نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ،پاکستان نشانہ ۔ ۔ ۔ ۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل(ر) حمید گل واضح نظریاتی سوچ رکھنے والے مدبر،مفکر اور عسکری دانشور ہیں،قومی اور ملکی مسائل پر اُن کے افکار و خیالات بصیرت افروز اور چشم کشا ہوتے ہیں،اسلام اور پاکستان سے والہانہ محبت کی وجہ سے جنرل حمید گل کو قدامت پسند اور بنیاد پرست کے طور پر جانا جاتا ہے،اسی وجہ سے اُن کا کردار پاکستان اور اسلام دشمنوں کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے،افغان جنگ کے حوالے سے ویکی لیکس پر 92ہزار سے زائد خفیہ دستاویزات جو کہ2004ءسے2009ء پر محیط ہیں کے افشاء ہونے کی وجہ سے آج کل 74سالہ جنرل حمید گل ایک بار پھر الزامات کی زد میں ہیں، اُن پر عائد کیے گئے الزامات میں حکمت یار اور جلال الدین حقانی نیٹ ورکس کی دوبارہ بحالی کی کوششیں،جنوری 2009ء میں القاعدہ کے رہنما الکنی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا انتقام لینے کی منصوبہ بندی کیلئے وانا کا دورہ، اور طالبان کو پاکستان کی بجائے افغانستان پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دینا شامل ہے، ویکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والی’’خفیہ افغان وار ڈائری‘‘میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹنٹ جنرل (ر) حمید گل پر طالبان کی مدد کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جیولین اسانجے کی قائم کردہ جرمن ویب سائٹ ویکی لیکس معلومات تک رسائی کی آزادی کے لئے کام کرتی ہے اور اِس حوالے سے مختلف ویڈیوز و معلومات ویب سائٹ پر نشر کرتی ہے،ویکی لیکس کی جانب سے ”افغان وار ڈائری“ کے نام سے 92 ہزار سے زائد رپورٹس پر مشتمل خفیہ دستاویزات اتوار 25 جولائی کو آن لائن جاری کی گئیں،ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں یہ رپورٹس مختلف فوجیوں اور انٹیلی جنس افسران کی جانب سے تحریر کی گئیں ہیں جو افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے خطرناک فوجی آپریشنز سے متعلق ہیں، ویب سائٹ کے مطابق اِن رپورٹس میں خفیہ معلومات کے علاوہ سیاسی شخصیات کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں،امریکہ اور برطانیہ کے دو بڑے اخبارات کے مطابق انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات جاری کرنے والے ویب سائٹس ویکی لیکس افغانستان میں امریکی فوج کی92ہزار سے زائد خفیہ معلومات منظرِ عام پر لائی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکی فوج کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خفیہ معلومات منظرعام پر آئی ہیں، امریکہ نے اِن خفیہ معلومات کو منظر عام پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے اِسے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا،جبکہ پاکستان نے اِن بے بنیاد رپورٹوں پر سخت ناگواری کا اظہار کرتے اپنے باقاعدہ ردِعمل میں انھیں غلط، گمراہ کن اور زمینی حقائق کے منافی قرار دیا ہے، وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام اور اُس کی سکیورٹی فورسز بشمول آئی ایس آئی نے انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، جن کا بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ نے اعتراف بھی کیا ہے اور اِس طرح کی رپورٹوں سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے مثبت کردار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

اِن خفیہ دستاویزات میں پاکستان انٹیلی جنس اداروں کو بطور خاص ہدف بنایا گیا ہے اور اُن کی کردار کشی کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان امریکہ کا حلیف ہوتے ہوئے طالبان کی مدد کر رہا ہے، منظر عام پر آئی دستاویزات کے مطابق افغانستان سے باہر پاکستان کی خفیہ ایجنسی طالبان کے سب سے بہترین ساتھی ہے اورافغانستان میں افغان سکیورٹی فورسز،امریکنوں اور اُن کے حمائتیوں کے خلاف جنگ پاکستان ہی سے لڑی جا رہی ہے،جرمن ویب سائٹ دستاویزات کے حوالے سے لکھتی ہے کہ طالبان کے لیے پاکستان محفوظ پناہ گاہ ہے،نئے رنگروٹ پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں،جن میں عرب،چیچن،ازبک اور یورپی مسلمان شامل ہیں اور جنگجوؤں کے اجلاس میں آئی ایس آئی کے ارکان شریک اور خاص احکامات بھی جاری کرتے ہیں۔

