داؤد چورنگی کا پل بازار

پلوں کے نیچے

’’لانڈھی ریلوے کراسنگ کا پل بازار‘‘
خصوصیات کے لحاظ سے بنکاک کے ریلوے ٹریک پر بنے ’’چھتری بازار‘‘ سے کسی طور بھی کم نہیں ہے
رفیع عباسی
عکاسی: محمد اسرائیل انصاری

کراچی میں مجموعی طور سے پچاس کے قریب پل اور فلائی اوورز ہیں جن میں سے بعض ندی ، نالوں پر بنائے گئے ہیں، کچھ ریلوے ٹریکس پر ہیں، جب کہ زیادہ تر سڑکوں کے جنکشن اور چوراہوں پر بنے ہوئےہیں اور ان سب کی تعمیر کا واحد مقصد ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانا ہے۔بہت سے پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے، رابطہ سڑکیں ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کا ہجوم تو پلوں کے نیچے رہتا ہی ہے لیکن یہاں مختلف النوع کاروبار بھی ہوتے ہیں۔ شہید ملت فلائی اوور، بنارس کالونی فلائی اوور، لیاقت آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ کے پلوں کے نیچے پارکنگ لاٹ بنا دی گئی ہیں جب کہ صرف سہراب گوٹھ کا فلائی اوور ایسا ہے جہاں تجاوزات نہیں ہیں بلکہ اس جگہ کو پیڑ پودے لگا کر خوب صورت بنایا گیا ہے، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس کے نیچے دوانڈر پاسزبنے ہوئے ہیں۔ بنارس چوک پر فلائی اوور کے نیچے فروٹ مارکیٹ بن گئی ہے لیکن اس کے علاوہ یہاں ایک بڑا کباڑ بازار بھی لگتا ہے جہاں سائیکل سے لے کر برقی آلات، فریج اور ایئرکنڈیشن تک دستیاب ہیں۔ ندی ،نالوں پر بنے پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے سے سیوریج کاپانی بہتا رہتا ہے ۔ نیٹی جیٹی کے مقام پرجہاں اوپر نیچے دو فلائی اوور اور دو قدیم پل بنے ہوئے ہیں،ان کے نیچے وزیر مینشن اور بندرگاہ کی طرف سے آنے والے ریلوے ٹریک کے ساتھ، سر سبز و شاداب پارک، فوڈکورٹ اور پلے لینڈ بنایا گیا ہے، جب کہ ناظم آباد سمیت کئی پلوں کے نیچے گداگر اور بے گھر لوگوں نے خیمے لگا کر گھر بنا لیے ہیں اور ’’کاروباراور رہائش‘‘ ساتھ ساتھ کے مقولے پر عمل پیرا ہیں ،لیکن کراچی کا ایک پل ایسا بھی ہے جس کے نیچے نہ تو پارکنگ لاٹ بنی ہوئی ہے اور نہ ہی جھونپڑیاں ہیں بلکہ وہاں پل کی چھت کے نیچے پختہ دکانوں پر مشتمل ایک وسیع و عریض با زار قائم ہے ، درمیان میں ریلوے لائن گزرتی ہے جس کے بعد دوبارہ دکانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس بازار کی ڈیڑھ سے دو ہزار دکانوں میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر سولار انرجی پلانٹ،استعمال شدہ ملبوسات ، خواتین کے زرق برق کڑھے ہوئے ڈریس، مردانہ شلوار قمیص سوٹ، بابا اور بےبی کے کپڑے تک فروخت ہوتے ہیں، اس بازار کے ساتھ کراچی سے اندرون ملک کی طرف جانے والی ریلوے لائن کے چھ ٹریک بچھے ہوئے ہیں جو دن بھرہمہ اقسام کے لوگوں سے بھرے رہتےہیں ، یہاں منشیات کی بڑے پیمانے پر خرید و فرخت ہوتی ہے۔ پل کے نیچے بنے مذکورہ بازار میں کاروبار کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خواہ سے ہے جب کہ چند دکانیں شہر کے مقامی لوگوں کی بھی ہیں۔

یہ پل لانڈھی ٹاؤن میں داؤد چورنگی سے قائدآباد کی جانب جانے والے راستے پر واقع ہے۔ 1986ء تک یہاں کوئی پل نہیں تھا، ملیر اور صدر کی طرف سے آنے والی بسیں ریلوے کراسنگ عبور کرکے 89بس اسٹاپ سے لانڈھی، کورنگی کی جانب جایاکرتی تھیں۔ مین ریلوے لائن سے اندرون ملک کی طرف جانے والا ریلوے ٹریفک گزرتا ہے ، قریب میں ہی لانڈھی ریلوے اسٹیشن ہے۔ 80,90کے عشرے تک یہاں سے دن بھر میں تقریباً پچاس سے زائدمسافر، مال بردارگاڑیاں اور لوکل ٹرینیں گزرا کرتی تھیں اور ہر نصف گھنٹہ بعد یہ گزرگاہ لوہے کی زنجیریں باند ھ کر آنے جانے والی گاڑیوں کے لیے بند کردی جاتی تھی کیوں کہ اس جگہ ریلوے پھاٹک بھی موجود نہیں تھا، اس لیے موٹی موٹی زنجیریں لگائی گئی تھیں۔ اس جگہ پل بنانے کی ضرورت تو کافی عرصے سے محسوس کی جارہی تھی لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ اکتوبر 1986ء میں ملیر کی جانب سے آنے والی دو منی بسوں نے ریس لگاتے ہوئےریلوےکراسنگ پربندھی ہوئی زنجیریں توڑ کر ریلوے لائن عبور کرنے کی کوشش کی لیکن کوٹری کی طرف سے آنے والے تیز رفتارپائلٹ انجن کی زد میں آگئیں ، اس خوف ناک تصادم میں دونوں منی بسوں کے پرخچے اڑ گئے تھےجب کہ مذکورہ انجن ان میں سے ایک منی بس کو گھسیٹتا ہوا ڈیڑھ فرلانگ دور تک لے گیا۔ اس حادثے میں تقریباً 23؍مسافر جاں بحق ہوگئے تھے اور دونوں منی بسوں میں کوئی مسافر بھی زندہ نہ بچ سکا تھا۔ اس اندوہ ناک سانحے کے بعدعوامی ردعمل اور احتجاج کے باعث حکومت کی طرف سے مذکورہ پل کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہواجو 1988 -89 ء میں مکمل ہوا۔ تقریباً چار فرلانگ طویل مذکورہ پل کا آغاز قائدآباد پر ڈی سی آفس اور گلستان سینما جبکہ اس کا اختتام داؤد چورنگی پر ہوتا ہے۔اس پر دو رویہ کشادہ سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔داؤد چورنگی کے ساتھ پھل فروشوں کے ٹھیلے کھڑے ہیں جب کہ’’ پل بازار‘‘ کی طرف جانے کے لیے پل کے نیچے، دائیں اور بائیں جانب سے راستے نکلتے ہیں۔اس کی دائیں جانب صنعتی علاقہ ہے،فیکٹریوں کی دیوار کے ساتھ دکانیں ہیں جبکہ سڑک کے کنارے آئی لینڈ پرایک رفاہی ادارے کا ایمبولینس بوتھ بھی بنا ہوا ہے۔مذکورہ پل مضبوط ستونوں پر تعمیر کیا گیا ہے ،جس کے نیچے خلاء ہے ، اسی لیے پل کے نیچے ، اس کی چھت تک دیواریں بنا کر ہزاروں کی تعداد میں دکانیں تعمیر کی گئی ہیں، جن میں مختلف اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ اس بازارمیں شام کے اوقات میں خریداری کرنے والوں کا ہجوم رہتا ہے جن میں سے قریب کی آبادیوں میں رہنے والوں کے علاوہ قومی شاہراہ پر سفر کرنے والے خریداربھی شامل ہیں، جو قائد آباد کے اسٹاپ پر اتر کر پل بازار میں خریداری کی غرض سے آتے ہیں، لیکن اس بازار کے زیادہ تر دکان دار معاشی پریشانی کا شکار ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ لانڈھی ٹاؤن کے اس علاقے میں تقریباً ڈیڑھ درجن بستیاں ہیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آباد ہیں۔ ان میں فیوچر کالونی، مانسہرہ کالونی، مظفرآباد کالونی، مچھر کالونی، عوامی کالونی ،شرافی گوٹھ اور شیر پاؤکالونی قابل ذکر ہیں لیکن یہاں پچاس مربع کلومیٹر کے رقبے میں بابر مارکیٹ تک کوئی بازار نہیں ہے۔ اس لیے مقامی آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس بازار کا قیام عمل میں لایا گیاہے۔ اطراف میں صنعتی علاقہ اور گنجان بستیوں کی وجہ سے ایک بڑابازاربنانے کے لیے وسیع و عریض قطہ اراضی کی ضرورت تھی جویہاں میسر نہیں تھا۔ پل کی تعمیر سے پہلے سڑک کے دونوں اطراف میں کاروباری طبقہ آباد تھا، جس نے قائدآباد اور داؤد چورنگی کے درمیان ایک بڑے بازار کا مطالبہ طویل عرصے سے انتظامیہ کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے مذکورہ ریلوے کراسنگ پر پل کی تعمیر میں بھی رکاوٹیں پیش آرہی تھیں۔ مذکورہ ’’پل بازار‘‘ میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں، جن میں درزیوں کے کارخانے اورگودام بھی بنے ہوئے ہیں۔

بساط خانے کا سامان فروخت کرنے والے شفیع اللہ نے بتایا کہ اس کا تعلق بٹ گرام سے ہے، تلاش معاش کے سلسلے میں 1990 ء میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی آگیا تھا،ا یک سال بعد ماچس فیکٹری میں چوکیدار کی حیثیت سے ملازمت مل گئی تھی۔مانسہرہ کالونی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ ابتدامیں وہ 1200روپے ماہانہ تنخواہ دیتے تھے جو 8000روپے تک پہنچ گئی۔ خاندانی تنازعات کی وجہ سے مذکورہ فیکٹری بند ہوگئی، مالکان نے ہمیں اس کے بعد بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیا لیکن اس کے بعد نہ تو تنخواہ دی گئی اور نہ ہی کسی قسم کا دیگر الاؤنس۔ فاقوں سے تنگ آکر میں نے ایک جاننے والے سے قرض لے کر یہ ٹھیلا لگا لیا اوریہاں طویل عرصے سے یہ کاروبار کررہا ہوں۔ چند سال قبل تک اس سامان کی فروخت سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ میں اپنےبیوی، بچوں کو سکون کے ساتھ دو وقت کی روٹی کھلا دیتا تھا لیکن اب پوری مارکیٹ میں کاروبار کی صورت حال انتہائی ابتر ہے۔ میری سات بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا ہے، دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ ان اشیاء کی فروخت سے مجھے یومیہ سو سے دو سو روپے بچتے ہیں جو کہ آٹھ، دس افراد کے کنبے کی گزر اوقات کے لیے ناکافی ہیں ، لیکن کیا کریں یہاں تو پکی دکانوں میں بیٹھنے والوں کی حالت بھی تباہ ہے۔

خشک میوہ جات فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے بتایا کہ پہلے ہم ڈرائی فروٹ خیبر پختون خوا سے منگواتےتھے ، اس وقت یہاں پر ان کی فروخت سے کافی آمدنی ہوجاتی تھی، اسے باہر سے منگوانے پر بار برداری کی مد میں کافی مصارف ہوتے تھے، جو آمدنی سے پورے ہوجاتے تھے۔ لیکن لوگوں کی قوت خرید کم ہونے اور امن و امان کی صورت حال متاثر ہونے سے مذکورہ بازارپر بھی اثر پڑاہےجس کی وجہ سے خشک میوہ جات کی فروخت کم ہوگئی ہے، اب ہم بھی یہ میوے دور دراز علاقوں سے منگوانے کی بجائے ، ان کی خریداری کراچی کی تھوک مارکیٹ سے کرنے لگے ہیں۔

یہاں بچوں کے اسکول بیگز ، یونیفارم اور کتابوں، کاپیوں کی بھی دکانیں ہیں۔ جڑی بوٹیاں، حکمت کا سامان، زعفران، مشک و عنبر اور شہد بھی فروخت ہوتا ہے جو جوڑیا بازار سے خرید کر لایا جاتا ہے۔ان دکانوں میں ماربل سے بنے ہوئے چکرا،بیلن، ہاون دستےبھی فروخت ہوتے ہیں، جب کہ بچوں کے کھلونے، چھوٹے بڑے برقی آلات، بلوچی و پشتون روایتی ٹوپیوں کی بھی دکانیں ہیں۔ اس بازار میں سوات اور گلگت کی دست کاری بھی ملے گی، یہاں نائیلون کی ڈوریوں سے بنائے گئے نفیس آئینے بھی مل جاتے ہیں۔ آمنے سامنے دو دکانیں مسالہ جات فروخت کرنے والوں کی ہیں۔ہر دکان میں پسائی کی دو مشینیں لگی ہوئی ہیں، جن میں سے ایک پر ہلدی، مرچیں، گرم مسالے، دھنیا پیسے جاتے ہیں جب کہ دوسری میں جڑی بوٹیوں اور ادویات کی پسائی ہوتی ہے۔ یہاں پر کمبل ، گاؤ تکیے، پلاسٹک شیٹس، واسکٹ اور اونی سوئٹر کی دکانیں بھی ہیں۔ ایک حصے میں ٹیلرنگ شاپس اور گارمنٹس کے کارخانے ہیں، جن میں سلائی کی بڑی جوکی مشینیں، کاج، بٹن اور اوور لاک مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ نصف درجن دکانیں برقعہ اور عبایا کی بھی ہیں، جن میں شٹل کاک سے لے کر جدید فیشن کے برقعے بھی مل جاتے ہیں۔ ایک دکاندار دریا خان کے مطابق وہ زیادہ تر برقعے صدر اور ایم اے جناح روڈ سے خریدتے ہیں جو 700سے 750روپے میں مل جاتے ہیں۔ یہاں 900سے 1000روپے تک میں فروخت ہوتے ہیں اس طرح فی برقعہ 150 سے 250روپے تک کی بچت ہوجاتی ہے، شٹل کاک برقعے ہم دکان پر ہی کاریگر سے بنواتے ہیں۔ اس نےبتایا کہ آج کل اس علاقے میں سارے کاروبار ٹھنڈے پڑے ہیں۔ برقعوں اور عبایا کی فروخت بھی کم ہوگئی ہے جس سے بہ مشکل دکان کا کرایہ، بجلی کا بل اور ملازمین کی تنخواہیں پوری ہوپاتی ہیں جب کہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنے کے لیے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چند سال قبل تک یہاں پر کاروبار کی صورت حال بہت اچھی تھی لیکن اس وقت جو حالات ہیں وہ سمجھ سے باہر ہیں۔ اس نے بتایا اس بازار میں ہر کام قانونی طریقے سے ہوتا ہے، کنڈا سسٹم، بھتہ مافیا کا کوئی وجود نہیں ہےیہاں بجلی کا نظام قانونی طریقے سے میٹرپر چلتا ہے۔

ایک دکاندار شیر گلاب نے بتایا کہ اس بازارمیں زیادہ تر دکانیں کرائے کی ہیں، ہماری ایک کمیٹی بھی ہے جو صفائی، ستھرائی، بجلی اور پانی کے مسائل نمٹاتی ہے ۔ اسی کے توسط سے ہم دکان کے کرائے کی ادائیگی کرتے ہیں، لیکن گزشتہ پندرہ سال میں ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان دکانوں کے اصل مالکان کون لوگ ہیں؟ لوہے اور ٹین کے بکس اور صندوق فروخت کرنے والی ایک دکان کےمالک محمد ظفر نے بتایا کہ پختون اور قبائلی بستیوں میں کپڑوں کےصندوق سے زیادہ آٹا ، چاول اور چینی محفوظ کرنے کے لیے لوہے کے بکسوں کی زیادہ مانگ ہے۔ہم لانڈھی اور کورنگی کے کارخانوں سے مذکورہ سامان لاکر فروخت کرتے ہیں۔ بڑے صندوق شادی بیاہ کے موقع پر جہیز میں دینے کے کام آتے ہیں۔ ان کی فروخت سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ باآسانی گزر بسر کرلیتے ہیں۔ بازار کمیٹی کے سابق جنرل سکریٹری شانی ملک نے، جو جوتے کی دکان کے مالک ہیں،بتایا کہ یہاں کےاکثر دکاندار انتہائی مخدوش صورت حال سے گزر رہے ہیں، کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے، بعض دنوں میں صبح سے شام تک خالی بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کے لیے دکان کا کرایہ اور بجلی کا بل پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

