افغانستان میں کل صوبوں کی تعداد34ہے ،
مزید چھوٹی اکائی ضلع میں تقسیم ہے ، ہر صوبے کی قیادت گورنر کرتا ہے۔لوئی
اشتراوس وہ پہلا شخص تھا ، جس نے اپنی کتاب ’ آرڈر اور جمہوریت ‘میں امریکی
برتری کا نظریہ پیش کیا اور اس نظریئے کو عملی شکل دینے کے لئے مشرق وسطی
کو اس کا مرکز قرار دیا جو اس منصوبے میں اسٹیریٹجک گہرائی کا حامل خطہ ہے
، اس نے اپنی کتاب میں یہ تصور پیش کیا کہ عالم اسلام کا مرکز ثقل مشرق
وسطی ہے، لہذا خطے میں رونما ہونے والی انقلابی تحریکوں ، اسلام کی جانب
بڑھتے ہوئے رجحان اور اسلامی شریعت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ’ اسلام
فوفیا ‘ جیسا منصوبہ مشرق وسطی سے ہی ابھر کر سامنے آئے۔افغانستان ایک وسیع
تر منظر نامے کا حصہ ہے ۔ یہ منظر نامہ افغانستان پر سابق سوویت یونین کی
فوجی جارحیت سے آغاز ہوا ، اس وقت یہ طے پایا تھا کہ سوویت فورسز کے خلاف
بر سر پیکار مجاہدین کی ہر ممکنہ مدد کی جائے ،درحقیقت اس پراجیکٹ کے اہم
خدوخال میں ثقافتوں کے درمیان ٹکراؤ اور وہ بھی ایسی جگہ جو اسلام فوبیا کا
مرکز ثقل تصور کیا جاتا ہے ، یعنی افغانستان میں طالبانائزیشن کا آغاز،
امریکی جاسوسی ادارے نے آہستہ آہستہ پاکستان کو بھی پاکستانی طالبانائزیشن
کی دلدل میں پھنسانا شروع کردیا ۔اس مقصد کے لئے پاکستان میں لسانی ، قومی
اور مذہبی اقلیتوں کے تعصب کو ہوا دینا شروع کردی گئی۔
ُروس انڈیا ، ایران اور چین افغانستان پر اپنا حق جتاتے ہیں کہ ان کا سب سے
زیادہ ہے۔2001ء میں طالبان کے خلاف امریکی حملے کے آغاز میں ہی کچھ خاص قسم
کے انتہائی اہم مسائل کی پیشنگوہی کردی گئی تھی ، افغانستان میں بسنے والی
دوسری قومیں جیسے تاجک ، ہزارہ اور ازبک اور ان کی سیاسی جماعتیں، جیسے
جمعیت اسلامی ، قومی فرنٹ قومی اتحاد اور حزب وحدت اپنے اوپر طالبان کا
قبضہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے ، یہی وجہ ہے امریکہ کی جانب سے افغانستان
کے سیاسی نظام میں ’ فڈر الزم ‘ پر مبنی سیاسی لٹریچر کو داخل کیا گیا اور
اس طریقے سے نرم طریقے سے افغانستان کی تقسیم کا زمینہ فراہم ہوگا ، پہلے
حصے افغانستان کی جغرافیائی تقسیم کا منصوبہ ہے ، جس پر تیزی سے عمل درآمد
جاری ہے ، دوسری جانب پاکستان کی تقسیم کے منصوبے پر بھی عمل کیا جا رہا
ہے۔لیکن چین کی حمایت کے سبب تمام تر سازشوں کے باوجود منصوبے پر تیزی سے
کام نہیں ہو رہا ،تاہم ایران ، بھارت اور افغانستان کی ایجنسیاں ، پاکستان
کو غیر مستحکم کرنے میں لگی ہوئی ہیں ، لیکن پاکستانی سیکورٹی فوسرسز تیزی
سے ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کئے جا رہی ہے۔روس 2007سے افغانستان کے شمالی
اور جنوب مغربی علاقوں میں اسلحہ تقسیم کررہا ہے ، تاکہ ایک طرف افغانستان
میں خانہ جنگی کو ہوا دے سکے اور دوسری طرف افغانستان میں تقسیم ہونے والی
