آج کوئی کام کرنے کو دل نہیں کر رہا۔ دل
بہت دکھی ہے۔ پہلی بار روشنیوں کے شہر کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے خوف
محسوس ہوا۔ ساٹھ ستر لوگوں کے مرنے کے بعد ہر پل کراچی پر وحشت کے سائے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اگلے دن میں اسی شہر کی سڑکوں سے ہوتا ہوا
اپنے دفتر پہنچا اور چھ سے سات کلومیٹر کے سفر میں چالیس سے پچاس گاڑیاں
سڑک کے بیچوں بیچ جلی ہوئی دیکھیں لیکن کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوا۔
لیکن آج جب دفتر کی گاڑی سے گھر جاتے ہوئے ہر گزرتی ہوئی موٹر سائیکل پر
خوف محسوس ہوا۔ حکومت چاہے صوبائی ہو یا وفاقی کسی کو یہاں کے دو کروڑ
لوگوں کی ذرا فکر نہیں۔ یہاں کی جماعتیں بھی خاموش ہیں۔ یہ صرف میرا مسئلہ
نہیں کراچی کا ہر ہر باسی دہشت اور خوف کے گھیرے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے
جو موت بھولے ہوئے ہیں اور معصوم اور نہتے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
گاڑیاں جلا رہے ہیں۔ سڑکوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ کراچی کے شہریوں کا جانی
اور معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے اور دکھ یہ ہے کہ اس میں ہمارے اپنوں کا
ہی ہاتھ ہے۔ یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کیلئے سب کچھ فروخت کر سکتے ہیں۔ ان
لوگوں کی سیاست صرف پلاٹ اور کراچی پر اپنے قبضے کو مضبوط رکھنا ہے۔
دوسری طرف پولیس اور رینجرز کا کردار بھی مشکوک بن گیا ہے۔ بلند و بانگ
دعوے کرنے، ڈبل سواری پر جانے والوں کو تنگ کرنے اور دیگر ہتھکنڈوں کیلئے
مشہور پاکستانی پولیس نا صرف ناکارہ ہوگئی ہے بلکہ اسے دیمک بھی لگ چکی ہے۔
تین روز کے دوران ساٹھ ستر لوگ قتل کر دیئے گئے اور کروڑوں روپے کی املاک
جلا دی گئیں لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ رہی رینجرز تو اس کا کام
شہروں کے مزے لوٹنا رہ گیا ہے۔ پاکستان رینجرز کو شہر کی ہوا کے مزے لگ گئے
ہیں اور اب وہ مرتے دم یہاں سے نکلنا نہیں چاہتی۔ جامعہ کراچی پر مسلط رہنے
والی رینجرز نے اب کراچی پر قبضہ مضبوط کر لیا ہے لیکن صرف قبضہ۔ کام کچھ
نہیں۔ اگر کام کر رہے ہوتے تو محض پچاس گھنٹے میں ستر افراد لقمہ اجل نہ بن
جاتے۔
رہے سیاست دان تو اب ہمیں ان نا مراد سیاست دانوں اور ان کی جماعتوں سے
چھٹکارہ پانا ہوگا۔ ہمیں صحیح معنوں میں اپنا کردار خود ادا کرنا ہوگا۔
شعور و آگاہی پیدا کرنا ہوگا۔ کسی کے ڈھونگ اور ناٹک میں نہیں آنا چاہئے۔
لسانی، نسلی، قومیت اور عصبیت کی بنیاد پر سیاست چمکانے والوں سے جان
چھڑانا ضروری ہوگیا ہے ورنہ یہ ہماری لاشوں پر سیاست کرتے رہیں گے۔ انہیں
ہماری جان کی نہیں، اپنی کرسی، اقتدار اور دولت کی پرواہ ہے۔ طاقت اور دولت
کا مزہ ان کے منہ لگ گیا ہے۔ غریب عوام کا دکھ، تکلیف انہیں الیکشن کے
زمانے میں ہی نظر آتا ہے۔ اللہ کی رسی تھامنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ ہمیں اس
سے معافی مانگنا ہوگی۔ اپنے گناہوں پر توبہ کرنا ہوگی۔ اور اس سے دعا کرنا
ہوگی کہ وہ ہم پر سے نااہل حکمرانوں، قائدین کا عذاب اٹھالے۔ ہمیں دیانت
دار، انصاف کرنے والی قیادت اللہ سے مانگنا ہوگی۔ ورنہ پے درپے واقعات ہمیں
بہا لے جائیں گے۔ پھر امت تو یہی رہے گی لیکن لوگ دوسرے چن لئے جائیں گے
اور ہم مستقل طور پر بھٹک جائیں گے۔
خدارا ہمیں ہوش کرنا ہوگا۔ کراچی کو بچانا ہوگا۔ پاکستان کو بچانا ہوگا۔ یہ
ہے تو ہم ہیں۔ اللہ ہم پر فضل و کرم کرے۔ آمینا |