حساس قومی امور پر مخالفانہ سیاست کوترجیح دینا!
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
عمران خان کشمیر کی سنگین صورتحال اور بھارتی جارحیت کے خطرات کی صورتحال میں پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے ،انہی حساس و اہم ترین قومی امور پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے،عناد و ہٹ دھرمی پر مبنی سیاسی مخالفت کو قومی امور و مسائل پر ترجیح دے رہے ہیں ۔یوں عمران خان کا یہ بیان بھی کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت کی صورتحال میں تمام ملک کے ساتھ ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا یہ طرز عمل اور طرز سیاست نہایت افسوسناک ہے۔کشمیری قابض بھارتی فوج کے خلاف دلیرانہ طور پر بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں اور آزادی کا مطالبہ اور جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہیں۔دنیا میں کشمیریوں کا پاکستان کے علاوہ اور کوئی بھی حامی اور مددگار نہیں ہے اور پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی اولین ترجیح قرار دینے سے ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔اس صورتحال میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے اقتدار کی سیاست کو کشمیر کاز پر حاوی کرناقابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ یعنی چیئر مین تحریک انصاف کی نظر میں ملک کے اندرونی مسائل اور امور پر مسئلہ کشمیر کو قربان کر نا ضروری ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف اگر اسی انداز میں ملک و عوام کے وسیع تر مفادات کے منافی منفی سیاست کا مظاہرہ کرتے رہے تو پاکستان کے عوام انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیں گے۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے ملکی اقتدار کی منفی سیاست کو کشمیر کاز ،مسئلہ کشمیر پر فوقیت دینے کے بیان سے کشمیریوں کو دلی دکھ ہوا ہے ۔ |
|
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مسئلہ
کشمیر اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس
کے بائیکاٹ کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ وزیرعظم خود کو پاناما سے بچانے کے
لئے کشمیرایشو کو استعمال کررہے ہیںپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کوئی نئی
چیز نہیں آئے گی مسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت پر اکٹھے ہیں۔پاکستانی عوام
نے پہلے یہ دیکھا کہ جب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا مطالبہ کرنے والے عوام
کے مظاہروں پر بھارتی فوج کے حملے جاری ہیں،سینکڑوں کشمیری ہلاک ،ہزاروں
زخمی ،سینکڑوں آنکھوں کی بینائی سے محروم،ہزاروں قید،تمام وادی کشمیر
بھارتی فوج کی وحشیانہ اور انسانیت سوز کاروائیاں جاری ہیں،کشمیر کے مسئلے
پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی سی صورتحال درپیش ہے اور دوسری طرف
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے لئے سب سے ضروری کام وزیر اعظم نواز شریف
کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ملک کو دریش خطرناک صورتحال میں رائے ونڈ میں جلسے پر
بھی سنجیدہ حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔عمران خان کی طرف سے یہ کہنے
میں کوئی وزن نہیں ہے کہ ''مسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت پر اکٹھے
ہیں''۔عمران خان کشمیر کی سنگین صورتحال اور بھارتی جارحیت کے خطرات کی
صورتحال میں پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے ،انہی
حساس و اہم ترین قومی امور پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے،عناد و
ہٹ دھرمی پر مبنی سیاسی مخالفت کو قومی امور و مسائل پر ترجیح دے رہے ہیں
۔یوں عمران خان کا یہ بیان بھی کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے کہ وہ مسئلہ
کشمیراوربھارتی جارحیت کی صورتحال میں تمام ملک کے ساتھ ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا یہ طرز عمل اور طرز سیاست نہایت افسوسناک
