پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خد وخال کچھ اس
طرح کے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنا مقدمہ پیش کرنے
اور لڑنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا
اڑی کے واقعہ پر پاکستان پر مذمت کرنے کے حوالے سے دباؤ کا مطالبہ بھی اسی
سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے اڑی
واقعہ کی مذمت نہ کرنا اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس سے بین الاقوامی
سطح پر فوری طور پر نتیجہ کیا اخذ کیا جا رہا ہے ہمیں اس پر بھی غور کر
لینا چاہیے۔ یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے پاکستان ہی اڑی واقعہ کا سہولت کار
تھا۔ بھارت ، بنگلہ دیش اور افغانستان مسلسل پاکستان کے خلاف سازشوں میں
مصروف ہیں ۔ یہ ممالک بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بد نام کرنے اور
پاکستان کا چہر ہ مسخ کر کے دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیتے۔ ایسے ماحول میں پاکستان کو نہ صرف نئے دوستوں کی ضرورت ہے بلکہ
سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی ماضی کی پالیسوں پر نظر ثانی کرنے کے
لئے بھی لائحہ عمل تیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سچائیاں کچھ بھی ہوں لیکن
پاکستان کے بارے میں عالمی برادری کا تاثر یہ ہے کہ یہاں سے دہشتگردی کو
سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ اس تاثر کو توڑنے کے لئے پاکستان کو اپنی سفارتی ٹیم
ترتیب دینا ہو گی اور دنیا بھر میں موجود اپنے ان سفارت خانوں اور
سفارتکاروں کو متحرک کرنا ہو گا جو خواب غفلت میں مد ہوش ہیں۔دنیا کے ہر
اہم ملک کے سفارتخانے اور سفارت کار اپنے ملک کے سافٹ امیج کی پروموشن کے
لئے کام کرتے نظر آ تے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے سفارت خانے اور سفارتکار
کسی دوسرے ہی کام پر لگے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں بھارتی
سفارتکار اتنے متحرک ہیں کہ انھوں نے بہت سے امریکی سینیٹرز کو سو فیصد
اپنا ہمنوا بنایا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ انڈین سفارتکاروں کی مرضی کے مطابق
یہ امریکی سینیٹرز پاکستان کو دہشتگرد ملک قراردلوانے کیلئے کوششوں میں
مصروف ہیں۔ امریکہ میں لابییسٹ فرمیں ہیں جو امریکی حکومت اور سینیٹرز کے
سامنے کسی بھی ملک کو پروموٹ کرنے کے لئے کام کرتی ہیں ماضی میں ایک دو
مرتبہ پاکستان کی حکومت نے بھی ان فرموں کی خدمات حاصل کیں ہیں لیکن اس سے
پاکستان کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان میں اس کا مطلب یہ نکال
لیا گیا کہ یہ سب بے کار کی باتیں ہیں ، لابییسٹ فرموں کی خدمات سے کوئی
فرق نہیں پڑتامگر سچ یہ ہے کہ فرق پڑتا ہے۔ برطانیہ میں بھی پاکستان کی
پوزیشن بہت خراب ہے یہاں بھی پاکستان کی لابی بہت کمزور ہے۔ برطانیہ اور
امریکہ کی پاکستان کی خلاف ایک ہی زبان ہے۔ دونوں کی دشمنی دراصل چین سے ہے۔
برطانیہ سے چین نے ہانگ کانگ لیا اور چین امریکہ سے اس کی عالمی نمبر ون کی
پوزیشن چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں ممالک اس لئے بھی پاکستان کے خلاف
ہیں کہ پاکستان چین کے بہت زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسی صورت حال میں
پاکستان کوروس اور شمالی کوریا سمیت دنیا کے ہر ایسے ملک سے تعلقات بہتر
کرنے چاہئیں کہ جن سے مذکورہ دو بڑی طاقتوں کے تعلقات خوشگوار نہ ہوں۔ روس
سے اگرچہ پاکستان کی کچھ قربتیں نظر آ رہی ہیں اور مشترکہ فوجی مشقوں کے
بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات میں استحکام آئے
گالیکن اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی تاہم پاکستان روس
اور چین کے درمیان برج کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے اور اپنی اس پوزیشن سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو روس کے قریب جانے کے لئے ہر ممکن اقدامات
اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ |