ملک کی صورتحال اور زرداری کے دورے

ملک کا بڑا حصہ سیلاب کی تباہی کی لپٹ میں ہے ہزاروں افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں اور نہ جانے کیا تباہی ہونے والی ہے، پوری قوم پریشانی اور فکر سے ادہ موئی ہوئی جارہی ہے، ابھی ٢٨ جولائی کو ائیر بلو طیارہ کے حادثہ کی وجہ سے جو غم کا پہاڑ پوری قوم پر ٹوٹا تھا، جو صدمہ ان پیارے پیارے ، با صلاحیت اور معصوم لوگوں کی ہلاکت کی وجہ سے ہوا تھا کم نہیں ہو پایا تھا کہ پورے ملک پر سیلاب کی تباہی کی صورت میں ایسی بجلیاں گر رہیں ہیں کہ لوگ اس سے بچاؤ اور اپنے ہم وطنوں کو بچانے کے لئیے جو بھی کچھ ممکن ہورہا ہے، ہوسکتا ہے کر رہے ہیں، اپنے معمولات میں بھی دل نہیں لگ رہا کہیں لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں تو کہیں ان کی مدد کے لیے بھاگ دوڑ کرہے ہیں لوگوں کا بس نہیں چل رہا کہ اپنا تن من دھن ان متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے لگا دیں۔

لیکن حکومت اور ملک کے سربراہ آصف زرداری نے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی ، یہ رویہ بھی بے نظیر ہے۔

سیلاب کی تباہی تو انشاءاللہ جلد ختم ہوجائے گی، ان دونوں حادثات میں جاں بحق ہونے والے شہادت کے رتبے پر فائز ہو جائیں گے انشاءاللہ اور جو لوگ مالی لحاظ سے متاثر ہورہے ہیں، انشاءاللہ تعالیٰ وہ بھی آہستہ آہستہ سنبھل ہی جائیں گے لیکن شاید آصف زرداری کی یہ حکومت نہ بچ پائے گی انسانوں کے ساتھ ہمدردی نہ کرنے، قوم کے دکھ درد میں ان کے ساتھ نہ ہونے کے صلے میں اس حکومت کو یہ سیلاب بہا لے جائے گا، یہ خدشہ بھی ہے اور قوم کی خواہش بھی اور ممکن ہے ان لوگوں کی بد دعائیں بھی ہو جو حکمرانوں سے کچھ توقعات لگا بیٹھے تھے۔

دنیا بھر کے ممالک میں جب صورتحال معمول پر نہ ہو یا قوم پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے تو ہر ملک کی حکومت اور حکومت سے وابستہ شخصیات اپنی تمام مصروفیات اور دوروں کو فوری معطل کردیتے ہیں اور پوری توجہ اس آفت کی ممکنہ اور ہوجانے والی تباہیوں کو ریلف دینے پر لگا دیتے ہیں، کیونکہ انہیں قوم اور ملک سے محبت ہوتی ہے اور یہ عمل ان کی محبت کا عملی ثبوت ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ کو ملک اور قوم سے محبت تو کجا کوئی دلچپسپی بھی نظر نہیں آرہی، ماضی میں لوگوں نے جو دیکھا یا انہیں جو معلوم ہے وہ سب جھوٹ اور ایک پروپگنڈہ ثابت ہوسکتا تھا لیکن جو ثبوت موجودہ حالت میں بحیثیت صدر مملکت جناب آصف زرداری صاحب دے رہے ہیں اس سے وہ تمام کے تمام الزامات صحیح لگنے لگے ہیں۔

آصف زرداری ملک کے پہلے صدر مملکت ہیں جنہوں نے کم وقت میں سب سے زیادہ بیرون ممالک کے دورے کیئے اور کررہے ہیں، ان کے دوروں سے ملک اور قوم کو اب تک کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں پہنچا موصوف ملک کی اس صوتحال میں آج بھی ملک سے باہر ہیں آج ٢ اگست بروز پیر سے انہوں نے فرانس کا تین روز دورہ شروع کیا ہے۔ اس دورے کے بعد وہ لندن جائیں گے جہاں دراصل اپنے بیٹے بلاول زرداری کی گریجوشن میں کامیابی کی خوشی میں ہونے والی تقریب میں شرکت کریں گے، کہا جارہا ہے کہ وہ وزیراّعظم برطانیہ سے اہم ملاقات بھی کریں گے، لندن کے دورے کا اصل مقصد یہ ہی بیان کیا جارہا ہے۔

برطانیہ کے وزیر اّعظم نے چند روز قبل بھارت میں پاکستان کے خلاف جو بیان دیا تھا اس کے نتیجے ملک میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اور ملک کی سیلابی حالت کی وجہ سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور دیگر حلقے ان کے اس دورے کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس پر تنقید بھی۔

پپلز پارٹی کے رہنماء شرجیل کا کہنا ہے کہ یہ تنقید بلاجواز ہے، انہوں نے وضاحت کی کے برمنگم برطانیہ میں ہونے والی تقریب جس میں پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری خصوصی طور پر شریک ہونگے اس کے تمام اخراجات پارٹی برداشت کرے گی۔

ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ جس پارٹی کے کل اثاثوں میں ٢٠٠٩ تک صرف نقد چار لاکھ پینتیس ہزار روپے تھی جس کے ٢٠٠٩ کے دوران کوئی اور اثاثے بھی نہیں تھے ٢٠١٠ میں اس قدر کیسے امیر ہوگئی کہ برطانیہ میں اپنے سربراہ کے اعزاز میں اتنی عالیشان تقریب کررہی ہے جس پر اطلاعات کے مطابق ٢٥ کروڑ روپئے پاکستانی اخراجات آرہے ہیں۔

قوم نے تو صرف اتنا مطالبہ کیا تھا کہ جناب زرداری صاحب اپنا یہ دورہ ختم کرکے دورے پر آنے والے اخراجات سیلاب زدگان کی مدد کے لئے خرچ کردئے جائیں۔ مگر پارٹی والوں نے یہ وضاحت کردی، اب اگر پیپلز پارٹی کسی بھی طرح اتنی امیر پارٹی ہوگئی ہے تو کیا یہ پارٹی اپنے ہم وطنوں کے دکھ میں یہ رقم خرچ کرنے کے بجائے اپنے نوجوان سربراہ کی خوشنودی پر خرچ کرنا ضروری سمجھتی ہے؟ پارٹی کے شریک چیئرمین کے دوروں پر بھی اربوں روپے کے اخراجات ہورہے ہیں اور یہ اخراجات قوم کے ٹیکسز سے حاصل ہونے والی رقم سے کیے جارہے ہیں جو کسی طور پر بھی ملک کی موجودہ صورتحال میں درست نہیں ہے، قوم کے پیسے پر صرف اور صرف ملک اور عوام کا حق ہے۔ آرمی چیف کو ان دوروں کا نوٹس سختی سے لینا چاہئے۔ یہ ہی ملک اور قوم کے مفاد میں بہتر ہوگا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166018 views I'm Journalist. .. View More