عوامی نمائندگی کون کرے؟

وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا تفصیلی کالم گزشتہ دنوں اخبار میں شائع ہوا۔ جس میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ عوامی نمائندگی صرف پارلیمان ہی کرتی ہے۔ انہوں نے مختلف دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے عوام کے منتخب نمائندے ہی دستور بناتے ہیں، وہی اس میں ترمیم کرنے کے مجاز ہیں اور پارلیمان ہی دستور کی تشریح اور تعبیر کرسکتی ہے۔ انہوں نے میڈیا، کالم نگاروں اور اینکرپرسن کی عوامی نمائندگی کو ہدف بنایا اور عدلیہ کی دستور کی تشریح اور تعبیر کے حق کو مسترد کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو ادارہ دستور بناتا ہے اور اس میں ترمیم کا اختیار رکھتا ہے وہی دستور کی تعبیر کر سکتا ہے۔ وزیر موصوف کا یہ کہنا بجا ہے کہ معروف معنوں میں عوامی نمائندے وہی ہوتے ہیں، جو عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر ایوان میں ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میڈیا کو عوامی نمائندگی کا وہ مینڈیٹ حاصل نہیں جو ممبران پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ لیکن منتخب ہونے کے بعد ممبران اسمبلی کا کردار عموماً عوامی امنگوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ وہ پارٹی پالیسی اور ذاتی مفادات کی زد میں آکر عوام کی ترجمانی کرنے کے بجائے پارٹی پالیسی اور اپنے مفادات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔ بقول وزیر موصوف میڈیا عوامی نمائندہ نہیں ہوتا لیکن جو کچھ میڈیا کہتا ہے وہ تو عوام کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے۔ اس طرح عملاً میڈیا ہی عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک معاملہ قانونی نمائندگی کا ہے، وہ ممبران اسمبلی کے پاس ہے اور ایک معاملہ عملی میدان کا ہے، جہاں ممبران اسمبلی خاموش ہیں اور میڈیا عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے دل کی بات کہہ رہا ہوتا ہے۔ اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مہنگائی، کرپشن، قبائلی علاقوں میں فوج کشی، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان میں عدم استحکام جیسے مسائل پر ممبران اسمبلی خاموش ہیں۔ عوام ان سارے معاملات میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں اور میڈیا ان ایشوز پر عوامی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے صفحات گواہ ہیں کہ ہر معاملے پر میڈیا نے عوام کی نمائندگی اور ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی عوام اور حکمرانوں کو آمنے سامنے بٹھا کر عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ ہر مباحثے، گفتگو، ملاقات اور پروگرام میں حکومتی نمائندوں کو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔

پوری دنیا کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ پارلیمنٹ دستور بناتی ہے اور اس میں ترمیم و اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ انتظامیہ اس دستورپر عمل کرواتی ہے۔ دستور پر عمل کرتے وقت مختلف نزاعی معاملات جنم لیتے ہیں اور دستور کی درست تشریح اور تعبیر درکار ہوتی ہے۔ جس کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے اور عدلیہ دستور کی روح کے مطابق قانونی کی حکمرانی، عوامی حقوق کی پاسداری اور انتظامیہ کی گرفت کو مدنظر رکھ کر دستور کی مناسب تعبیر اور تشریح کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اور پوری دنیا میں عدلیہ کے ذریعے دستور کی تعبیر اور تشریح کے نتیجے میں کوئی بحران پیدا نہیں ہوا اور کہیں بھی عدلیہ کے حق تشریح و تعبیر کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس لیے وزیر موصوف کا یہ کہنا درست نہیں کہ جو ادارہ دستور بنانے اور ترمیم و اضافے کا حق رکھتا ہے وہ اس کی تعبیر کر سکتا ہے۔ اگر یہ سارے اختیارات ایک جگہ جمع کر دئے گئے تو پھر یکطرفہ ٹریفک سے سارا ملک مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔ انہیں بتلانے کی ضرورت ہے کہ غصہ جانے دیں، اپنے اختیارات کے چنگل سے باہر نکل کر جمہوری انداز میں سوچیں، اپنے آج کے بجائے آنے والے کل کے بارے میں فکر کریں، جب سارے اختیارات ایک ادارے کے پاس جمع ہوں گے تو پھر ان کی کون سنے گا۔

کائرہ صاحب نے پورے اظہاریے میں میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کی دفاع کرتے ہوئے اسے موجودہ حکومت کے کارنامے کے طور پر پر جوش انداز میں پیش کیا ہے۔ میثاق جمہوریت کے حوالے سے ان کی پارٹنر نون لیگ والے پانچ فیصد بھی مطمئن نہیں۔ جب اتحادی ہی مطمئن نہیں تو عوام کہاں خوش ہوں گے۔ انہوں نے اٹھارویں ترمیم، صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن اور صوبائی خودمختاری کے حوالے سے کی گئیں ترامیم کو تاریخی دستاویز قرار دیا اور دستور 1973 اور قرار داد پاکستان کے مترادف قرار دیا۔ '' دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ گماں اچھا ہے'' کے مصداق وہ جس قدر چاہیں خوش ہوں اور شادیانے بجائیں۔ عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ میڈیا نے ضرور اس اقدام کو سہرایا اور اسے حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے لیکن عوام نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ملک کے کسی کونے میں کوئی تقریب، کوئی جلسہ، کوئی ریلی اور کوئی معمولی رسپانس بھی نہیں دیا۔ عوام نے اسے حکمرانوں کے اختیارات کے کھیل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی۔

کائرہ صاحب نے دستور کو ایک جیتی جاگتی دستاویز قرار دیتے ہوئے اس کے اہمیت اجاگر کرنے کی کو شش کی۔ انہیں کون یاد دلائے کہ دستور کو حکومت نے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا، ہمیشہ حکمرانوں نے ہی اس کا حلیہ بگاڑا۔ اس دستور کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے اس میں درجن بھر ترامیم کر کے اس کی اصل روح کو مسخ کر دیا تھا، پھر ضیاء الحق کے دور میں اس پر نشتر چلائی گئی، نواز شریف نے چودھویں ترمیم سیکنڈوں میں پاس کروائی اور پھر مشرف دور میں سترویں ترمیم سے پیوندکاری کی گئی۔ اب موجودہ حکمرانوں نے اٹھارویں ترمیم کی، جو بہت اچھی ہے، اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ دستور جیتی جاگتی دستاویز ہوتا تو کوئی جھوٹ بولنے والا، عوامی دولت لوٹنے اور بیرون ملک منتقل کرنے والا، کوئی قرضے معاف کروانے والا، کرپٹ اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والا اور جعلی ڈگری والا ممبر اسمبلی منتخب نہ ہوتا۔ اگر یہ متحرک دستاویز ہوتی تو پھر اس کی روح کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون کو طے شدہ مدت کے اندر قرآن و سنت کے مطابق استوار کیا جاتا، اردو دس سالوں میں اردو زبان کو ملک کی قومی اور دفتری زبان کے طور پراختیار کیا جاتا ہے۔ اگر یہ دستور جیتی جاگتی دستاویز ہے تو پھر آج ہزاروں پاکستانی لاپتہ کیوں ہیں، جو حکومتی اداروں نے قانون سے چھپ، چھپا کر کیوں پس زنداں رکھے ہوئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں پر فوج کشی دستور پاکستان کی کس شق کے مطابق کی جا رہی ہے۔ وہ کون سا قانون ہے، جس کی رو سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ایمل کانسی اور دیگر ہم وطنوں کو دشمنوں کے حوالے کیا گیا۔ یہ دستور کے ساتھ مذاق حکمران شروع سے کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ میڈیا اور عدلیہ ہی ہے جو حکمرانوں کو دستور کی ایک، ایک سطر یاد کرواتے ہیں۔ یہی دو ادارے حقیقی معنوں میں عوامی حقوق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عوام انہی پر بھروسہ کرتے ہیں، ان ہی رجوع کرتے ہیں اور ان ہی سے داد رسی کی امید رکھتے ہیں۔ ممبران اسمبلی کے پاس لوگ رشوت لے کر جاتے ہیں اور ساتھ اپنے کاموں کی فہرست دیتے ہیں۔ معاشرے کے ناپسندیدہ لوگ اپنی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے اور قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کے لیے وزراء اور ممبران اسمبلی کے گرد جمع رہتے ہیں۔ عوام کو ممبران پارلیمنٹ سے کوئی اچھی توقع وابستہ نہیں اور نہ وہ ان کے پاس جاتے ہیں۔ یہ معاملہ موجودہ حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہر ایک حکمران جب تخت پر ہوتا ہے تو اسے میڈیا اور عدلیہ زہر لگتے ہیں اور جونہی اقتدار سے بیدخل کر دئے جاتے ہیں تو انہیں میڈیا اور عدلیہ ہی پناہ دیتی ہے اور یہی لوگ پھر ان کی وکالت بھی کرتے ہیں۔

