تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی اے رضا حیدر کو نامعلوم قاتلوں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا، یہ بربریت کی واردات اس وقت کی گئی جب وہ اپنے ایک عزیز کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے ناظم آباد گئے اور وضو کرتے ہوئے محافظ سمیت نامعلوم حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور ہسپتال لیجاتے ہوئے راستے میں خالق حقیقی سے جاملے۔ یہ ایک ایسی خبر تھی جو جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی اور کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں فوری طور پر افراتفری پھیل گئی اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ کراچی میں سارے کاروبار بند ہوگئے اور مسلح شرپسند سڑکوں پر دندناتے رہے۔ مسلح شرپسندوں کی جانب سے جلاﺅ گھیراﺅ کے مختلف واقعات میں اب تک 50 کے قریب شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اورابھی پتہ نہیں مزید کتنے معصوم لوگ اس شرپسندی کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔

کراچی میں پچھلے کچھ عرصہ سے قتل و غارت کا بھیانک کھیل کھیلا جارہا ہے اور اسے بیروت بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کبھی متحدہ کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے اور کبھی اے این پی کے کارکنوں کی، یہ دونوں جماعتیں ایسی ہیں جو دہشت گردی کی جنگ میں پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کی اتحادی ہیں بلکہ دونوں ہی طالبان کے خطروں اور اندیشوں میں مبتلا ہیں، اے این پی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں طالبان اپنا قبضہ جمانے کے لئے جنگ کررہے ہیں اور اے این پی ان کا مقابلہ کررہی ہے جبکہ دوسری طرف متحدہ بہت عرصہ سے کراچی میں طالبان کے قبضہ کی خبریں دے رہی ہے۔ دونوں جماعتیں پشتونوں اور طالبان کو شائد ایک ہی سمجھتی ہیں۔ ایک طرف دونوں جماعتیں طالبان سے حالت جنگ میں ہیں اور دوسری طرف آپس میں برسر پیکار بھی ہیں۔ بلاشبہ رضا حیدر کا سفاکانہ قتل ایک المیہ اور بزدلانہ کاروائی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ان کے قتل کے ساتھ ایک عام شہری کا کیا تعلق ہے؟ ان کے قتل کے بعد حالات جس طرح بے قابو ہوئے اور جس طرح کراچی اور حیدر آباد میں کشت و خون کا بازار گرم کیا گیا، یہ کس کی کارستانی ہے؟ کون نقاب پوش ہیں جو دن دیہاڑے پاکستان کے معصوم شہریوں کو بے دردی اور شقاوت کے ساتھ، بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کردیتے ہیں اور کسی ایجنسی کو ان کا پتہ بھی نہیں چلتا! کیا کراچی ”علاقہ غیر“ بن گیا ہے؟ کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ کیا کراچی میں پولیس، رینجرز اور دوسرے ادارے موجود نہیں؟ کراچی میں سندھ کا صدر مقام اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر، روشنیوں کا شہر ہوتے ہوئے بھی شہر بے اماں کیوں ہے؟ کیا کبھی الطاف حسین اور اسفند یار ولی نے اس نکتے پر بھی غور کیا ہے کہ جن شہریوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے انہی کے دم قدم سے ان کے آستانوں پر رونقیں اور ان کی صندوقچیوں سے ووٹ نکلتے ہیں۔ کیا وہ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف بھی آپس میں اتحاد نہیں کرسکتے؟ متحدہ کے کتنے پیارے ہیں جو الطاف حسین کی محبت میں یہ دنیا چھوڑ گئے، اے این پی کے کتنے لاڈلے ہیں جو ولی خان اور اس کے سپوت کی چاہت میں موت کو گلے لگا گئے، کبھی کسی بڑے نے غور کیا ہے، کبھی گریبان میں دیکھ کر سوچا ہے کہ یہ کس کی لڑائی ہے جو ہم آپس میں لڑ رہے ہیں، ابھی اور کتنی ماﺅں کی گودیں اجڑیں گی؟ ابھی کتنی سہاگنیں بیوہ ہوں گی، ابھی کتنے دلارے ہیں جن کو یتیمی میں دھکیل دیا جائے گا؟ابھی کتنی بہنوں سے ان کے شہزادے بھائی چھینیں جائیں گے؟