پل کے نیچے ریلوے لائنوں کے ساتھ لکڑی کے کیبن بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کرائے پر دیئے گئے ہیں، ان میں پلاسٹک کے برتن، کاسمیٹک کی اشیاء ،تولیہ، گھڑیاںاور دوسری چیزیں فروخت ہوتی ہیں ۔ موچی کی دکان بھی ہے ، جہاں سید غلام نام کا ایک بوڑھا شخص بیٹھتا ہے، جس کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے۔ وہ یہاں چار سال سے نئے پرانے جوتے بیچتا اور ان کی مرمت کرتا ہے۔ یہاں پر ریلوے لائن کے چھ ٹریک بنے ہوئے ہیں ، جن میں سے دو پر ٹرینوں کی آمدورفت اور بقیہ پر منشیات کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ کاروبار لانڈھی اسٹیشن تک پھیلا ہوا ہے۔ دکانداروں کے مطابق اس علاقے میں منشیات فروشی کا اڈہ جسے ’’چاچی‘‘ نامی خاتون چلاتی ہے ، ریلوے تھانے کے ساتھ ہے۔ یہ علاقہ قائدآباد اور شرافی گوٹھ تھانے کی حدود میں واقع ہے لیکن ریل کی پٹڑیوں پر کھلے عام منشیات فروخت ہوتی ہے اور نشئی حضرات ریل کی پٹریوں پر بیٹھ کر ہی اپنا نشہ پورا کرتے ہیں۔ ریلوے لائنوں پر منشیات فروشوں کے کارندے گھومتے رہتے ہیں جو ہر نووارد شخص پر نظر رکھتے ہیں، یہ لوگ اتنے طاقت ور ہیں کہ پولیس بھی ریلوے ٹریک پر آنے سے گھبراتی ہے۔ لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے اطراف کا تمام علاقہ منشیات کا گڑھ ہے جس کی فروخت اس پل کے نیچےہوتی ہے۔ صبح اور شام کے اوقات میں سیکڑوں کی تعداد میں ہیروئین، چرس اور دوسری نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والےجمع رہتے ہیں،، ان اوقات میں یہاں سے خواتین سمیت عام لوگوں کا گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی لوگ ریلوے ٹریک سے گزرنے والوں کے ساتھ لوٹ مار کی وارداتیں کرتے ہیں۔ ریل کی پٹڑیوں پر کپڑا بچھا کر چوری کے موبائل بھی فروخت کیے جاتے۔ اس جگہ نگینے اور دوسرے پتھر بھی بکتےہیں۔ ریلوے ٹریک کے دوسری جانب قائد آباد تک پختہ دکانوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے، جہاں بڑے اور بچوں کی مچھردانیاں ، نئے پرانے ملبوسات اور دیگر سامان فروخت ہوتا ہے، یہاں اشیائے خورونوش کے کئی ہوٹل ہیں جہاں چپلی کباب، پلاؤ، زردہ، مچھلی فرائی اور توے کی کلیجی فروخت ہوتی ہے۔ تلی ہوئی کلیجی کے بارے میں ایک دکاندار نے بتایا کہ یہ بھارت سے پیکٹوں میں درآمد کی جاتی ہے جوکئی سالوں کی باسی ہوتی ہے۔ ایک ڈیلر اسے درآمد کرکے کراچی میں توے کی کلیجی بیچنے والوں کو سپلائی کرتا ہے۔ لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن یہ انتہائی مضر صحت ہوتی ہے۔ بازارکے اس حصے میں روایتی حقے ، تمباکو، پشاوری اور کرے کا تمباکو ، ایمپلی فائر، ساؤنڈ سسٹم، برقی پنکھوں، تھرماس، اور واٹر کولر کی دکانیں ہیں۔ انہی دکانوں میں سے ایک دکان پر آلہ سماعت بھی فروخت ہوتا ہے۔ ایک دکان پر ایک شخص لوگوں کے مجمع میں کوبرا سانپ کے جوڑے اور سانڈے کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جو اعصابی طاقت کی ادویات فروخت کرتا ہے۔ ان دکانوں کے ساتھ ہی پرانے کپڑوں کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ وہ شلوار، قمیص کے پرانے جوڑےگلیوں کے پھیرے لگاکر پلاسٹک کے برتنوں کے عوض لیتے ہیں اور انہیں قابل فرخت بنانے کے بعد سو سے تین سو روپے میں فروخت کردیتے ہیں۔ یہاں تام چینی ، اسٹیل اور المونیم کے برتنوں کی دکانوں کے علاوہ دو دکانوں پر سولرانرجی پلانٹ بھی فروخت ہوتے ہیں ۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ بنا ہوا مذکورہ’’ پل بازار‘‘ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے بنکاک میں ریلوے ٹریک پر بنے ہوئے چھتری بازار سے کسی طور سے بھی کم نہیں ہے۔
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 208 Articles with 191601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.