غداروں کے ساتھ ہم نہیں غدار ہونگے

کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن لکھنے کیلئے الفاظوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے کہ ایسا کونسا جملہ لکھوں کہ مولانا فضل الرحمن کی شخصیت پر اور ان کے قدر دانوں پر گراں نہ گذرے ۔ مولانا فضل الرحمن ایک زیرک اور موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے والے سیاست دان ہیں ، مذہبی پیشوا ہونے کے سبب انھیں اپنی تقریر کے مد ورجزر پر بھی کمال حاصل ہے ۔ سوشل میڈیا میں ان کے حوالے سے مختلف القابات ضرب المثل بن چکے ہیں اس لئے انھیں دوہرانا مناسب نہیں ، لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ عین اس وقت جب پاکستان ، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی دنیا کی توجہ مبذول کرارہا تھا ، مولانا صاحب نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے باوجو د اس اہم ترین موقع پر فاٹا میں پاک فوج کی جانب سے ہونے والے آپریشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ، فاٹا کی عوام کو ،کشمیر کی عوام سے زیادہ مظلوم قرار دے دیا ، قومی اسمبلی میں ان کے خطاب نے فاٹا کے عوام کیلئے آواز بلند کی ، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ یہ آواز پاکستانی فوج کے خلاف تھی ، واضح طور پر کہا جا رہا تھا کہ پاکستانی فوج نے فاٹا کے عوام پر اتنے زیادہ مظالم کئے ہیں ، جیسے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرتا ہے ، شمالی مغربی سرحدوں کو عارضی گردانتے ہوئے ان کا فرمانا ہے کہ اگر افغانستان نے جہلم مانگ لیا تو پاکستان جواب بھی نہیں دے سکے گا۔ مولانا فضل الرحمن جیسی اہم شخصیت کے والد صاحب قومی اسمبلی کے فلور پر اعتراف گناہ کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے ، مولانا صاحب نے فاٹا کے مسائل کا ذکر غدار الطاف حسین کی طرح کیا ، کہ ان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اگر قبائلی عوام افغانستان کے ساتھ مل جائیں تو وہ غداری نہیں ، ان کا حق ہوگا ۔ یہ کنٹرول لائن عارضی ہیں۔ایک روزنامے کے سنیئر رپورٹر نے جہان پاکستان اور نیوز ایجنسی اے پی پی کی خبر پرسخت چراغ پا ہوگئے ۔ انھوں نے اپنی فیس بک پر پختون قبائلی عوام کی ایک تصویر پوسٹ شیئر کی تھی کہ جس میں آئی ڈی پیز امدادی سامان کیلئے لائن بنا کر کھڑے ہیں اور ان کی تضحیک کی جا رہی ہے کہ بھارت سے جنگ کیلئے ناموں کا اندارج کیا جا رہا ہے ۔ معزز رپورٹر خود بھی پختون قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، میں نے ان سے یہی عرض کی کہ یہ جو پوسٹ آپ نے شیئر کی ہے اس میں بہادر پختونوں کی نہیں بلکہ لاچار اور بے گھر پختونوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ یہ کیا لڑیں گے ، انھیں تو دو وقت کی روٹی کے لئے لائن لگانے سے فرصت نہیں ہے۔ لیکن میری بات وہ سمجھ نہ سکے یا پھر جہان پاکستان کی اس خبر پر چراغ پا تھے کہ ’مولانا فضل الرحمن دشمنوں کی زبان بولنے لگے ‘۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان صرف روزنامہ جہان پاکستان میں نہیں چھپا تھا ، بلکہ خود ان کے اخبار جنگ میں بھی شائع ہوا ،بلکہ تمام موقر روزناموں میں شائع ہوا۔بعد میں مولانا صاحب حسب سابق آئین کے تناظر میں اپنے بیان کی وضاحت کرتے نظر آئے ۔ یہ ہمارا وطیرہ بن گیا ہے کہ جذبات میں آکر پہلے خوب جوش خطابت کے جوہر دکھاتے ہیں پھر عوام کی جانب سے رد عمل آتا ہے تو وضاحتیں دینے لگ جاتے ہیں۔قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے تحت تقسیم موجودہ پاکستان نے نہیں کی بلکہ انگریزوں کے وقت سے یہ کالا قانون نافذ ہے ، قبائلی عوام نے پاکستان کے قانون کی عمل داری کے بجائے قبائلی نظام کوہمیشہ ترجیح دی ، ایف سی آرکے فیصلوں کو تسلیم کیا ۔ چند ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین سینیٹ فاٹا نے اپنے علاقوں میں کبھی بھی ترقیاتی کام نہیں کئے۔انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے سے روکے رکھا ۔جمیعت علما اسلام قوم پرست جماعت نہیں ہے ، اس لئے ان پر قوم پرستی کا لیبل لگا کر تنقید بھی نہیں کی جا سکتی ، لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کتوں کو شہید کہنے والوں نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے مقدمے میں پاکستانی علاقوں اور قبائلی عوام کے مسائل کو ایک جیسا ثابت کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے 71ویں اجلاس کے موقع کا انتظار کیوں کیا ؟۔ فاٹا میں قبائلی انتظام کے تحت معاملات سینکڑوں سال سے چلائے جا رہے ہیں ، 2600کلو میٹر طویل شمالی مغربی سرحدوں کے پاسبان قبائلی عوام رہے ہیں ، لیکن کبھی اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ ان علاقوں میں پاکستانی فوج کو آپریشن کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، گڈ طالبان ، بیڈ طالبان کے نظریئے کو توثیق کس نے دیْ۔ روس زار کے خلاف قبائلی عوام نے امریکہ کی ایما پر جذبہ جہاد ان کیلئے کیاا ، پھر ان کے علاقے غیر ملکی انتہا پسندوں کی پناہ گاہیں بنتی چلیں گئیں ۔ جہاد پر ڈالر غالب آگیا ۔ ڈالروں کی جھنکار اس قدر سحر انگیز تھی کہ ایک نائی ، بال کاٹنے کے 500روپے لیتا تھا ۔ انتہا پسندی کے تربیتی کیمپ بن گئے ، پاکستان میں مدارس ، مساجد ، بازاروں ، عوامی مقامات، جلوسوں ، مذہبی ، سیاسی اور اہم شخصیات کو خود کش دھماکوں سے اڑائے جانے لگا ۔ مولانا صاحب پر خود کئی مرتبہ خود کش حملے ہوئے۔قبائلی علاقوں میں آپریشن کے لئے مولانا صاحب کی جماعت نے بھی عسکری قیادت کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا ۔ لیکن اب آپ کے جماعت کے کارکن ، قبائلی عوام پاکستانی فوج سے شاکی ہیں کہ بھارت تو مقبوضہ کشمیر میں ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کرتا ، پاکستانی فوج اپنی عوام پر کرتی ہے۔ قبائلی عوام کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے وہ ،کشمیر سے زیادہ ہے ۔ ہم ان بیانات کو کیا سمجھیں ؟۔ کہ کیا فاٹا یا قبائلی عوام پاکستان کا حصہ نہیں ہیں ۔کیا فاٹا پر پاکستان نے زبردستی قبضہ کرلیاتھا ۔ کیا فاٹا کے عوام پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے ؟۔کیا فاٹا کے کسی مَلک نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرح زبردستی پاکستان کا الحاق کردیا تھا ۔ کیا فاٹا میں حق خود اداریت کی تحریک چل رہی تھی کہ اس کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے۔ کیا فاٹا کے عوام کی قرار دا د اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے ؟،۔پھر مقبوضہ کشمیر کو فاٹا سے تشبیہ دینے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں ؟۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے ، بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے ، مسلمانوں پر اقلیت حکومت کر رہی ہے ، ہندو پنڈت آبادیا ں وہاں آباد کیں جا رہی ہیں ۔ پاکستان کا پانی روکے جانے کی دھمکیاں دیں جا رہی ہیں۔ پاکستان کے حصے کے پانی پر معائدہ طاس کے برعکس ڈیم بنائے جا رہے ہیں ۔مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ظلم ہو رہا ہے ، لیکن مغرب میں آزاد کشمیر ، گلگت ، بلتستان اور بلوچستان کے لئے مظاہرہ کون کرا رہا ہے۔ فاٹا کے عوام پہلے اپنے اُن مَلکوں ، خوانین کا احتساب کریں جنھوں نے ان کی جنت نظیر وادی کو عالمی دہشت گردی کی تربیت گاہ بنا دی تھی ۔ دنیا بھر سے انتہا پسند ، شدت پسند یہاں سے دہشت گردی کی تربیت لیکر اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف خود کش دھماکے کرتے تھے ، معصوم بچوں کے اسکولوں کو بم سے اڑا دیا کرتے تھے ۔بازاروں میں جانے والے بے گناہ عوام کو شہید کردیا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جاتا تھا ۔ اور ان سب کا کنٹرول بد قسمتی سے قبائلی علاقے تھے ۔ کیا یہی قبائلی نہیں تھے جنھوں نے پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کے موقع پر پاکستان آنے کے بجائے افغانستان جانے کو ترجیح دی اور بھارت سے امداد لی۔ مقبوضہ کشمیر ایک دشمن ملک کی جانب سے جارحیت کا معاملہ ہے ، ایسے قبائلی علاقوں سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے ، انھیں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرلینا چاہیے ، جب صوبائی خود مختاری کا آئین بن چکا ہے تو ، قبائلی علاقوں کی عوام کو علاقہ غیر کہنے کے بجائے صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرلینا چاہیے۔ اگر فاٹا کی عوام الگ صوبہ چاہتے ہیں تو قومی دھارے میں آکر فاٹا کو الگ صوبہ بنا لیں ، سیاسی جماعتوں کو قائل کریں کہ فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنایا جائے ،قانون و آئین کے مطابق خیبر پختونخوا سے بل منظور کرائیں ، قومی و سینیٹ سے بل کی توثیق کرائیں اور نیا صوبہ بنا لیں ۔ ہمیں پاک فوج کے خلاف ان حالات میں بیانات دینے سے گریز اس لئے کرنا چاہیے ، کیونکہ زمینی حقائق اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ، کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں ہے، لیکن پاکستان کے قیام کے بعد جس مقصد کے لئے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ، اس پر عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ اسلامی مملکت کے بجائے ، چوں چوں کا مربہ بنا دیا گیا ہے۔ان حالات میں جب کہ قوم کو یکجہتی ، اتفاق کی ضرورت ہے ، ہمیں بھارت سمیت پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم سب پاکستان کے دشمن کے خلاف ایک ہیں ، ہمارے آپس میں اختلافات ہونگے ، تحفظات ہونگے ، نا انصافیاں بھی ہونگی ، لیکن حالت جنگ میں ہم سب ایک ہیں۔غداروں کے ساتھ ہم نہیں غدار ہونگے۔پاکستانی پختونوں و قبائلی عوام کا وطن پاکستان ہے ۔اورپختون ہو یا قبائلی عوام اپنے وطن سے غداری نہیں کرتے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660102 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.