کراچی ایک بار پھر جل
اٹھا ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں پچاس سے زائد ہلاکتیں
ہوچکی ہیں۔ سینکڑوں زخمی ہیں۔ اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جگہ جگہ تشدد
کے واقعات جنم لے رہے ہیں۔ تیس کے لگ بھگ گاڑیاں، جن میں رکشہ، موٹر سائیکل،
منی بسیں، ٹرک ٹینکر شامل ہیں،جل کر خاکستر ہوچکی ہیں۔ اور یہ گراف لمحہ بہ
لمحہ اوپر ہی جارہا ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں
دکانیں، ٹھیلے، پتھارے نذر آتش کیے جاچکے ہیں۔ بہت سی نواحی بستیوں میں
شدید کشیدگی ہے۔ بنارس ، اورنگی ٹاؤن، قصبہ کالونی، سہراب گوٹھ ، سائٹ اور
ایف بی ایریا، لانڈھی، ملیر، گلشن اقبال، گلستان جوہر، سمیت شہر کے مختلف
حصوں میں توڑ پھوڑ، مار دھاڑ کے واقعات ہورے ہیں۔ سرکاری اور نجی املاک
جلائی جار ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں۔ صدر
بیرون ملک دورے پر ہیں، وزیر داخلہ اس لڑائی کے سرے وانا، طالبان، لشکر
جھنگوی، جنداللہ اور دیگر کالعدم مذہبی جماعتوں سے ملا رہے ہیں۔کراچی میں
یہ واقعات اچانک وقوع پزیر نہیں ہوئے،ایم کیو ایم کے صوبائی رکن اسمبلی رضا
حیدر کے بہیمانہ قتل نے اس سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بدن کر دیا ہے۔ جو کراچی
میں ایک مدت سے لگی ہوئی ہے۔ اور اسے بجھانے یا ختم کرنے کے لئے کوئی
کاروائی اور ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ گزشتہ سال کراچی میں ہدف بناکر
قتل کئے جانے والوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ تھی۔ رواں سال میں یہ تعداد
اب تک دو سو تیس شمار کی جاتی ہے۔ وزیر داخلہ اسے لسانی، گروہی، مذہبی،
فرقہ وارانہ فسادات کی سازش گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں
ہونے والے قتل کے جرم کی بنیاد کھلی سیاسی دشمنیوں پر ہے۔ حالیہ دنوں میں
پولیس نےمختلف جماعتوں کے کم از کم 10 سیاسی کارکنوں کے خلاف، تشدد کے
واقعات میں ملوث ہونے کے شبہ میں کیس درج کئے ہیں۔ اسی طرح، 40 افراد جنہیں
جولائی میں ہدف بناکر قتل کیا گیا ان میں، بھاری اکثریت مختلف سیاسی
جماعتوں کے ساتھ منسلک تھی۔ شہر کے، نسلی اور فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے علاوہ
جرائم پیشہ گروہوں کی جنگ بھی جاری ہے۔ جس میں لیاری اور اب ڈالمیا سرفہرست
ہیں۔ اسی طرح زمین چھیننے اور پلاٹوں پر قبضے کے لئے بھی مسلح گروپ برسر
پیکار ہیں۔ جو ملیر اور سرجانی ٹاؤن کے علاقوں میں توسیع علاقے کے پروگرام
پر عمل پیرا ہیں۔ کہیں اسٹیٹ تنازعہ ہے، کہیں پر قتل ووٹ بینک کے قیام کے
لیئے کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں تشدد کئی پرتوں ہے. اس میں مزید اضافہ پولیس
کی ناکامی اور ناقص کارکردگی ہے۔ صوبائی حکومت بھی اس صورت حال کو قابو
کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کراچی میں تشدد کی اہم وجوہات اہم سیاسی جماعتوں کی
قیادت کی ناکامی بھی ہے۔ جو اقتدار میں شامل ہونے کے باوجود اپنے اختلافات
حل کرنے اور، ہلاکتوں پر روک لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ بہت سی جماعتیں ہیں
جن کے کارکنوں پر تشدد میں ملوث ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن سیاسی
جماعتوں نے ان سنگین الزامات کی جانچ پڑتال اور شہر کی فلاح و بہبود، اور
امن کو ترجیح نہیں دی۔ قانون اور انصاف کی ہر طرف سے دھائی دی جاتی ہے،