ویکی لیکس کے مطابق’’اِن احکامات میں افغان صدر حامد کرزئی کو ہلاک کرنے کی کوشش بھی شامل ہے“خیال رہے کہ افشا شدہ دستاویزات میں امریکہ کی ان خفیہ فوجی کاروائیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں جو باغیوں اور دہشت گردوں کے اہم اہداف کے خلاف کی گئیں،اِن میں سے کچھ کاروائیاں افغان شہریوں کی ہلاکتوں کا باعث بھی بنی ہیں،لندن کے روزنامے ”دی گارڈین“کے مطابق فوجی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ دستاویزات کے ظاہر ہونے سے نیٹو افواج کے ہاتھوں افغان شہریوں کی ہلاکت کے ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جو اِس سے قبل کبھی منظر عام پر نہیں آئے،اخبار کے مطابق اِن خفیہ دستاویزات سے پاکستان اور ایران کی جانب سے افغانستان میں جاری عسکریت پسندی کو فروغ دینے سے متعلق نیٹو کے شکوک کا بھی پتہ چلا ہے،اِن دستاویزات میں نیٹو کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں کی آف دی ریکارڈ تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔

اِس کے علاوہ افغان مزاحمت کاروں کے خلاف اسپیشل فورسز کے ماورائے قانون خفیہ آپریشنز کی تفصیلات بھی دستاویزات میں موجود ہیں،یہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ افغان سیکورٹی حکام طالبان حملوں کے آگے بے بس ہیں،حالیہ افغان جنگ کے زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ جنگ میں طالبان کا پلڑا بھاری ہے اور نیٹو کی اتحادی افواج کو ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اِس صورتحال کی حقیقت اُن92 ہزار سے زائد خفیہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتی ہے،جس میں اِس حقیقت کا اعتراف بھی کیا گیا کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ 3کھرب ڈالر کے مصارف کر چکا ہے،مگر اِس کے باوجود طالبان 2001ءسے کہیں زیادہ مضبوط،منظم اور فعال ہیں،خیال کیا جارہا ہے کہ یہ خفیہ دستاویزات ایک فوجی تجزیہ کار”براڈ لے ماننگ “کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں جسے 26مئی کو فوجی قوانین کی خلاف ورزی الزام میں بغداد سے گرفتار کیا گیا تھا،اِس اہلکار نے ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے متعلق متنازعہ ویڈیو بھی فراہم کی تھی۔

قارئین محترم امریکیوں کی کسی بھی خفیہ رپورٹ کے افشا ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اِن رپورٹوں میں جو کچھ درج ہے وہ بالکل درست ہے،امریکی انٹیلی جنس غلط رپورٹیں مرتب کرنے کے حوالے سے خاصی بدنام ہے،ماضی میں ایسی ہی جھوٹی اور جعلی خفیہ رپورٹیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عراق کے پاس موجود کیمیائی ہتھیار عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں،کو بنیاد بنا کر امریکہ نے عراق پر چڑھائی کی تھی،مگر جب عراق کا چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود وہاں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں ملے تو امریکیوں اور اُس کے اتحادیوں کو سخت شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا،اَمر واقعہ یہ ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں خفیہ رپورٹوں کے حوالے سے مفروضوں پر کام کرتی ہیں اور سنی سنائی باتوں کو بھی خفیہ رپورٹوں کا حصہ بنا دیتی ہیں،سوال یہ ہے کہ اگر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اِس بات کا علم تھا کہ پاک فوج اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے دوہرا معیار اپنایا ہوا ہے تو پھر امریکہ اور پاک فوج کے درمیان کثیر الجہت تعاون کیونکر ممکن ہوا۔؟

