کراچی میں تعصب کا بیج اور اسکی ہولناکیاں

ایوب خان کو صدارتی انتخاب میں دو جگہوں پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا یہ مخالفت کراچی حیدرآباد اور مشرقی پاکستان میں نمایاں تھی جہاں محترمہ فاطمہ جناح کی مقبولیت کا گراف انتہائی بلند تھا جس سے ایوبی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ ایوب خان نے سیاست دانوں کو ایبڈو کی چکی میں پیس کررکھ دیا تھا ان میں زیادہ تر پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی تھی وہ سیاسی میدان سے باہر کر دیے گئے تھے۔ ایسے میں سب کی نظریں محترمہ فاطمہ جناح کی طرف اٹھیں کہ ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس ڈکٹیٹر کے خلاف قومی مفاد میں کھڑی ہوں قوم انکا ساتھ دے گی۔ اس طرح محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف الیکشن میں کھڑی ہو گئیں۔ عوام میں جوش و خروش پیدا ہوا ان کی مقبولیت کا گراف مشرقی پاکستان اور کراچی میں بہت اونچا تھا۔ ایوب خان کیمپ کے سرکردا افراد میں ان کے فرزند ارجمند گوہر ایوب پیش پیش تھے انہوں نے اس گراف کو توڑنے کے تمام تر حربے استعمال کیے۔ ملک میں یہ واحد علاقہ کراچی ہی تھا جہاں ان کے تمام حربے ناکام ہو گئے یہاں سے ایوب خان ہار گئے۔ بحرحال ملکی سطح پر وہ جیت ہی گئے لیکن کراچی کی ہار سے ان کے لخت جگر کے ہوش ٹھکانے آ گئے انہوں نے مخالفت کرنے والوں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ ایوب خان کا بھی کہنا تھا کہ مہاجروں کو ٹھکانا اب سمندر ہے۔

۴ جنوری ۱۹۶۵ء کو گوہر ایوب صاحب نے کراچی میں فتح کا جشن منانے کا اعلان کیا اور سرحد سے ہزاروں لوگوں کو ٹرکوں کے زریعے کراچی میں جمع کر لیا۔ وہ لوگ ٹرکوں‘ جیپوں‘ ٹیکسیوں اور رکشاؤں میں بھر بھر کر شہر کی مختلف سڑکوں سے گزرتا ہوا پولو گراؤنڈ پہنچا جہاں گوہر ایوب نے لوگوں سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد اس جلوس نے شہر کے مختلف علاقوں کا گشت کیا نعرے لگا کر اور ڈھول بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دراصل یہ لوگ ایوب خان کی مخالفت پر سزا دینے کے لئے بلوائے گئے تھے۔ ان بلوائیوں نے کراچی کے علاقوں ناظم آباد ‘ نفیس آباد ‘ مارٹن روڈ ‘ کلیٹن روڈ حیدرآباد کالونی ‘ فاطمہ جناح کالونی ‘ جمشید روڈ ‘ برنس روڈ‘ فرئیر روڈ‘ رنچھوڑ لائن لارنس روڈ‘ بہار کالونی‘ پی آئی بی کالونی‘ گولی مار‘ لالوکھیت‘ کلاکوٹ ‘ شاہ فیصل کالونی ‘ لوٹ مار اور تشدد کر کے واقعات ہوئے۔ لوگ خوف کے باعث راتوں کو پہرے دیتے رہے۔ آپس میں جھڑپیں اور تصادم ہوا راتوں کو مہاجرین کی جھگیوں کو آگ لگا دی گئی لوگ جان بچانے کے لئیے بھاگنے لگے تو بلوائیوں نے انہیں مارا۔

