کو تو18فروری2008ء کو ملک میں خاموش انقلاب برپا ہوا لیکن صرف سیاستدانوں یا پھر حکمرانوں ہی کیلئے۔ بد قسمتی سے اب کی بار بھی برسر اقتدار آنے کے بعد حکمران جماعت سیاسی جھمیلوں ہی میں الجھی رہی اور یوں خاموش انقلاب کے ”ثمرات“ عوام تک نہ پہنچ سکے۔ آج دیکھیں تو پیپلز پارٹی کو تیسری بار اقتدار سنبھالے تین سال سے اوپر ہو چکے لیکن اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ان تین سالوں میں میرے جیسوں کا جو کچومر نکلا اس کی مثال تو مشرف کے نوسالہ دور میں بھی نہیں ملتی، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کل تک”میں صدقے جاواں پی پی دے، میں ناز اٹھاواں پی پی دے“ کے نعرے لگانے والے ”روٹی کپڑا اور مکان، ملے گا جا کے قبرستان“کا واویلا کر رہے ہیں۔

سیاسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوریت کا سب سے بڑا حسن اور اس کی کامیابی کی ضمانت جمہور (عوام) ہوتے ہیں لیکن جب وہ ہی منتفر ہونا شروع ہوجائیں تو نہ جمہوریت باقی رہتی ہے اور نہ ہی اس کے بل بوتے پر کامیابی کا خواب دیکھنے والی پارٹیاں۔ اب پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے؟کائرہ صاحب یا پھر دیگر احباب خود ہی دیکھ لیں کہ کچھ ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔!
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.