پاکستان کو تاریخ کے بدترین
سیلاب کا سامنا .... گھومنٹو صدر کو برطانیہ کا دورہ منسوخ کر دینا چاہئے
اُمت مسلمہ بیدار ہوجائے11ستمبر کو ایک امریکی دہشت گرد عیسائی پادری نے
قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے کا اعلان کیا ہے
آج پاکستان کو تاریخ کے جس بدترین سیلاب کا سامنا ہے اقوام متحدہ کے مطابق
اِس سے10لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں اور اِن حالیہ مون سون بارشوں کے باعث
اَب تک ہلاک ہونے والے انسانوں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا سوائے یہ کہنے
کے کہ اِن بارشوں اور سیلابوں سے اَب تک بے شمار انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں
اور پورا پاکستان اپنے پیاروں کی اِس ناگہانی ہلاکت پر اِن کے جدائی کے غم
سے نڈھال ہے تو کیا اِس منظر اور پس منظر میں آپ نے یہ سوچا کہ یہ زیب دیتا
ہے کہ......؟؟؟ ایسے میں ہمارے صدر مملکت جنابِ محترم عزت مآب آصف علی
زرداری کو برطانیہ کے دورے پر جانے کی کیا ضرورت ہے......؟؟؟جبکہ صدر ِمملکت
آصف علی زرداری کے اِس دورہ برطانیہ و فرانس سے متعلق وفاقی وزیر اطلاعات
ونشریات قمر زماں کائرہ کا کہنا ہے کہ صدر زرداری اپنے دورہ فرانس میں
فرانسیسی صدر اور بعد ازاں برطانیہ کے دورہ کے دوران وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون
سے بھی ملاقات کریں گے۔
یہاں میراخیال یہ ہے کہ کیا صدرمملکت آصف علی زرداری برطانیہ کے اُس
وزیراعظم ڈیوڈ کیمروں( یا کینگروں )سے ملاقات کرنا اپنی خوش بختی کی علامت
سمجھتے ہیں کہ جس نے صرف ایک کپ بھارتی چائے پی کر پاکستان پر کھلم کھلا
الزام لگاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی حمایت اور تعاون
حاصل ہے اِس منافق اور شاطر ڈیوڈ کیمروں کے ملک برطانیہ صدر مملکت آصف علی
زداری کو اپنے ملک پاکستان کے سیلابی ریلوں کی نظر ہوتے عوام پر ٹوٹتی
قیامت ِ صغری ٰ کے حوالے چھوڑ کر ہرگز نہیں جانا چاہئے ....اور وہ عوام کو
اِس مشکل گھڑی میں بے یارومددگار اور بے سروسامانی کے عالم میں چھوڑ کر
کیوں برطانیہ جارہے ہیں.....؟؟؟؟اور وہ بھی سرکاری خرچ پر.........؟؟؟؟اِن
حالات میں جب قوم مرے جارہی ہے تو ایسے میں شائد صدر اپنی اتنی سی صفائی
پیش کرنے کے لئے برطانیہ جارہے ہیں کہ ” مسٹر ڈیوڈ کیمروں پاکستان کو کسی
دہشت گرد کی نہ تو کوئی حمایت حاصل ہے اور نہ تعاون .....“تو ایسے میں کیا
ہی اچھا ہوتا کہ وہ سرکاری خزانے سے برطانیہ اتنا خرچہ بھاڑا کر کے جانے کے
بجائے یہی بات صدر مملکت برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمروں کو اپنی گرجدار آواز
میں ٹیلی فون پر بھی اُسے تنبیہ کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ”مسٹر ڈیوڈ
کیمرون اَب اگر تم نے دوبارہ پاکستان سے متعلق ایسا ویسا .....؟؟؟ کیسا....؟؟اور
کچھ کہا تو پھر اچھا نہیں ہوگا ....؟؟؟“اور صدر اتنا کہہ کر فوراً فون بند
کردیں۔اتنی سی بات کہنے کے لئے صدر آصف علی زرداری کو بھلا برطانیہ جانے کی
کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ فوراً ہی برطانیہ روانہ ہورہے ہیں اور اپنا دورہ
برطانیہ منسوخ کرنے کو کسی بھی لحاظ سے تیار ہی نہیں ہیں۔
اور اُوپر سے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ صدر مملکت کے ترجمان نے صدر زرداری
کے دورہ برطانیہ سے متعلق بھاری اخراجات کے حوالے سے شائع شدہ خبروں پر
تبصرہ کرتے ہوئے اِسے ملک اور قوم کے لئے قابلِ افسوسناک عمل کہتے ہوئے
اِسے صدر کے فرانس اور برطانیہ کے اہم دوروں کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی
کوشش قرار دیا ہے اور صدر کے پریس سیکریٹری نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے
کہا ہے کہ ہمارے صدر مملکت کو عوامی دُکھ اور تکالیف کا جتنا احساس ہے شائد
اتنا احساس پاکستان کی تاریخ میں اَب تک گزرنے والے کسی بھی صدر کو
پاکستانی عوام کی تکالیف کا کبھی احساس رہا ہو.....؟؟؟؟صدر کے ترجمان نے