ان پر تشدد بلوائیوں کا ساتھ دینے سائٹ کے ہزاروں غنڈے ان کے ساتھ آن ملے انہوں نے گولی مار‘ لیاقت آباد اور ناظم آباد کی آبادیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ ان علاقوں کے لوگوں نے بار بار اپیل کی تھی کہ ان غنڈوں سے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ لیکن کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے انہوں نے جھگیوں کو آگ لگا دی اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو بھی پتھراؤ کر کے روک دیا گیا۔ سہ پہر کے بعد پولیس نے آ کر فائرنگ کی جس پر غنڈے بھاگ نکلے اور سائٹ کی طرف منتشر ہو گئے۔ ان ہنگاموں میں مرنے والوں کی تعداد بیس سے زائد تجاوز کر گئی۔ یہ پرتشدد تعصب سے بھرپور جھگڑا مغربی پاکستان کی تاریخ کا پہلا لسانی جھگڑا تھا جو سرکاری سرپرستی میں ہوا اس کا مقصد مہاجرین کو جانی و مالی نقصان سے دوچار کرنا تھا چونکہ انہوں نے ایوب خان کی مخالفت کی تھی یہ اس بات کی سزا تھی۔ اسے پٹھان مہاجر جھگڑا بھی کہا جاتا ہے۔

اس پر بس نہیں ہوا مہاجروں پر نوکریوں کے مواقع محدود کر کے انہیں مالی نقصانات سے دوچار کرنے کی پالیسی اپنا کر نوکریوں سے سرکاری اور نیم سرکاری پرائیویٹ اداروں سے برخاست کر کے انکو معاشی پریشانی کا شکار کردیا۔ انڈسٹری میں بدمعاشی کر کے انہیں زد و کوب کر کے نوکریوں سے نکلوانے کی روایت بھی پروان چڑھائی جو آج تک جاری و ساری ہے۔ ان محرکات کے پیچھے گوہر ایوب تھا جس نے اس نفرت کا بیج بویا۔ اس نے کراچی کا نقشہ سامنے رکھ کر غیر قانونی طور پر سرحد سے ہزاروں لوگوں کو کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر لا کر آباد کیا۔ اسکا مقصد اس شہر کے لوگوں پر تشدد کرنا اور شہر کی گنجان آبادی والے علاقوں کے ساتھ انہیں بسانا تاکہ انہیں مستقل بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہے۔

گوہر ایوب کی سرپرستی میں بسائی گئیں بستیوں میں کورنگی لانڈھی کے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اختر کالونی ‘ منظور کالونی قیوم آباد‘ فیچر کالونی‘ قائدآباد ۔ ناظم آباد سے متصل بنارس کی آبادی۔ بلوچستان کے داخلی رستے پر گلبائی‘ شیر شاہ اسی طرح نیشنل ہائی وے پر قائد آباد فیچر کالونی اسکے پیچھے شاطر زہنیت اسکے عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان کسی کی ملکیت نہیں کہ زاتی میراث سمجھ کر اسے اپنے مقاصد کے کام کریں کس کو جانی و مالی نقصان سے دوچار کریں۔ اسی شہر نے انکی ہوس ملک گیری کا خواب توڑ کر کس زلت سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

گوہر ایوب کا لگایا ہوا پودا آج تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے اس کی شاخیں اور جڑیں چاروں طرف پھیل گئی ہیں۔ ہنگاموں کے دوران ان کی آبادیوں سے گزرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ تشدد اب ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ بنارس اور سائٹ کے علاقوں میں کھلے عام لوٹ مار معمول کی بات ہے مزاحمت پر چاقو مار کر زخمی کر دیا جاتا ہے یا گولی مار دی جاتی ہے۔ سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ بیشنل ہائی وے پر قائد آباد اس وقت کی یادگاریں ہیں۔ ان آبادیوں نے اس شہر کے لوگوں کو کتنے جانی ومالی نقصان سے دوچار کیا اس کی ایک بھیانک تاریخ ہے۔

انہیں لوگوں نے اسمگلنگ کا سامان بیچنے کے اڈے یہاں قائم کر کے خوب دولت اکھٹا کی۔ انہیں لوگوں نے کراچی میں منشیات کے اڈے قائم کیے اور پاکستان کا سہراب گوٹھ میں قائم منشیات کا اڈا بین الاقوامی اسمگلروں کی توجہ کا مرکز بنا اور ساری دنیا میں ملک کی بد نامی کا باعث بنا ‘ وہی لوگ اسلحے کی تجارت میں ملوث رہے کراچی میں اسلحہ کی تجارت کو پروان چڑھایا۔