ایک وقت تھا کہ کراچی میں بھی بہاریں اپنا رنگ دکھاتی تھیں، کراچی کی فضاء بھی شوخ و چنچل ہوا کرتی تھی، یہاں پر بھی رنگ و نور کی برساتیں، قیامت خیز گرمی میں ٹھنڈ ڈال دیا کرتی تھیں، جب کبھی بھی کراچی جانا ہوتا تھا تو راتوں کو اس عروس البلاد کی روشنیاں الگ ہی مزا دیا کرتی تھیں، کتنے سہانے تھے وہ دن جب ”منی پاکستان“ کو نظر بد نہیں لگی تھی، کتنے خوبصورت پل ہوا کرتے تھے جب یہاں کے شہری امن و امان کے سائے میں ہوا کرتے تھے لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ میرے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی، کسی بدصورت چڑیل کے سائے پڑ گئے، کسی منحوس کی نحوست جیسے اس پر قہر انگیز چھایا بن گئی ہو، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کراچی کے حالات سے دل کڑھتا نہیں، غم کی گہری کھائیوں میں ڈوبتا نہیں اور یہاں چلنے والی اندھی گولیوں سے چھلنی نہیں ہوتا۔ جب بھی کراچی میں کوئی شہری اندھی گولی کا شکار ہوتا ہے، پورے پاکستان کے لوگوں کے دل اس طرح مسلے اور کچلے جاتے ہیں جس طرح گلاب کی پتیاں کسی درندے کے پاﺅں میں آگئی ہوں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی کراچی ہے جس کی روشنیاں پاکستان میں تو کیا پوری دنیا میں مشہور تھیں، جس کے ہوٹل اور قہوہ خانے ساری رات کھلے رہتے تھے، جہاں کبھی رات ہونے کے باوجود دن کا سماں رہتا تھا۔ کس کس بات کو یاد کریں کہ ہر بات اور ہر یاد رلا دینے والی ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب بارہ مئی 2007 کو کراچی میں پچاس سے زائد زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدل دیا گیا تھا اور ایک آج کا دن ہے، تب تو ایک آمر کی حکومت تھی جو اسلام آباد میں مکے لہرا کر جھوٹی عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہا تھا، آج تو جمہوریت ہے، آج تو عوام کے نمائندے حکومت میں ہیں، آج تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگ اسمبلیوں میں ہیں (یہ الگ بات کہ ان میں سے بہت سے جعلی ڈگریوں والے ہیں، لیکن منتخب تو عوام کے ووٹوں سے ہی ہوئے ہیں) تو اب کیوں یہ قتل و غارت گری؟

وہ ایک مزدور تھا جو کچے مکان میں رہتا تھا، گھر کا واحد کفیل، چھوٹے بچوں اور بوڑھے ماں باپ کا واحد سہارا، بہنوں کا اکلوتا بھائی، اس کا تو کسی پارٹی سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا، اسے کس جرم کی سزا موت کی صورت میں ملی؟ اب کون ہے جو اس کے بچوں کی سکول کی فیسیں ادا کرنے کے لئے محنت مشقت کرے گا؟ کون بوڑھے ماں باپ کو دوائی لاکر دے گا؟ کون گھر کو چلانے کے لئے آگے آئے گا کہ اس کے بچے تو ان حالات کے شکار ہوکر چلتے پھرتے بم بن جائیں گے، کون انہیں سمجھائے گا؟ کون تربیت دے گا؟ اور اگر خدانخواستہ وہ کبھی، کسی چھوٹی موٹی چوری (کہ روٹی اور کپڑے کی بھوک سب سے پہلے چوری پر مجبور کرتی ہے) کی وجہ سے ایک آدھ دن جیل میں گزار آئے تو ایسے ہی سمجھئے کہ جرائم کی کسی یونیورسٹی سے ڈپلوما ہولڈر بن کر باہر آئیں گے، اور اس پر طرہ یہ کہ ہر طرف آگ اور خون کا کھیل، تو اس بچے کے انتقام کی آگ سے کون بچ پائے گا؟ کیا کبھی ہمارے ارباب اختیار نے ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کرکے سوچا ہے یہ سب کچھ؟

قیامت والے دن جب سب لوگ اپنے اعمال کے ساتھ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تو اللہ کراچی کے شہداء سے پوچھے گا، ”تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا“؟ تو پتہ ہے وہ کیا جواب دیں گے، ان میں سے کچھ ہوں گے جو یہ جواب دیں گے کہ ”یا اللہ! ہم نے تجھے چھوڑ کر اوروں کی چاہتیں اپنے دل میں بسا لی تھیں، ہم نے تیرے آخری نبی ﷺ کے امتی ہونے، ایک اللہ، ایک کتاب پر ایمان لانے کے باوجود رنگ و نسل اور زبان کے خداﺅں کی پرستش کی، یا اللہ! ہمیں اسی جرم میں موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا....! جبکہ کچھ ایسے لوگ جن کا کسی سیاسی یا لسانی جماعت سے تعلق نہیں ہوگا، وہ اللہ کے حضور جواب دیں گے، ”یا اللہ! ہمیں صرف اس جرم میں موت کی سزا سنا دی گئی کہ ہم بے وسیلہ لوگ تھے، ہم چھوٹے لوگ تھے، یا اللہ! ہم دو ہاتھیوں کی لڑائی میں بے گناہ مارے گئے“۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222592 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.