ہے۔کشمیری قابض بھارتی فوج کے خلاف دلیرانہ طور پر بے مثال قربانیاں دے رہے
ہیں اور آزادی کا مطالبہ اور جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہیں۔دنیا میں کشمیریوں
کا پاکستان کے علاوہ اور کوئی بھی حامی اور مددگار نہیں ہے اور پاکستان کی
طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی اولین ترجیح قرار دینے سے ہی مسئلہ کشمیر
کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔اس صورتحال میں چیئرمین تحریک انصاف عمران
خان کی طرف سے اقتدار کی سیاست کو کشمیر کاز پر حاوی کرناقابل افسوس ہی
نہیں قابل مذمت بھی ہے۔کیا چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اس بات کا
احساس نہیں کہ انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ '' وزیرعظم خود کو پاناما سے بچانے
کے لئے کشمیرایشو کو استعمال کررہے ہیں'' ، کشمیر کاز کو کتنا نقصان
پہنچانے کی کوشش کی ہے؟ یعنی چیئر مین تحریک انصاف کی نظر میں ملک کے
اندرونی مسائل اور امور پر مسئلہ کشمیر کو قربان کر نا ضروری ہے۔ چیئرمین
تحریک انصاف اگر اسی انداز میں ملک و عوام کے وسیع تر مفادات کے منافی منفی
سیاست کا مظاہرہ کرتے رہے تو پاکستان کے عوام انہیں مکمل طور پر مسترد کر
دیں گے۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے ملکی اقتدار کی منفی سیاست
کو کشمیر کاز ،مسئلہ کشمیر پر فوقیت دینے کے بیان سے کشمیریوں کو دلی دکھ
ہوا ہے ۔
لندن میں مقیم کشمیری رہنمانزیراحمد شال نے اسی حوالے سے اپنا ردعمل دیا
کہ'' پارلیمنٹ کے اجلاس سے دور رہتے ہوئے عمران خان 'سولو فلائٹ' کر رہے
ہیں،اس نادان انداز سے کشمیر کے مصائب زدہ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے
جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے،تاریخ کے اہم لمحات میں ناقابل تقسیم اکائی بننے
کے لئے خود تخریبی سوچ سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔آپ اپنے فیصلے میں ناکام
رہے ہیں اور امید ہے کہ آپ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے ''۔سوشل میڈیا پر میری
تحریر پر ''پی ٹی آئی'' کے چند حامیوں کی طرف سے الزامات کے ساتھ مخالفانہ
طرز عمل اپنایا گیا۔دلیل سے بات کم اور جذبات سے زیادہ بات کی۔اس پر میری
طرف سے یہی جواب دیا گیا کہعمران خان تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ
ہیں،انہیں منفی اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل نہیں اپنانا چاہئے۔چلیں مان
لیتے ہیں کہ وزیر اعظم نوازشریف نے کشمیر کے لئے کچھ نہیں کیا،عمران خان
عوام کی رہنمائی کریں کہ وزیر اعظم کو کشمیر کے لئے کیا کیا کرنا چاہئے اور
اس معاملے کو اٹھائیں ،لیکن '' کتنے ناداں ہیں کہ کس سے کیا چاہتے ہیں''۔
آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ عمران خان کے طرز عمل پر تنقید نواز شریف کی حمایت
ہے؟ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ ایسا نہیں ہے۔پانامہ کیا ہر کرپٹ کو دہشت
گردوں کی طرح کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے
نام پر خاندانی ،شخصی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپ قائم ہیں ۔پاکستان کو
درپیش دیرینہ خرابیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔شاید آپ کو اس بات کو احساس
نہیں کہ آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ
کیا کر رہی ہے۔ہماری تو کوشش ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کی کوششوں کو
اپنا اولین اہم ترین معاملہ قرار دے ،لیکن بعض لوگ ملک کے اندر سیاسی جنگوں
کے ذریعے عوام میں تقسیم کو مزید ہوا دیئے جانے کو زیادہ اہم تصور کرتے
ہیں۔تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہرے ہیںیا تفریحی اجتماع ؟ احتجاج کرنے کا
طریقہ سیکھنا ہے تو کشمیریوں سے سیکھو۔یہ کشمیر ،کشمیریوں کی آواز ہے،اور
یہ رائے،ردعمل پاکستان کی سیاست کے حوالے سے نہیںبلکہ کشمیر کاز کے حوالے
سے ہے اور آپ کو جائز تنقید بھی بری،ناقابل برداشت معلوم ہو تو بھی آپ کو
حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا۔ |
|