اگر دستور ایک زندہ دستاویز ہے تو اس میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں بھی درج ہیں، جس وہ فراموش کر کے دستور سے صرف اپنے اختیارات، مراعات اور گنجائشیں تلاش کرتے ہیں۔ آج پورا سماج معاشرے میں بڑھتی ہوئی کرپشن سے بیزار ہے، مہنگائی سے لوگ عاجز آچکے ہیں، ریاستی اداروں اور معاشرے میں چھائے ہوئے غنڈوں کے ہاتھوں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، سندھ اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہیں اور قبائلی علاقوں میں بلا جواز بلا امتیاز سب لوگوں کو گولی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی کونسی شق پر عمل ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس پر کیوں خاموش ہیں۔ کیا یہ خاموشی عوامی نمائندگی اور ترجمانی ہے۔ ان ایوانوں سے باہر نکل کر عوام کی بات ان کی زبان سے سنیئے اور دیکھیے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ اپنے مفادات کی ترجمانی ہے یا عوام کی۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ عوام کی نمائندگی اور ترجمانی کون کر رہا ہے۔ اصولی باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جو دستور اختیارات اور مراعات دیتا ہے وہی دستور اختیارات کے حامل لوگوں اور اداروں کی ذمہ داریوں کا بھی تعین کرتا ہے۔ سارے اختیارات اور مراعات ذمہ داریوں کی ادائیگی سے مشروط ہوتے ہیں۔ ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے والے اختیارات اور مراعات کے حقدار نہیں قرار پاتے۔ حالات کے دباؤ کے تحت ایسے بااختیار لوگوں کو کچھ نہ کچھ مہلت مل رہی ہے، جو قدرت کی طرف سے ان کے لیے اصلاح احوال کی گنجائش ہے۔ اگر یہ خود کو درست نہیں کریں گے، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہیوں کے مرتکب ہو کے اور اپنے اختیارات میں اضافے کے لیے دستور کوڈھال بنائیں گے تو پھر اس دستور میں درج بہت سے شقیں چیخ، چیخ کر انہیں ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف متوجہ کریں گی۔ جب تک دستور کو پوری روح کے ساتھ روڈ میپ نہیں بنایا جائے گا، ملک میں امن اور سکون میسر نہیں آئے گا۔ یہی دستور ہمیں کہتا ہے کہ قرآن و سنت ملک کا بالاتر قانون ہوگا لیکن حکمرانوں کو دستور کی یہ شق نظر ہی نہیں آتی۔ پاکستان اسی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور اسی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے۔ عوام کو امن، سکون، ترقی اور منزل قرآن وسنت کو بالا تر قانون بنائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117228 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More