آہوں کی بارات

انسان کی تخلیق بے شک خداوند قدوس کا ایک بہت عظیم کارنامہ ہے پھر اس تخلیق کو خالق نے اشرف المخلوقات کہہ کر اس کی عظمت کا معیار بھی مقرر کر دیا ساتھ ہی زمین آسمان، سورج، پانی ہوا بلکہ ساری کائنات کی تخلیق کر کے انسانی زندگی کے تسلسل کا سامان ہی پیدا کردیا بلکہ یہ حکم بھی صادر فرما دیا کہ کسی ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل سمجھا جائے گا۔ ان واضح احکامات کے باوجود بہت سے فرعونوں، ظالم بادشاہوں ،فوجی اور سیاسی آمروں نے انسانیت کا بے دریغ قتل کرکے اپنے ہاتھ انسانی خون سے رنگے۔ دونوں عالمی جنگوں میں انسانی جانوں کا ضیاع جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کا ایٹمی حملہ جس میں نہتے لوگوں کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں ویت نام، کوریا، بوسنیا، ایران عراق،کشمیر، افغانستان 'فلسطین، عرب اسرائیل اور گلف کی لڑائیوں میں بے پناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے لیکن کشمیرمیں توظلم وبربریت کا آتش فشاں سرد ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اس مرتبہ توبھارت فورسزکی جانب سے پیلٹ گن کے وحشیانہ استعمال سے توانسانیت بھی شرماکررہ گئی ہے۔٩جولائی کوبرہان وانی کی شہادت کے بعد اب تک شہداکی تعداد ٨٦اور١١٥٠٠زخمی ہوچکے ہیں جن میں ڈیڑھ ہزارکے قریب بصارت سے مکمل محروم اورکئی سوکی جزوی طورپر بینائی شدیدمتاثرہوئی ہے۔

بی بی سی کے مطابق ''سکیورٹی صورتحال کا عالم یہ ہے کہ کشمیر میں پچھلے دوماہ سے زائد کرفیو کا سما ہے۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان مسلح مزاحمت پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ تین سال قبل جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں ایک تصادم کے دوران مارے گئے سجاد یوسف جوکمپیوٹر اپلیکیشن میں ماسٹرز ڈگری ہولڈراوربھارتی دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے ۔ایک اور تصادم میں ہلاک ہونے والے مسیح اللہ نے ایم ٹیک کی ڈگری میں ٧٠فیصد نمبر لئے تھے۔پولیس کے مطابق شمالی اور جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں متعدد تصادم میں کم از کم١٦/ایسے نوجوان شہیدہو گئے جو کمپیوٹر، نظام تجارت، سیاسیات اور دوسرے علوم میں اعلی ڈگریاں رکھتے تھے........ انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں کا کہنا ہے کہ تعلیم یافتہ عسکریت پسندوں میں اکثریت ان کی ہے جنہیں غیر مسلح احتجاج کے لیے پولیس کے عتاب کا سامنارہاہے۔ان کاکہنا ہے کہ پچھلے تین سال کے دوران پانچ ہزارکم سن نوجوانوں کو گرفتارکرکے باقاعدہ مجرموں کے ہمراہ جیلوں میں رکھاگیا۔شوپیاں میں مارے گئے سجادیوسف کے والدمحمد یوسف میرمقامی بینک میں منیجر ہیں۔ اکثر کشمیری حلقوں کی طرح وہ بھی سمجھتے ہیں کہ پولیس کی زیادتیوں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مسلح مزاحمت پرابھاراہے، حالات ٹھیک نہیں ہیں اور ظلم کی کوئی نہ کوئی کہانی روزانہ ہمارے سامنے بنتی ہے۔ ایسے میں جب نوجوانوں کو بھی ستایاجائے توان کے پاس بندوق ایک آخری سہارارہ جاتا ہے اوراب برہان وانی شہادت کے بعدتونوجوانوں کی ایک کثیرتعدادتیزی کے ساتھ بھارتی قابض فوج کے خلاف مسلح جدوجہدپرنہ صرف یقین بلکہ مجاہدین کے ساتھ شامل ہو کر میدان عمل میں اترآئی ہے''۔
قارئین!کشمیرمیں انٹرنیٹ اورموبائل فونز پرپابندی کے باوجودمجھے ہرروز کشمیر سے سینکڑوں ای میلز موصول ہوتی ہیں اورمیری کوشش ہوتی ہے کہ سارے کام چھوڑ کران کی دلجوئی کی جائے۔ آج میری شدید خواہش ہے کہ میں اپنے قارئین تک اپنے ان مجبورومقہور لیکن انتہائی بہادراورباغیرت قوم کے چند پیغامات پہنچاؤں جس سے آپ کواندازہ ہوسکے کہ کشمیر کی بدلتی ہوئی صورت حال میں ہمارے یہ بہن بھائی ہم سے کیا مطالبہ کرتے ہیں اوراس وقت ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