کہا کہ عوامی تکالیف اور دُکھ کا یہ صدر کا احساس ہی تو ہے کہ صدر کو اِس
کی خود بڑی فکر ہے کہ صدر مملکت نے بار بار اِس بات کی تاکید کی ہے کہ اِن
کے اِس غیر ملکی دورے کے دوران اخراجات کم سے کم رکھے جائیں اِسی لئے وہ
اپنے اِس سرکاری دورے برطانیہ میں سرکاری وفد میں شامل ارکان کی تعداد
محدود رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
جبکہ صدارتی ترجمان کی جانب سے آنے والی اِس وضاحت کے بعد کہ صدر کا یہ
دورہ برطانیہ اور فرانس سرکاری ہے اِس پر پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی
سیکرٹیری اطلاعات متحرمہ فوزیہ وہاب صاحبہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ
کسی کو صدر کے دورہ برطانیہ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ صدر کا
برطانیہ کا دورہ سرکاری نہیں ہے بلکہ صدر مملکت آصف علی زرداری پاکستان
پیپلز پارٹی برطانیہ کی خصوصی دعوت پر لندن جارہے ہیں جہاں اُن کے تمام
قیام و طعام کا ذمہ پیپلزپارٹی برطانیہ کا ہے اور فوزیہ وہاب کا کہنا ہے کہ
قومی خزانے سے اِس حوالے سے کوئی خرچہ نہیں آئے گا۔ یہاں میں یہ سمجھتا ہوں
کہ اَب عوام اِسے اِن لوگوں میں رابطے کا فقدان سمجھیں یا کچھ اور .....کہ
ایک صدر کے دورہ برطانیہ کو سرکاری قرار دے کر ملک میں سیاسی بھونچال پیدا
کر رہا ہے تو دوسرا اِسی دورے کو صدر کا نجی دورہ قرار دے کر اِسے کوئی اور
رنگ دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اَب عوام اِس مخمصے میں مبتلا ہے کہ
صدارتی ترجمان اور فوزیہ وہاب میں سے کون درست ہے اور کون نہیں.....
جبکہ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی برطانیہ کے
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے پاکستان سے متعلق دہشت گردوں کی حمایت
اور تعاون کے حوالے سے لگائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزام کو افسوسناک
قرار دیتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری سے کہا ہے کہ وہ اِس معاملے پر
پوری قوم کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے دورہ برطانیہ پر
نظرثانی کریں اور اِسی طرح اپنی مسلسل جذبہ حب الوطنی کے تحت پاکستان مسلم
لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور
تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان نے صدر مملکت کے دورہ برطانیہ پر
شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں بدترین سیلاب قوم کے
لئے امتحان کی گھڑی ہے صدر برطانیہ کا اپنا یہ دورہ منسوخ کر کے اِس کی
ساری رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں۔ اِن ساری باتوں کے بعد اَب دیکھنا یہ ہے
اِس کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری کیا فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا وہ اپنا یہ
برطانیہ کا دورہ کرتے ہیں یا اِسے منسوخ کر کے عوام میں پائے جانے والے اِس
تاثر کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ صدر برطانیہ کا دورہ سیر سپاٹے
کرنے جارہے ہیں ناں کہ ملکی مفاد کے لئے اِنہیں اپنا یہ دورہ مقدم ہے۔
اور اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حالیہ مون سون کی موسلادھار طوفانی
بارشوں نے ملک کے دو صوبوں بالخصوص خیبر پختونخواہ اور بالعموم پنجاب میں
سیلابی صورت اختیار کر کے یہاں بری طرح سے تباہی مچا دی ہے اور اِسی طرح
بلوچستان سمیت ملک بھر میں اِس سال مون سون میں ہونے والی دس فیصد زائد
بارشوں نے سیلاب کی شکل اختیار کر کے اِس صوبہ بلوچستان میں بھی کئی
دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور آج بھی اِس صوبے میں کئی ہزار
افراد بے یارو مددگار اور بے سروسامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں اور اَب تک اِن بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہ
کاریوں کا اندازہ اہلِ وطن اور ساری دنیا اِس بات سے بھی باآسانی لگاسکتی
ہے کہ صرف خیبر پختونخواہ سے آنے والی خبروں کے مطابق یہاں بارشوں اور