غنیمتوں سے بھی بے بہرہ نہ رہے۔افغانستان میں 1793ء سے آج تک انگریزوں نے
آٹھ ، روس نے ایک، جبکہ امریکہ نے چھ حکمران بنا ڈالے ۔امیر عبدالرحمان نے
انگریزوں سے وفاداری اور دوست کا حق ادا کرنے کیلئے انگریزمخالف دشمنوں پر
بے پناہ ظلم ڈھائے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ نادرشاہ اور عبدالرحمان خان کے
بدترین مخالفوں میں اتفاق سے قبیلہ غلزئی اور ہزارہ قوم تھی ۔ اگر غازی
ایوب خان حکمران ہوتا تو Fire in Afghanistanلکھنے کی نوبت نہ آتی اوریقینا
آج افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ مختلف بلکہ بہتر ہوتے اور معائدہ گندمک
، نہ ڈیورنڈ لائن کے قضیے ہوتے۔1842ء پہلی افغان انگریز جنگ غازی وزیر اکبر
خان محمد زئی 1880 اور دوسری انگریز افغان جنگ کے دوران غیر تربیت یافتہ کم
تعداد افغانوں نے ٹوٹے پھوٹے ہتھیاروں کیساتھ دنیا کی سب سے بڑی جدید ترین
ہتھیاروں سے لیس تعداد میں کئی گنا زیادہ انگریز فوج کو عبرتناک شکستیں
دیں۔32سالہ نوجوان اکبر خان اور پچیس سالہ ایوب خان خان پیشہ ور اور اعلی
تربیت یافتہ نہیں تھے ۔ بالا جنگوں میں بہادری کا پلہ ہتھیار پر بھاری رہا
۔افغانستان اور برصغیر کا تناسب ایک اور 200ہے اس کے باوجود 1757ء سے
1947تک انگریز جو بر صغیر کے حکمران رہے ،مسلسل اور متعدد کوششوں کے باوجود
افغانوں کو تابع نہ کرسکے اور نہ ہی برصغیر کی طرح حکومت کرسکے۔لیکن اپنی
ریشہ دانیوں ، خانہ جنگیوں اور سازشوں سے افغانستان میں مداخلت کرنے آج تک
باز نہیں آئے۔21مئی 1879ء معائدہ گندمک کے تحت سبی تک افغان انگریزوں نے
اسی سال لارڈ سنڈیمن نے سیوستان کو بلوچستان کا نام دیا ۔ 12نومبر 1893ء کو
ڈیورنڈ لائن کی غیر فطری افغان انگریز حد بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے
کابل تک رسائی کیلئے ہنری ڈیونرنڈ نے نہایت کثیر التعداد فوج استعما ل
کیلئے سندھ اور بلوچستان ہی کی گذرہ گاہ استعمال کی تھی ، کابل کو محاصرے
میں لینے اور کابل میں موجود انگریزی فوج نے اپنے پٹھو حکمران امیر عبدا
لرحمان کو اس غیر فطری عمل کیلئے مجبور کیا ، سوات چترال ،باجوڑ ، دیر
بونیر وغیرہ افغانستان سے الگ کر لئے گئے۔
.1901ء ڈیورنڈ لائن اور چند دیگر چند علاقوں کو ملا کر ناقابل فہم بے جوڑ
اور بے معنی نام دیکر شمال مغربی سرحدی صوبہ بنا کر افغانوں یا پشتونوں کو
قومیت کی مناسبت سے نام دینا بھی گورا نہیں کیاتھا۔ان تواریخ کے حقائق کا
مقصد یہی ظاہر کرنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن اورمعائدہ گندمک کے معائدات افغان
حکمرانوں نے اپنے وقت میں غدار وطن کے ہاتھوں کرکے افغانستان کی وحدت کو
تقسیم کرنے کیلئے کئے ، افغانستان پر بہ ظاہر کسی بیرونی جارح نے حکومت
نہیں کی لیکن 1799ء سے لیکر آج تک افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی پالیسیوں