آج وہی قوتیں اپنا دائرہ وسیع کرنے میں کمر بستہ ہیں کراچی کے ان علاقوں کو وسعت دینے کے لیے اب ملحقہ علاقوں پر قبضہ کی جنگ گھمبیر صورت حال پیش کر رہی ہے۔ مقامی لوگوں کی زمینوں پر بے دھڑک قبضہ کر کے رہائش بلا خوف اختیارکر لیتے ہیں۔ لوگ رو پیٹ کر بیٹھ جاتے ہیں ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی کچھ زیادہ بھاگ دوڑ کی تو نتیجہ سب کو معلوم ہے کہ داستانوں میں رہ جاتے ہیں۔ اب بھی اسی طرح صوبے سرحد کے نام کی خیبر پختون خواہ کے نام کی تبدیلی کا جشن کراچی میں کلفٹن کے ساحل پر منایا گیا۔ جیسے ایوب خان کی کامیابی کا جشن کراچی میں منایا گیا تھا۔ اس جلسے میں اعلان کیا گیا کہ اب اس کراچی شہر میں پٹھانوں کی تعداد مہاجروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے اس لیے اب اس شہر پر ہمارا حق زیادہ ہے۔ میرے خیال میں کسی کو کسی کی تعداد سے کوئی سروکار نہیں ہے اگر امن سے رہا جائے کسی کے پلاٹوں‘ پراپرٹی پر بدمعاشی سے قبضہ نہ کیا جائے تو اعتراض کی کوئی وجہ نہیں۔

اس وقت شہر میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے ہر مرنے والے کو اپنی پارٹی سے منسوب کر کے جوابی کاروائی کے نام پر متحارب گروپ کے دو چار افراد نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنا دیے جاتے ہیں اور اب ممبر اسمبلی بھی تارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ کیا حکومتی ادارے ان نامعلوم قاتلوں کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا پھر سانحہ سہراب گوٹھ‘ سانحہ علی گڑھ ‘ سانحہ پکا قلعہ حیدرآباد کا اعادہ ہے۔

جس میں نامعلوم ملزمان کو نامعلوم وجوہات کے تحت نامز د بھی نہیں کیا گیا اور کسی کو اتنے بڑے قتل عام پر مجرم بھی نہ ٹھہرایا جا سکا۔ جبکہ شہر اس ٹارگٹ کلنگ اور دھشت گردی کے باعث بڑے اختیارات کے ساتھ رینجرز کے حوالے کردیا گیا تھا۔ لیکن ٹارگٹ کلنگ بھرپور انداز مین جاری ہے ابھی تک کوئی قاتل گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اب ایم پی اے رضا حیدر کا تارگیٹ کلنگ میں شہید ہونا کس بات کی نشان دہی ہے۔ انہیں کس جرم میں بدلے میں مار دیا۔

نہ کراچی مقبوضہ کشمیر میں ہے نہ یہاں انڈیا کی غاصب فوجیں ہیں کہ قتل عام کی کھلی چھٹیں دے رکھی ہو ۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے اصل حقائق کر سامتے لائے جائیں ورنہ یہ  ڈرگ مافیا‘ لینڈ مافیا اور یہ قبضہ کی جنگ جو اس شہر میں کھیلی جا رہی ہے اس ملک کو کسی بڑے سانحہ کی طرف نہ لے جائے۔ یہی قوتیں جو اس شہر کا امن تباہ کرنے میں عرصہ دراز سے کوشاں ہیں جن کی سرپرستی اور جائے پناہ بھی انہیں تعصب کے لگائے درختوں تلے ہے جنہیں گوہر ایوب نے بویا تھا۔ اور ایوب خان کی یادگار ہے۔ جب بھی اس ڈرگ مافیا‘ لینڈ مافیا کے خلاف اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اس شہر میں فسادات کا ایسا شدید لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ منصوبہ موخر کر دیا جاتا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ کراچی کے لوگ اس ڈرگ مافیا‘ لینڈ مافیا سے نجات چاہتے ہیں۔ بد قسمتی سے ایک سیاسی بلکہ لسانی تظیم اس ڈرگ مافیا کی در پردہ مددگار ہے اسکا مقصد انکی حمایت سے اس شہر میں اپنی مضبوط گرفت قائم کرنا ہے جو یقیناً ایک خطرناک منصوبہ بندی ہے اس شہر اور ملک کے لئے خطرناک ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82221 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More