پہلا مراسلہ کشمیر کی ایک بہادربیٹی کا ملاحظہ فرمائیں!
آپ نے بالکل صحیح اوردرست تحریرکیا ہے کہ’’اگر افغانستان،روس اورامریکا جیسی سپر طاقتوں کو شکست دے سکتا ہے تو بھارتی ظالم ہندوتوکوئی چیز نہیں۔ یہ کب تک ہماری غلیل کامقابلہ کریں گے ۔کاش!میری غلیل میں کوئی پاکستانی پتھرہوتا !‘‘آپ کی بیٹی........شوپیاں

ایک کشمیری بیٹی کے روح میں اترجانے والے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں!
’’آپ کواس بات کایقیناًاحساس ہوگا کہ پچھلی کئی دہائیوں سے زائدصیادکے پنجروں نے اس قدر مانوس کردیا کہ پہاڑوں میں بسیرا کرنے والے شاہین اپنی پرواز سے ناآشناہوگئے تھے لیکن جب جذبۂ حریت کو ٹھیس پہنچتی ہے تواقبالؒ کے ان شاہینوں کو دوبارہ چٹانوں کی چوٹیوں میں اپنے آشیانے ضروریاد آتے ہیں ۔آپ کے کالم پڑھ کریہ شاہین دوبارہ پھڑپھڑانا شروع کردیتے ہیں اوران کو پھر سے اپنی کھوئی ہوئی منزل سامنے نظرآنا شروع ہو جاتی ہے۔آپ کے کالم میں مستور پیغام کی ہرکوئی تشریح اپنے انداز میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آج کل انٹرنیٹ میں پابندیوں کے باوجودسچ کاوجودزیادہ دیرتک چھپا نہیں رہتااوربعض اوقات پاکستان کے کچھ بھائیوں کے خیالات پڑھ کرکوفت بھی ہوتی ہے۔کیا اب تک ایک لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ اورکشمیر کاپاکستان سے رشتہ کیا،لاالہ الاللہ '' کے نعرے اس بات کاثبوت نہیں کہ کشمیری اب بھی آپ سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ہماری محبت کاتو یہ عالم ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو تب پورے کشمیر میں ہڑتال کی گئی اورجب ضیاء الحق کو شہید کیا گیا توکشمیر میں کئی دن چولہانہیں جلایا گیا۔اس جذبے یا عمل کوآپ کیا نام دیں گے؟‘‘

ایک اورپیغام ملاحظہ فرمائیں!
’’ہمیں اپنے شہداء کے قبرستانوں پربڑافخر ہے اورہمارے دلوں کے ہر کتبے پر محمد بن قاسم کانام تحریرہے۔ان شہداء میں اکثریت ان جانبازوں کی ہے جو اپنی ماؤں اوربہنوں کی عصمت کی حفاظت کیلئے قربان ہوگئے اور کشمیری مائیں آج تک اپنے بچوں کوان کے نام کی لوریاں سناتی ہیں ۔ہر اسلامی تہوارپران شہداء کی قبریں تمام کشمیری ماؤں کے آنسوؤں کے پھولوں سے منور ہوتی ہیں۔یہ وہ شاہیں تھے جو کوہستانی مردوں کونیند سے بیدار کرنے آئے تھے اورہم روزِ قیامت بھی ان کے احسانات کی گواہی دیں گے۔میں شائد کچھ جذباتی ہوگئی ہوں کیونکہ میں بھی ایک ماں ہوں اورمجھے ان ماؤں کی کوکھ پرناز ہے جہاں ان مجاہدوں نے جنم لیا۔آپ کے کئی کالم دلوں کو اس قدر چھوجاتے ہیں کہ ہفتوں ان کا درد اورکسک دل میں رہتی ہے۔میں بہت زیادہ لکھ گئی ہوں،ویسے بھی بہنیں اپنے بھائیوں کو ہی دل کے زخم دکھاتی ہیں۔اللہ آپ کی حفاظت فرمائے اورآپ اسی طرح کالم لکھتے رہیں اور ہمارے دلوں میں آزادی کی جوت جگاتے رہیں‘‘۔ فقط آپ کی بہن....... سرینگر