کے تحت کسی نہ کسی شکل میں غیر ملکیوں کی حکمرانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا
۔ غدار وطن شاہ شجاع ، امیر عبدالرحمان سے، روس کیخلاف امریکیوں سے ملکر
جنگ ، اور اب امریکیوں کی کابل حکومت پہلے امریکی حمایتی کرزئی حکومت
اورموجودہ دوہری حکومت کو یہ کہہ کر حقائق نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ
افغانستان پر کسی بیرونی جارح نے حکومت نہیں رہی۔اب امریکہ اپنی زمینی ،
اخلاقی شکست کے بعد افغانستان جانے سے قبل وہاں کی عوام کو منقسم کرنا
چاہتا ہے۔طالبان اور مزاحمت کاروں کو بھی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی
اجازت اور تحریک طالبان افغانستان کیجانب سے سیاسی دفتر کا قیام بھی مستقبل
کے افغانستان کے نئے خدوخال کو اس سازش کو واضح کرچکے تھے۔ اطلاعات کے
مطابق امریکہ طالبان کو رعایت دیکر افغانستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم
کرنے کا خواہاں بھی ہے اور یہی تجویز منظر عام پر لائی جا رہی ہے کہ طالبان
شمالی اتحاد کے علاقوں سے دست برداری اختیار کر لیں اور پشتون علاقوں میں
طالبان ،سیاسی بنیادوں پر صدارتی الیکشن میں حصہ لیکر معتدل افراد کو حکومت
کا حصہ بنیں۔ موجودہ افغانستان میں مختلف اقوام کی آبادیوں کا تناسب پشتون
ساٹھ فیصد، تاجک بیس فیصد ، اُزبک اور خرکمن دس فیصد، ہزارہ پانچ فیصد اور
بلوچ دو فیصد ہے۔بنیادی طور پر قبائل کے لحاظ سے موجودہ افغانستان کو مشرقی
افغانستان اور مغربی افغانستان میں تقسیم کے منصوبے منظر عام پر آرہے
ہیں۔لیکن امریکہ کیجانب سے حتمی انخلا سے قبل افغان امن کونسل کے پاکستان
میں مذاکرات کے عمل میں ایک بین الاقوامی علما ء کانفرنس بلانے کی تجویز دی
گئی تھی جس کا مقصد طالبان حملوں کے خلاف معتبر علما ء سے فتوے حاصل کرنا
تھا ۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اپنے جاری ایک بیان میں
کانفرنس کو سراسر امریکی ایما ء پر محض گیارہ سالہ جہاد کے بعد افغان جہاد
کے متعلق علما ء کے نقطہ نظر کو معلوم کرنا اور اور امریکہ کو اپنی ناکامی
کے دباؤ کے باعث اس خوائش کا اظہار کہ وہ مذہبی رہنماؤں سے توقع رکھتے ہیں
کہ اسے "نجات دلائی جائے"۔اب جبکہ امریکہ سے لڑتے ہو افغان طالبان کو 15سال
ہوچکے ہیں ، امن لشکر کے کردارمیں اس تبدیلی کو امریکہ کی جانب سے
افغانستان میں امن کے لئے پانچ مراحل پر مبنی منصوبے کا حصہ سمجھا
جارہاہے۔افغانستان کی تاریخی حیثیت کو مزید تاراج کرنے کے بجائے امریکہ امن
کے نام پر جنگ اور لڑو لڑوا ، حکومت کرو کی پالیسی ختم کرکے افغانستان کے
مستقبل کا فیصلہ افغان عوام پر چھوڑ کر چلا جائے تو یہ خطے کے امن کے لئے
اہم اقدام ہوگا۔منقسم افغانستان کسی بھی طور مفاد عامہ میں نہیں بلکہ مزید
انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔ |