پہلے ثابت کرو۔۔۔۔

معاشروں کا وجود عدل و انصاف کے قیام کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، انصاف کا نظام جرم کو پھلنے پھولنے اور طاقتور ہونے سے روکتا ہے، انصاف کی فراہمی ریاستی اداروں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے،آئین اور قانون کی بالا دستی قائم کئے بغیر نظام معیشت ہو یا نظام سیاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔انصاف کے بغیر قومی وجود پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ انصاف مہیا کرنے والے اداروں پہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ وہ قوم کے مستقبل کو محفوط بناتے ہیں، انصاف سے محروم معاشرہ مایوسیوں میں گھر جاتا ہے، جب انصاف مہیا کرنے والے ادارے ، معاشرے کے حقوق سے غافل ہو جائیں تو معاشرہ یتیم اور لاوارث ہو جاتا ہے، عوام اپنی امیدوں کا مرکزریاستی اداروں کو بنا تے ہیں، انصاف کا حصول اگر سستا نہ ہو اور بر وقت نہ ہوتو وہ ظالم کو طاقتور بناتا ہے۔ اور تباہی اس وقت دوگناہو جاتی ہے جب انصاف کرنے والے ادارے بھی ظالموں سے مل جائیں تو پھر انسانی معاشرہ جنگل کا معاشرہ بن جاتا ہے۔جیسے جنگل میں سب سے طاقتور درندہ کمزوروں کو چیر پھاڑ دیتا ہے، اس کی دہشت سے سب خوفزدہ رہتے ہیں اس کی مرضی کے بغیر کوئی اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔اسی طرح لاقونونیت اور بے ا نصافی میں گھرا معاشرہ ظالم اور درندہ صفت طبقے کے ظلم میں جکڑ جاتا ہے۔

جب انصاف مہیا کرنے والے ادارے اور قانون پہ عمل در آمد کروانے والے ادارے اپنا اثر رسوخ کھو دیں، جب وہ جرم کے ساتھی بن جائیں تو جرم کبھی رک نہیں سکتا۔جب ظلم کا نظام مکمل طور پہ معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو پھر تمام ادارے ظالم اور مفاد پرست طبقے کے کنٹرول میں چلے جاتے ہیں، رفتہ رفتہ ایک ایسی مافیا ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں کر لیتی ہے،جو ہر جرم، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کو قانونی شکل اور تحفظ دینے میں لگ جاتی ہے۔کسی بھی ریاست میں معیشت ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، اورخاص طور پہ فی زمانہ معاشی ترقی اور مضبوطی ہی قوموں کو عزت اور وقار دلاتی ہے۔ کمزور معاشی نظام رکھنے والی قوموں کی عزت بھکاری سے زیادہ نہیں ہوتی، دراصل اقوام کو اس بھکاری پن میں مبتلا کرنے والے یہی ادارے ہوتے ہیں جن کا کنٹرول مفاد پرست گروہوں کے پاس ہوتا ہے،وہ عوامی ٹیکسز اور ملکی خزانے کو خوب دل کھول کر لوٹتے ہیں اس کے لئے ریاست کو داؤ پہ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے، وہ ملکی اداروں پہ اس طرح سے قابض اور اثر رسوخ حاصل کر لیتے ہیں کہ کوئی بھی ان کی لوٹ کھسوٹ پہ سوموٹو کی جرات نہیں کرتا، کوئی بھی ان کے خلاف ریفرنس نہیں لا سکتا، کوئی بھی انہیں نوٹس تک نہیں جاری کر سکتا۔ کھلے عام بینکوں کو دیوالیہ کیا جاتا ہے، ببانگ دہل اربوں ڈالرز بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے منتقل کر کے ذاتی جائدادیں بنائی جاتی ہیں، کھلے عام عوام اور ترقیات کے نام پہ
بڑے بڑے منصوبوں کی آڑ میں کرپشن کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ملکی معیشت کو بیرونی اور اندرونی قرضوں میں پھنسا کر اپنی ذاتی جائدادیں اور ایمپائرز کھڑی کی جاتی ہیں۔یہ سب کچھ سر عام ہو رہا ہوتا ہے، اور پھر انتہائی بے باکی سے یہ کہا جاتا ہے کہ’’ثابت کرو‘‘ کہ ہم چور اور کرپٹ ہیں۔یہ جملہ اکثر و بیشتر سننے کو ملتا ہے۔ ’’محل ‘‘ بنائے گئے،’’سوئس بینک میں قومی دولت کو منتقل کیا گیا، ’’آف شورز کمپنیاں‘‘ بنائی گئیں۔ غریب قوم کے خزانے کو جو کہ’’ قرض لے کر بنایا گیا‘‘ ہے اس سے چوروں اور لٹیروں نے بیرونی ملک جائدادیں اور کاروبار مضبوط کئے ۔سب کچھ میڈیا میں موجود ہے،عالمی اداروں نے سب کچھ عیاں کر دیا۔سارے ثبوت بھی موجود ہیں،جائیدادیں بھی موجود ہیں، ملکی معیشت کی تباہی بھی سب کے سامنے ہے، میگا پراجیکٹس کی زبوں حالی بھی سب کے سامنے ہے، ملکی انفرا سٹرکچر کی تباہی بھی سب کو نظر آتی ہے، اگر نظر نہیں آتا تو’’کرپشن کا ثبوت‘‘ سارے ادارے تماشائی یا آلہ کار نظر آتے ہیں۔نام نہاد الیکشن ہوتے ہیں،ریاستی اداروں کے پاس صاف و شفاف الیکشن کرانے کے لئے مربوط اور صاف وشفاف نظام موجود نہیں۔ہر دھاندلی اور غیر آئنی اقدام کو فائلوں میں دبا دیا جاتا ہے۔ایک جیسے جرم کے مرتکب کو مختلف سزاؤں سے نوازا جاتا ہے۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ظلم اور بے انصافی کا شکار افراد اور گروہ عالمی عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔آئین کی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے، ملک کو سر عام گالیاں دی جاتی ہیں، ریاست کے خلاف سازشیں سر عام کی جاتی ہیں۔ریاست کو کمزور کرنے کے لئے دہشت گردی کی نرسریاں بنائی جاتی ہیں لیکن’’ثبوت‘‘کون پیش کرے اور کون اس ’’ثبوت‘‘ کے مطابق فیصلہ کرے اور انصاف کرے؟اور کس طرح کا ’’ثبوت‘‘ درکار ہے۔

اب رفتہ رفتہ توصورتحال یہ ہو گئی ہے کہ معاشرے میں ہر وہ گروہ یا فرد جس کے پاس سرمایہ اور سیاسی اثر رسوخ ہے،وہ کھلے عام جو بھی چاہے غیر قانونی اقدام کر نے کے بعد یہ کہتا ہے کہ’’ثابت کرو‘‘در اصل ان کرپٹ اور قانون شکن عناصر کو یہ یقین ہوتاہے کہ ان کے خلاف کسی بھی ریاستی فورم پہ کسی بھی طرح کا ایکشن نہیں لیا جائے گا لوگ بھلے چیختے چلاتے رہیں، مظلوم گلی گلی انصاف کے لئے رلتے رہیں،میڈیا دن رات چیختا چلاتا رہے۔کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔

معاشرے میں مایوسی بڑھ رہی ہے اداروں سے انصاف کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔نصف صدی سے ہونے والی’’ چوریوں اور لوٹ کھسوٹ‘‘ کے ثبوت نہیں مل سکے۔لہذا لاوارثوں کی طرح عوام ہر دفعہ کسی نہ کسی چور اور کرپٹ کو پھر سے اپنے اوپر مسلط کرنے پہ مجبور نظر آتے ہیں۔کیونکہ ادارے جب انصاف نہیں دلائیں گے، قانون و آئین کی بالادستی کو یقینی نہیں بنائیں گے تو لوگ کیا کریں گے، یا تو ان ہی لٹیروں کی طاقت کے نیچے اپنے مسائل کو حل تلاش کریں گے یا مایوسیوں کی انتہا کا شکار ہو کر تشدد اور انارکی کے راستے کو اختیار کرنے پہ مجبور ہو جائیں گے۔

ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ نصف صدی سے ان ہی کرپٹ عناصر کو باری باری کیوں منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں؟اس کے لئے اگر پورے ملک میں ضلعی ، صوبائی اور مرکزی سطح پہ کام کرنے والے ریاستی اداروں کی کارکر دگی کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ ضلعی سطح پہ لوگوں کو صحت و صفائی ، ٹرانسپورٹ، عدل و انصاف، تعلیم، خوراک، رہائش اور جان و مال کا تحفظ کے حوالے سے سہولیات کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے، جب یہ ادارے اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو لوگ اپنے مالی و جانی تحفظ کی آرزو لئے اس ’’سیاسی کرپٹ مافیا ‘‘کے نرغے میں چلے جاتے ہیں،اگر تھانے میں انصاف ملے تو لوگ انصاف دلانے یا اپنے آپ کو چھڑانے کے لئے کسی ایم این اے یا ایم پی ہے کے پاس نہیں جائیں گے، اگر میونسپلٹی اور ٹاؤن پلاننگ کا ادارہ اپنا حقیقی کردار ایمانداری سے ادا کرے تو لوگ کسی سیاسی کرپٹ کو گلی یا سڑک یا گیس و بجلی کی سہولت کے بدلے میں ووٹ نہیں دیں گے، اگر ریاستی ادارے اپنا حقیقی کردار ادا کریں تو لوگ سیاسی حکومتوں کے انتخاب میں بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں، اور حقیقی جمہوریت معاشرے میں پنپ سکتی ہے۔ ریاستی اداروں کی انصاف، قانون کی عمل داری اور بنیادی ضروریات کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کرپٹ سیاسی کلچر پروان چڑھا ہے۔اگر ریاستی ادارے کسی بڑے اور چھوٹے، کسی سرمایہ دار یا غریب، کسی سیاسی یا غیر سیاسی کی تقسیم کے بغیر آئین اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے معاشرے میں ایک مضبوط مبنی بر انصاف نظام قائم کریں تو اس صورتحال سے چھٹکارا ممکن ہے۔لیکن جب تک یہ ادارے کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں اور ان کا گٹھ جوڑ سیاسی کرپٹ مافیا سے ہے یوں ہی آئین اور قانون کی دھجیاں بکھرتی رہیں گی۔ہر چوری، کرپشن اور ظلم کے بعد یہ کہا جائے گا کہ ’’ثابت کرو‘‘ یہ یقینی امر ہے کہ جن اداروں نے ثابت کر کے قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے وہ خود ہی اس ظلم و استحصال کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور ملکی معیشت اور ریاستی اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔اس کے نتائج نہایت بھیانک ہیں، ریاست کا وجود ریاست میں آئین اور قانون کی بالا دستی سے ہی قائم رہتا ہے ۔اگر عوام آئین اور قانون کی بالا دستی قائم کرنے والے اداروں سے مایوس ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں زبردست قسم کی انارکی اور خونی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151505 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More