لیکن قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ پچھلے دنوں
جب ٹارگٹ کلنگ پر بہت شور مچا تو کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں پر حکومت نے
نیم دلی کے ساتھ ایک انکوائری ٹریبونل تشکیل دیا تھا ۔ لیکن اس ٹریبونل کو
کوئی سہولت، جگہ کی فراہمی، سیکورٹی، اور رقم فراہم نہیں کی گئی۔ یوں اس کی
جانب سے بھی اب تک کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دی۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ،
ٹریبونل نے کاروائی شروع کرنے سے پہلے مناسب سیکورٹی، جگہ اور عملے کے لئے
بات کی ہے۔۔ اس سلسلے میں انکوائری ٹریبونل کے سربراہ جسٹس (ر) علی سائیں
ڈنومتیلو نے محکمہ داخلہ کو ایک خط بھیجا تھا۔ حکومت سندھ نے یہ ٹریبونل
گزشتہ دنوں شہر میں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں
سمیت 80 سے زیادہ لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد قائم کیا تھا۔ ٹربیونل کے دائرہ
کار میں، ھدف بنا کر قتل کے واقعات میں ملوث گروہوں کی نشاندہی کرنا اور
ایسے واقعات کو روکنے کے لئے مؤثر اقدامات تجویز کرنا تھا۔ یہ دوسرا
ٹریبونل ہے جو گزشتہ دو سالوں کے دوران پی پی پی کی قیادت میں صوبائی حکومت
کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل جسٹس علی محمد بلوچ کی سربراہی میں
ایک ٹربیونل دسمبر 2008ء میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد نومبر دسمبر 2008
میں ہونے والے نسلی تشدد کے اسباب کا پتہ لگانا تھا، یہاں یہ ذکر بھی
دلچسپی کا باعث ہوگا کہ کراچی میں پہلے بھی انکوائری ٹربیونل بنائے گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کی ریلی کے دوران 2007-08 میں،سانحہ نشتر پارک 2006 اور 18
اکتوبر دھماکے پر تشکیل دئے جانے والے کمیشن کی رپوٹیں بھی منظر عام پر
نہیں لائی گئی۔ اور نہ ہی ان اسباب اور افراد کی نشاندہی کی گئی جس کے سبب
یہ سانحات پیش آئے۔ کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں سینکڑوں لوگوں کا خون بہا
ہے۔ لیکن ان کی تحقیقات کبھی نہ ہوسکی۔ستمبر 2006 میں ارباب غلام رحیم نے
سانحہ نشتر پارک کے لئے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس رحمت حسین جعفری کی سربراہی
میں انکوائری کمیشن بنایا تھا۔ اپریل 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے
جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں 18اکتوبر کارساز ریلی دھماکوں کی
تحقیقات سونپی تھی۔ سندھ حکومت ایک انکوئری کمیشن اپریل میں سٹی کورٹس میں
الطاف عباسی ایڈووکیٹ اور دوسرے وکلاء کو طاہر پلازہ میں ان کے دفتر میں
جلا دینے کے واقعات کی چھان بین کے لئے بھی قائم کیا تھا۔لیکن اب تک ان میں
سے کسی کی نہ رپورٹ آئی اور نہ ہی کسی کو ذمہ دار قرار دے کر قانون کے
کٹہرے میں لایا گیا۔کراچی میں دو دن میں ہلاک و زخمی ہونے والے غریب،مزدور،
چائے والے، تندور والے، چوکیدار ،محنت کش ہیں، جن کے چہروں، سینوں،اور جسم
پر ایم ایم نائین، کلاشنکوف، جیسے ہتھیاروں سے گولیاں چلائی گئی ہیں۔ رضا
حیدر کا قتل ایک دلخراش اور افسوسناک سانحہ ہے۔ لیکن اس شہر میں بے کس بے
وسیلہ محنت کشوں کا قتل عام اس سے بھی بڑا سانحہ ہے۔ اب بھی معاشرہ میں
توازن کو قائم رکھنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو کراچی کا خدا حافظ ہے۔ |