لیسکو کی زبوں حالی

ارشد رفیق ، راؤ ضمیر الدین ، قیصر زماں ، چوہدری انور اور اب واجد کاظمی ۔گزشتہ 28 ماہ میں معشوقۂ مشرق لیسکو نے پانچواں خاوند کر لیا ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ واجد علی کاظمی اِس بے وفا محبوبہ کے نخرے نہیں دیکھ پائیں گے اور ان کا انجام بھی خدا نخواستہ پہلے مطلقہ خاوندوں سے مختلف نہیں ہونے والا۔جو حسینہ ارشد رفیق جیسے شریف النفس اور دانش ور رفیق کی عقیدتوں پر نچھاور نہ ہو سکی ،اُس کی وفاؤں کو ہمیشہ شک ہی کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔

چیف ایگزیکٹِو افسران کا 6 ماہ کا اوسط دورانیہ اِس بات کا شاہد ہے کہ اِس ٹیڑھی کھیر کو ہضم کرنا کسی بھی طرح ماؤنٹ ایوریسٹ سر کرنے سے کم نہ ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت ، اربابِ اختیار کی ذاتی اور خالصتاََ ذاتی ترجیحات ، میرٹ کو پاؤں تلے روند دینے کا عمل ، حد سے بڑھی ہوئی کرپشن اور انتظامی اخراجات کو بے دریغ بڑھایا جاناڈسکوز کی رُسوائی کے بڑے باعث ہیں۔ لیسکو اِس لحاظ سے اہمیت کی حامل کمپنی ہے کہ یہاں کے تمام تر معاملات حکمرانوں کی ذاتی نگرانی میں رہتے ہیں۔ کوئی شہری خدانخواستہ الیکٹروکیوٹ ہو جائے یا کمپنی کا کوئی ملازم فیٹل ایکسیڈنٹ کا شکار ہو جائے ، اس کی خبر فوراََ جاتی امرا پہنچ جاتی ہے۔ وزارتِ پانی و بجلی بھی لیسکو کو اس لیے فوکس کیے رکھتی ہے کہ یہ اربابِ اقتدار کے ایوانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس توجہ کو لائقِ تعزیر تو قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ شکست و ریخت پوائنٹ سکورنگ کے لیے نہ کی جائے بلکہ اس میں کمپنی اور عوام الناس کی فلاح وبہبود کو پیشِ نظر رکھا جانا چاہیئے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا جس کی بد ترین مثال ارشد رفیق کے ساتھ کیا جانے والا ناروا اور رُسوا کُن سلوک ہے۔ اس کی تذلیل سے کس کو کیا حاصل ہوا؟ اِس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایسا کرنے والے ، اپنے ضمیر کی عدالت میں جائیں۔ ایک اعلیٰ افسر ، جس کی ذہانت اورپیشہ وارانہ مہارت ہر شائبہ سے بالا تھی ، اُس کی تذلیل کی گئی ۔ تفتیشی ایجنسی جس نے اپنی تاریخ میں کبھی عزت نہیں کمائی، وہ اپنی تحقیر کے نقطۂ عروج پر پہنچی۔لیسکو کے درجۂ چہارم کے ملازم بھی یہ کہتے ہوئے سُنے گئے کہ ارشد رفیق صاحب پیسے دے کر جان کیوں نہیں چھڑاتے۔ صاحبانِ اقتدار کے حصے میں بھی نیک نامی نہ آئی کہ ہر با خبر یہ خبر رکھتا تھا کہ اس داستان کے پیچھے کوئی دوسری داستان تھی جو اصل داستان تھی۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹِو کی تذلیل نئے آنے والے کے اعصاب پر ایک بہت بڑا بوجھ ثابت ہوتی ہے۔کوئی تسلیم کرے یا نہ اِس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اِس سے کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ راقم نے راؤ ضمیر الدین سے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے چند روز بعد فون پر یہ دریافت کیا کہ کیا لیسکو کا قبلہ درست ہوگیا تو اُنھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ وہی بے ڈھنگی چال ، جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے۔ اُنھوں نے دبے لفظوں میں کچھ مشکلات کا بھی ذکر کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سربراہ ِ کمپنی کو فری ہینڈ نہیں دیا جاتا ۔اِس حقیقت کو تقویت لیسکو میں ایس ڈی اوز کی بھرتی کے موقع پر بھی ملی ۔ کس نے کیا کردار ادا کیا ؟یہ داستان خون کے آنسو رلاتی ہے۔ میرٹ پر وہی بھرتی ہوئے جو عدالت چلے گئے ۔

لیسکو کی قابلِ تعزیر بربادی کا سامان بڑھتے ہوئے انتظامی اخراجات بھی ہیں۔ یہ کمپنی جب ایریا الیکٹرسٹی بورڈ کہلاتی تھی تو اس کا سربراہ ایک چیف انجینئر ہوتا تھا۔ سکیل 18 کے صرف نصف درجن افسران اس چیف انجینئر اور چیئرمین ایریا بورڈ کے معاونین تھے۔اب نصف درجن تو صرف چیف انجینئر ہی ہیں اور ماتحتوں کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ یہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے بی پی ایس 18 کا ایک ایڈمن افسرہوتا تھا، وہاں اب کیا ہے؟ اِس کا جواب قارئین کو مجسمۂ حیرت بنانے کے لیے کافی ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ، ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز اور ان کے ماتحت ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی ایک لمبی فہرست ہے ۔جہاں ایک سپروائزر گاڑیوں کا نظم و نسق سنبھالا کرتا تھا وہاں ڈپٹی ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ آ گئے۔ جہاں ایک کلرک پریس کلپنگ کی فائل چیف انجینئر تک پہنچاتا تھا وہاں پبلک ریلیشنز آفیسر آ گئے۔ ایڈ منسٹریشن کے شعبہ کی بدنظمی کسی بھی دوسرے شعبہ سے کم نہ ہے اور یہ سب کچھ ڈی ۔جی ۔ایڈمن کے علم میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایڈمنسٹریشن کا سربراہ ایک ایڈمن افسر ہوتا تھا تب بھی اس شعبہ میں تین اسسٹنٹ کام کیا کرتے تھے اور آج درجن سے زائد اعلیٰ انتظامی افسران کے معاونین بھی صرف تین اسسٹنٹ ہی ہیں۔ ایڈمن افسران کی فوج ِ ظفر موج کیا کرتی ہے، کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اگر خبر ہے تو یہ ہے کہ گریڈ 19 کے ایک ڈائریکٹر کی جگہ پر کنٹریکٹ پر ڈائریکٹر ایچ آر حاصل کر کے اسے تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے۔چیف فنانشل آفیسر جو سابقہ ڈائریکٹر اکاؤنٹس کا جدید نام ہے ، گریڈ 19 کی آسامی تھی ۔ گریڈ 19 کی تنخواہ آج بھی ایک لاکھ روپے سے کم ہی رہتی ہے لیکن اس قوم کی بد قسمتی کہ اکاؤنٹس کے شعبہ میں اعلیٰ پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے لوگوں پر نا اہل اور ناتجربہ کار لوگوں کو سوار کرکے نہ صرف اُن کی کارکردگی کو تباہ کیا جا رہا ہے بل کہ صرف ڈائریکٹر کی ایک آسامی پر مختلف اوقات میں تین سے ساڑھے چار لاکھ روپے ماہانہ پر من پسند لوگوں کے ساتھ کنٹریکٹ کیے گئے ۔ راقم مکمل ذمہ داری سے اپنے قارئین کو یہ اطلاع دے رہا ہے کہ لیسکو کے ایڈمن کے شعبہ کی سربراہی آج بھی اگر ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو دے دی جائے تو کارکردگی میں رتی بھر فرق نہیں آئے گا البتہ کمپنی کو یوں ماہانہ لاکھوں روپے کے نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ اِسی طرح فنانس کنٹرول کی ذمہ داری اگر ساڑھے چار لاکھ روپے ماہانہ کے قلیل مدتی چیف فنانشل آفیسر کے بجائے گریڈ 19 کے ایک دیانت دار افسر کو دے دی جائے تو صرف ایک سیٹ سے ایک مالی سال میں پچاس لاکھ روپے خسارہ سے بچا جاسکتا ہے۔ اِس شعبہ میں مخلص اور محنتی کارکنوں اور افسروں کی ایک ٹیم پہلے ہی موجود ہے۔

بجلی چوری اور ریکوری میں افسران کی عدم دلچسپی اور مانیٹرنگ کا فرسودہ اور کِرم خوردہ طریقِ کار بھی لیسکو کی رُسوائی کا ایک اہم باعث ہے۔ پھر اِس کے نتائج سے بچنے کے لیے فیلڈ افسران جو حربہ استعمال کرتے ہیں وہ جہالت کا ایک شاہکار ہے اور اس کے بد اثرات نے بہت سوں کا کریکٹر خراب بھی کیاہے۔ میٹر ریڈر سے جبراََ اوور بلنگ کروائی جاتی ہے اور خود بھی کرتے ہیں۔ اِس ظلم کے نتیجے میں ملنے والی بد دعاؤں نے لیسکو کا حُلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ چہرے کی بدنمائی کا علاج یہ تلاش کرتے ہیں کہ آئینہ ہی نہ دیکھا جائے۔ لیسکو کی یہ بد نمائی اگر نیب کے علم نہیں ہے تو باعثِ افسوس ہے اور اگر نیب نے آنکھیں موند رکھی ہیں تو زیادہ خوفناک ہے۔ شاید نیب اِس حقیقت کو فراموش کرچکا ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ (پلانٹ) کے جون 2015 ء کے سروے کے مطابق صرف 30 فیصد پاکستانی نیب پر اعتماد کرتے ہیں۔پلڈاٹ کی اگلی بات سے عدم اعتمادی کی زیادہ بو آ رہی ہے ۔ وہ کہتا ہے :
" The NAB became politicized. Inquiries were stifled and put on ice for political and other reasons".

اس کے بعد کے ایک بڑے سیاسی سکینڈل اور حکومتی بلیک میلنگ میں جس طرح نیب کو پسپائی پر مجبور کیا ، اُس سے 30 فیصد اعتماد والی بات بھی شاید اب درست نہیں ہوگی ۔ ضرورت اِ س امر کی ہے کہ نیب قومی اِداروں کی بربادی اور ان پر ناروا مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت سے اپنے روابط کو تیز اور مضبوط کرے۔
Asghar Ali Javed
About the Author: Asghar Ali Javed Read More Articles by Asghar Ali Javed: 19 Articles with 22647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.