سیلاب سے جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد 800سے1000 ہے اور شائد ممکن ہو
کہ اِس سے بھی زیادہ ہوا بھی اِس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا
جاسکتا کہ یہ اعدادوشمار بالکل ٹھیک ہوں اور جیسا کہ اَب بھی یہ کہا اور
اِن خدشات کا بھی برملا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر بارشوں کا سلسلہ یوں ہی
جاری رہا جیسا کہ یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں پورے ملک میں
مزید بارشیں ہونے کے امکانات ہیں تو عین ممکن ہے کہ اِن بارشوں اور سیلاب
کی آنے والی شدت سے ہلاکتوں کی تعداد اور نقصانات اِس سے بھی زیادہ بڑھنے
کے امکانات ہیں۔
اور جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مون سون کی اِن
بارشوں اور سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد250سے280تک بتائی جا رہی ہیں اِن میں
بھی اضافہ ہوسکتا ہے یوں ان بارشوں سے ہونے والے اتنی بڑی تعداد میں قیمتی
انسانی جانوں کا ضیاع ہونا یقیناً پاکستان جیسے کسی بھی غریب ملک کے عوام
کے لئے کسی المیے سے کم نہیں ہے جہاں پہلے ہی سینکڑوں معصوم انسان آئے روز
کسی نہ کسی سیاسی اور زمینی حقائق کی پاداش میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے
ہیں تو وہیں اِس ملک میں بارشوں اور سیلاب سے کئی سو اور ہزاروں انسانوں کی
ہلاکت ارباب اقتدار اور اختیار کے لئے بھی باعث تشویش اور حیرانگی ہونا
چاہئے تھی مگر افسوس کہ اُنہوں نے دانستہ طور پر اپنے ملک میں بارشوں اور
سیلاب سے اتنی بڑی تعداد میں معصوم انسانی جانوں کی ہلاکتوں پر ایک لفظ بھی
افسوس کا اپنے منہ سے کہنا گوارا نہ کیا اور اَب تو اُلٹا سیر سپاٹے کے لئے
برٍطانیہ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں جبکہ اِن بارشوں اور سیلاب سے اربوں
اور کھربوں کے ہونے والے مالی نقصانات اُن انسانوں کی ہلاکتوں کے علاوہ ہیں
جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے جبکہ اِن بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والے
مالی نقصانات کو حکومت آج نہیں تو کل اِدھر اُدھر اپنا ہاتھ پاؤں مار کر
اور رو دھو کر اپنے دوست اور دشمن ممالک سب سے امداد اور بھیک مانگ کر تو
پوراکر لے گی اور یہاں میرا خیال یہ ہے کہ شائد اِسی مالی معاونت کے خاطر
ہمارے ملک کے صدر آصف علی زرداری آج پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب
کی تباہ کاریوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اپنی عوام کو لاوارث اور بے
یارومددگار اور کسمپرسی کے عالم میں چھوڑ کر برطانیہ کے کئی دن کے دورے پر
نکلنے کو کھڑے ہیں۔ شائد وہ یہ سمجھ کر برطانیہ کے دورے پر جارہے ہیں کہ
اِن بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے انسانوں کی ہلاکتوں کا جو واقعہ ملک میں
رونما ہوا ہے اِس کا ازالہ تو نہیں کیا جاسکتا مگر اُن مالی نقصانات کا جو
اِن بارشوں اور سیلابوں سے ملک میں ہوا ہے اِن کا ازالہ اگر فوری طور پر نہ
کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ ملک کے حالات بہتر نہ ہوسکیں اور اِس کے ساتھ ہی
یہ بھی ممکن ہو اور صدر مملکت یہ بھی سمجھتے ہوں کہ آج پاکستان کو اپنی
تاریخ کے جس بدترین سیلاب کا سامنا ہے اِس کی تباہ کاریوں کو درست کرنے میں
کئی دن، کئی ہفتے، کئی ماہ اور کئی سال بھی لگ سکتے ہیں سو اِس بنا پر
ہمارے گھومٹو صدر اپنا ایک لمحہ ضیاع کئے بغیر اپنے بظاہر مختصر وفد کے
ساتھ برطانیہ اور فرانس کے سنہرے دورے پر امداد بٹورنے کی غرض سے نکل رہے
ہیں۔
بہرحال! اِس دورے کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے....؟اِس سے متعلق محض مفروضوں
اور قیاس آرائیوں سے کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ صدر کا برطانیہ کا
دورہ اِن کے لئے ضروری ہے ....؟یا ملک اور قوم کے بہتر مفادات کے لئے
سودمند ہے.....؟؟؟
اور اِس کے ساتھ ہی کیا یہ بھی حکمران جماعت کے وفاقی وزیر قانون بابر
اعوان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ پنجاب کے حکمرانوں!پر کھلم کھلا یہ الزام