اگر واقعی ایسا ہوتا تو امریکیوں نے آٹھ سالوں تک جنرل پرویز مشرف کو کیسے برداشت کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کی سرپرستی کیوں کی گئی؟سچائی یہ ہے کہ پاکستانی فورسز کی پے درپے کاروائیاں نے طالبان اور القاعدہ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور جس کے جواب میں طالبان اور القاعدہ نے پاکستانی افواج اور سول سوسائٹی پر متعدد حملے کئے،جن میں بہت سے پاکستانی فوجی اور لاتعداد شہری شہید ہوچکے ہیں،لیکن پھر بھی اگر پاک فوج اور طالبان کے درمیان خفیہ روابط ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان بار بار پاک فوج پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں اور سول سوسائٹی کو نشانہ کیوں بناتے ہیں۔؟ گو کہ امریکہ اِس افشا کو معمول کی کاروائی قرار دے رہا ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ بیشتر باتوں کا زور پاکستان اور پاک فوج کے ادارے آئی ایس آئی کی طرف کرنا اور افغان جنگ میں پاکستان سے لڑے جانے کے الزامات ظاہر کرنا یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یہ سارا ڈرامہ پاکستان اور پاک آرمی کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش ہے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ نو سال تک افغانستان میں ایک بے مقصد جنگ نے امریکیوں کے اعصاب شل کر دئیے ہیں، وہ افغانستان میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور اب انہیں کوئی ایسا سر چاہیے جس پر وہ اپنی ناکامیوں کی ٹوپی رکھ سکیں اور اپنی شکست و شرمندگی کا ملبہ ڈال کر یہ کہہ سکیں کہ اِس وجہ سے انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے،حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس آئی پاک فوج کا ایک ایسا ذیلی ادارہ ہے جو وطن عزیز کے خلاف ہونے والی سازشوں کو قبل از وقت بے نقاب کر کے ملک کا بالواسطہ طور پر تحفظ کرتا ہے،آئی ایس آئی نے پاکستان کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے،استحکام پاکستان اِس ادارے کی سب سے اہم ذمہ داری ہے،یہ امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے علم میں ہے کہ آئی ایس آئی نے دہشت گردی اور طالبان کے خاتمہ کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں نہ صرف آئی ایس آئی اور پاک فوج بلکہ پورے پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے بے شمار قربانیاں دی ہیں لیکن اسکے باوجود بھی امریکی عہدیداروں،حکومت اور میڈیا کی طرف سے بار بار آئی ایس آئی پر الزامات کی بوچھاڑ آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی سازش اور مستقبل قریب میں امریکی جارحیت افغان سرحدوں سے نکل کر قرب و جوار کا رخ کرنے کی کوشش کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی پر سنگ زنی کرنے والوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ درجنوں حکمرانوں کو قتل کرنے،بیسیوں حکومتوں کا تختہ الٹنے اور دنیا بھر میں جگہ جگہ بغاوت و فسادات کی آگ لگانے والی سی آئی اے کے بارے اُن کا کیا خیال ہے، چنانچہ اِس مشکل صورتحال میں پاکستان کیلئے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پاکستان مدافعانہ حکمت عملی ترک کرکے جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے امریکہ پر واضح کردے کہ اگر اُس نے پاکستان اور پاکستانی اداروں پر الزام تراشی کا سلسلہ بند نہیں کیا اور اپنی موجودہ روش نہ بدلی تو پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرے گا،ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کو بتانا ہوگا کہ افغانستان میں شدید نوعیت کے جنگی جرائم کی بدولت افغانوں کی اکثریت امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف ہوچکی ہے،جبکہ دوسری طرف اخلاقی اعتبار سے برتری کے حامل طالبان کیلئے افغان عوام میں نرم گوشہ موجود ہے،جس کی وجہ سے مقامی لوگ طالبان کو پناہ بھی دیتے ہیں اور اُن کی مدد بھی کرتے ہیں۔

حقیقت ِحال یہ ہے کہ اب موسم بدل رہا ہے،آج نو سال گزرنے کے بعد بھی 37ممالک سے آئی ہوئی دنیا کے جدید ترین مہلک ہتھیاروں سے لیس اتحادی فوج بھاری پگڑیوں، گھنی داڑھیوں اور لمبے عباؤں والے مٹھی بھر طالبان سے خوفزدہ ہے اور امریکی سپہ سالاری میں کابل و قندھار کے گلی کوچوں میں ذلیل ورسوا ہو رہی ہے،کل تک اگر ہمارے ارباب اقتدار کے نزدیک امریکہ سے والہانہ دوستی اور اُس کے تمام مطالبات کے سامنے سرنگوں ہونا تقاضائے حکمت اور دانشمندی تھا،تو آج دنیا کی سفاک ترین سپر پاور سے اپنے آپ کو بچانا اور پاکستان کے مفادات کی نگہبانی کرنا انتہائی ناگزیر اور اہم ذمہ داری قرار پاتا ہے،کیونکہ شہنشاہ عالم پناہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی تباہی و بربادی کے خواہشمند ہیں،امریکہ پاکستان کی تقدیر سے کھیل رہا ہے،وہ افغانستان میں متوقع شکست سے خوفزدہ ہے اور پاکستان کو قربانی کا بکرا بناکر اپنی شکست کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے،اِس تناظر میں جنرل حمید گل کا یہ کہنا کہ ” نائن الیون بہانہ تھا،افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔“امریکہ کی پاکستان دشمن حکمت عملی اور ناپاک مذموم مقاصد کو واضح کرتے ہوئے حکمرانوں کو دعوت فکر و عمل دے رہا ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358071 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More