اشکبار کردینے والا ایک اورمراسلہ بھی ملاحظہ فرمائیں!
’’مجھے بتائیں میں کہاں جاؤں؟سرینگر سے ٹھوکریں کھاتی کھاتی بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی اس لئے آ گئی ہوں کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کانعرہ لگانے والے کشمیر میں کسی انسانی حقوق کے ادارے کو جانے کی اجازت نہیں دیتے،کوئی غیر ملکی صحافی یا کیمرہ اس جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کو ان درندوں نے جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔میرا کوئی ٹھکانہ ہے نہ جائے پناہ ،میں کیا کروں؟کدھر جاؤں؟میں اپنے کھو جانے والے شوہراوراس کے بھائی کی تلاش کروں یااپناآپ بچاؤں؟میں اپنی فریاداخباروں کوسنا چکی،مسلمان ہونے کے ناطے مجھے بہت سے اخبارکے مالکان کی کڑوی اور کسیلی باتیں بھی سننے کو ملیں، کسی کا دل نہیں پسیجا،کسی نے میراحال نہیں پوچھا۔آپ کے ایک واقف کارنے اپنے ٹیلیفون سے نمبرملا کر میرے ہاتھ میں یہ کہہ کر تھمادیا کہ ان کو بھی تو اطلاع ہونی چاہئے جن کوہرکشمیری بہن بیٹی اپنابھائی اورباپ سمجھ کرہر لمحہ ان کی سلامتی اورعافیت کی دعاؤں میں مگن رہتی ہیں۔اتنی رات گئے آپ سے بات کرنے پر بہت شرمندہ ہوں لیکن میں کیا کروں؟میں کدھر جاؤں؟بہنیں اور بیٹیاں آخر اپنے دکھ اورغم اپنوں سے ہی کر سکتی ہیں؟میں اب کس کو......!

تیسرا مراسلہ ملاحظہ فرمائیں!
’’پچھلے کئی دنوں سے وادی ٔ کشمیرمیں حالات پھرسے خراب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ہر شہر کربلا کا منظر پیش کررہا ہے ۔تمام شاہراہوں پلوں کو خار داروں تاروں کا لباس پہنا دیا گیا ہے،فولادی دیواریں پہلے کیا کم تھیں کہ اب کپوارہ، اسلام آباداورپلوامہ کے باسی ایک اجتماعی جیل میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ زندگی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے۔بڈگام ،بانڈی پورہ، چاہ ڈورہ اوروادی کے تمام قصبوں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔سیکورٹی فورسز نے منصوبہ بندی کے تحت معاشی پابندیوں کے پروگرام پرعمل درآمد شروع کررکھا ہے۔کوئی انہیں یہ بتائے کہ ایسے مکروہ منصوبے توغزہ میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔آزادی کی تحریک نسل درنسل منتقل ہوتی جارہی ہے۔قوموں کی زندگی میں پچاس یا سوسال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ۱۸۵۷ء کے حالات نے ہی تو پاکستان کی بنیاد رکھی تھی اوربالآخر اس خطے میں پاکستان معرضِ وجود میں آگیا تھا!

ایک اورپیغام آپ کی نذر!
’’جب سے آپ کے مضامین کشمیر کے اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوئے ہیں شائد ہی کوئی ایسا پڑھا لکھا کشمیری ہو جو پوری توجہ اورمحبت کے ساتھ آپ کا کالم نہ پڑھتا ہوبلکہ یوں لگتاہے کہ بروقت اللہ کی طرف سے غیبی امداد کا کوئی بندوبست ہوا ہے.....کشمیر کے حالات حاضرہ پرجس خوبصورتی کے ساتھ آپ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں گویا الفاظ بولتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے ہمارے دلوں کے خون میں قلم ڈبو کر سوئے ہوئے افراد کو جگایا ہے۔ میرے وہ دوست جو مایوس ہو کر اپنی فکر کے انداز کو بدل چکے تھے انہوں نے بھی واپسی کا سفر شروع کردیا ہے‘‘۔

ایک شکائت یا دہائی بھی موصول ہوئی ہے اس کو بھی بغور پڑھ لیں!
’’کہاں ہیں آپ....؟اس وقت آئیں گے جب ہماری لاشوں کا ڈھیر دریائے جہلم میں تیرتا ہوا آپ تک پہنچے گا۔یاللہ! بھیج کسی محمد بن قاسم کویا ہمارے دلوں سے ہر قسم کی آس ختم کردے۔آپ کی تحریروں نے ایک نئی امید پیدا کی بلکہ جینے کی امنگ جاگی لیکن کیا ہی اچھا ہوتااگر آپ پہلے پاکستان کے سوئے ہوئے حکم رانوں کو جگاتے اورپھر ہماری خبر لیتے۔ ہم تو نادان ہیں کہ آپ نے تھوڑی سی ہمدردی دکھائی اورہم سروں پرکفن باندھ کر میدان میں اترآئے ہیں۔اب ہماراانتظار کیجئے اگر یہاں نہیں توروزِ قیامت توضرورملاقات ہوگی لیکن کس حال میں؟ ........آپ کی بے شمار بیٹیوں اوربہنوں کی طرف سے اللہ ہی حافظ‘‘!

قارئین!فیصلہ اب آپ کے ہاتھوں میں ہے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.