لگائیں کہ پنجاب کے حکمران سیلاب زدہ علاقوں میں فوٹو سیشن کروا رہے ہیں(جب
کہ بابر اعوان صاحب! قوم کو وہ منظر بھی یاد ہے کہ جب آپ ہی کی پارٹی کے
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی گزشتہ بدقسمت طیارے کے حادثے پر ڈیزاسٹر واک کر
رہے تھے اور ہیلی کاپٹر میں آلو چھولوں سے الفت اندوز ہو رہے تھے وہ کیا
تھا.....؟؟؟؟) اِس حکومتی وزیر کی جانب سے ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک کا
ہر فرد اپنے سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے اپنے تن من اور دھن سے تیار
ہے اِن حالات اور جذبات میں ڈوبتی عوام کے حوصلے پست کرنے کے لئے کیا وزیر
قانون بابر اعوان کو ایسا بیان دینا چاہئے تھا .....؟؟کہ جس سے ملک میں
سیاسی انتشار پیدا ہو اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے تمہاری حکومت تو کچھ
کر نہیں رہی ہے اور تم ایسے بیانات داغ کر یہ چاہتے ہو کہ کوئی دوسرا بھی
اِن کی مدد کو نہ پہنچے .....!!!!جو نہایت ہی افسوس ناک امر ہے! اور سب
سیاسی کشمکش کا شکار ہوکر رہ جائیں اور سیلاب جیسی مصیبت میں مبتلا افراد
بے یارومددگار ہوکر رہ جائیں یہ بات بھی عوام کو سوچنا چاہئے کہ کیا وفاقی
وزیرقانون بابر اعوان کو ایسا بیان ایسے وقت میں دینا زیب دیتا
ہے.....؟؟؟؟یہ بات سب کے سوچنے کی ہے....؟؟
جبکہ بات زیب دینے کی ہی چل پڑی ہے تو میں آخر میں اپنے قارئین کی توجہ
اپنے ملکی عوامی اور سیاسی مسائل کی طرف سے ہٹا کرعیسائیت کے تعصب کی اِس
انتہائی خطرناک اور قابلِ توجہ خبر کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں جو
پچھلے دونوں ملک کے ایک کثیرالاشاعت اخبار میں شائع ہوئی جو”امریکی ریاست
فلوریڈا کے ایک انتہاپسند اور مسلمانوں سے شدید تعصب رکھنے والے پادری ٹیری
جونز سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اِس پادری نے کھلم کھلا اور ڈنکے کی
چوٹ پہ 11ستمبر کو سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی برسی کے موقع پر قرآن کریم کی
بے حرمتی کرنے کا اعلان کیا ہے اور اِس کے ساتھ ہی خبر یہ بھی ہے کہ اِس
پادری نے امریکی عوام سے بھی پرزور اپیل کی ہے کہ وہ بھی اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لئے 11ستمبر کو”جلاؤ گھیراؤ
دن“منانے کا اقدام کریں اور اِس کے ساتھ ہی اِس ناپاک عیسائی دہشت گرد اور
خدا کی زمین پر فساد برپا کرنے کی ناپاک سازش تیار کرنے اور دنیا کو صلیبی
جنگ میں جھونکے والے اِس بدمعاش اور شیطان فطرت پادری نے اُمت مسلمہ پر یہ
بھی الزام لگایا ہے کہ اسلام غیر مسلموں کے قتل کا حکم دیتا ہے اور ٹریڈ
ورلڈ کا سانحہ مسلمانوں نے اپنے مذہبی احکامات کی تعمیل میں کیا ہے۔ جب کہ
میں اور آپ سمیت پوری مسلم امہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ اِن کے
اپنے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ استاذہ کے مطابق یہ سب کچھ عیسائیت اور یہودیت
کی اپنی کارستانی ہے جس کو جواز بناکر اِن بدمعاشوں نے مسلمانوں کو تباہ
کرنے کی ناپاک سازش تیار کی ہے۔ اَب امت مسلمہ یہ بھی سوچے کہ ایسے وقت میں
کہ جب مسلمانوں کی جانب سے مسلسل عفو و درگزر کے مظاہرے کے باوجود پادری کے
روپ میں عیسائی دہشت گرد اور معتصب پادری نے 11ستمبر کو قرآن کریم کی بے
حرمتی کا پروگرام بنا کر دنیا کو آگ اور خون میں جھونکے کی تیار کر لی ہے
تو اَب اِس پادری کی اِس حرکت کو روکنے کے لئے امت مسلمہ کا احتجاج کرنا حق
بجانب ہوگا کہ عالم اسلام اِس عیسائی دہشت گرد کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور
امریکا کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردے کیونکہ یہ امت مسلمہ کو زیب دیتا
ہے کہ وہ اِس پادری کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی ہونے سے قبل اِس کی
حفاظت کے لئے امریکا سمیت پوری دنیا میں امریکا اور اِس پادری کے خلاف اپنا
احتجاج جاری رکھیں اور قرآن کریم کو بے حرمتی سے بچائیں۔ |