بھارت اور کشمیر ، سینٹ میں منظورشدہ پالیسی نکات!

موجودہ صورتحال میں اس بات کی ضرورت اشد معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مضبوطی سے ''سٹینڈ'' لے،اپنی پالیسی سے اقوام عالم پر یہ واضح کیا جائے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے لئے کیا کیا مضبوط اقدامات اٹھا سکتا ہے۔پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح قرار دینے سے ہی اقوام عالم مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔اسے وقت کہ جب بھارت نہتے کشمیریوں کے خلاف فوج کشی میں مصروف ہے،پاکستان کے خلاف جنگی ماحول کا دبائو ڈال رہا ہے،ایسے وقت میں ہمیںبھارت سے متعلق مضبوط پالیسی اپنانے اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے،اس وقت کمزوری اور بھارتی شرائط پر مفاہمت کے رجحان سے گریز کرنا چاہئے۔
بھارت کے پاکستان کے خلاف مذموم عزائم اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایوان بالا سینٹ نے پارلیمنٹ کمیٹی کی پالیسی گائیڈ لائنز کے 22 نکات کی منظوری سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ ان اہم امور کے بارے میںپاکستان کی پالیسیاں بہتر،خامیوں ِخرابیوں سے مبرا اور موثر نہیں ہیں۔ان پارلیمانی سرگرمیوں سے اس حقیقت کا اعتراف بھی سامنے آیا ہے کہ ملک کے خارجہ اور دفاعی امور میں پارلیمنٹ ''کمانڈنگ پوزیشن '' میں نہیں ہے۔سینیٹ میں منظور کی جانے والی پالیسی گائیڈ لائنز کے نکات میں کئی ایسے کئی اہم امور شامل ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے کشمیر کاز کا حقیقی طور پر بھلا کرتے ہوئے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لایاجا سکتا ہے۔تاہم اس پارلیمانی رپورٹ میں ایسے نکات بھی شامل ہیں جن سے ارکان پارلیمنٹ کی بھارتی ذہنیت سے لاعلمی اور اہلیت کو بہتر بنانے کی ضرورت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
سینیٹ میں منظور کی جانے والی پالیسی گائیڈ لائنز کے نکات میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ بھارت اور کشمیر سے متعلق ایک پائیدار اور قابل عمل پالیسی کی تیاری کیلئے ٹاسک فورس بنائی جائے اور وزارت خارجہ، چیدہ چیدہ صحافیوں، وزارت اطلاعات، پارلیمنٹ اور انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک میڈیا کوآرڈی نیشن کمیٹی قائم کی جائے جو کشمیر کی تحریک آزادی کو اجاگر کرنے اور بھارت کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ حقائق پر مبنی رپورٹس تیار کرے۔ سینٹ سے منظور شدہ نکات میںقومی سلامتی اور خارجہ امور کی نگرانی پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے،پارلیمنٹ کی مشاورت سے قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل نو،حکومت کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پالیسی گائیڈ لائنز لینے، ادارہ جاتی مشا ور تی طریقہ کار مرتب کرنے،سندھ طاس معاہدے پر واضح موقف اختیار کرنے ،اس معاملے پر بھارتی کردار کو سامنے لانے،پاکستان کی سرزمین غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے،دنیا کو اس معاملے میں یقین دہانی کرانے،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو متحرک کرنے،بین الاقوامی سطح پر لابنگ کی خدمات حاصل کرنے، دفتر خارجہ میں پالیسی ڈپلومیسی آفس کے قیام،غیر ملکی میڈیا کے لئے باقاعدگی کے ساتھ خصوصی بریفنگز کے اہتمام،مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال،کشمیر سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے انتظام، بالخصوص ہمسایہ ممالک، سارک ممالک اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبران میں پاکستان کو تنہا کرنے اور اس کا مورال کمزور کرنے کے بھارت کے اقدامات کے توڑکے امور بیان کئے گئے ہیں۔منظور شدہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کی سیاسی قیاد ت کی طرف سے کنٹرول لائن کے ساتھ امن برقرار رکھنے کے لئے طے شدہ طریقہ کار کا احترام کیا جائے،بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندی اور اس کی پاکستان دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے بھارتی رائے عامہ کے طبقات بشمول سیاسی جماعتوں، میڈیا، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں تک جامع رسائی حاصل کرنے کے امور کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیک چینل مذاکرات کی افادیت اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بحال کیا جانا چاہیے اور دوطرفہ اور جموں و کشمیر سے متعلق اعتماد سازی کے اقدا ما ت بحال کرنے اور انہیں وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

کشمیر سے متعلق پائیدار اور قابل عمل پالیسی بنانے اور کشمیر کاز کواجاگر کرنے اور بھارتی پروپیگنڈے کے موثر جواب اور حقائق پر مبنی رپورٹس کی تیاری کے لئے میڈیا کوآرڈینیشن کمیٹی کے قیام اور اس کی ہیت بلاشبہ بنیادی اہمیت کے حامل ناگزیر امور ہیں۔کمیٹی کی سینٹ سے منظور شدہ سفارشات میں لائین آف کنٹرول کی تقدیس کی بات کمزوری کا تاثر لئے نظر آتی ہے۔پارلیمنٹ کی ان سفارشات کے نکات میں یہ بات شامل کرنا کہ'' مودی کی پاکستان دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے بھارتی رائے عامہ کے طبقات بشمول سیاسی جماعتوں، میڈیا، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں تک جامع رسائی '' کی بات سے ارکان پارلیمنٹ کی بھارت سے متعلق سمجھ بوجھ میں کمی ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے موافق حلقوں سے رابطوں کی صورت وہ بھارتی حلقے خود بھارت میں اپنی قبولیت اور ساکھ سے محروم ہو جائیں کے کہ ان کے رابطے پاکستان سے ہیں۔بھارت کے معتدل حلقوں سے دوررہتے ہوئے ہی مزکورہ بھارتی حلقوں کی بات بھارت میں قبولیت حاصل کر سکتی ہے۔اگر ارکان پارلیمنٹ کو بھارتی،ہندو ذہنیت کا ادراک و احساس ہوتا تو وہ کبھی ایسی بات کو اپنی سفارشات کا حصہ نہ بناتے۔

قومی سلامتی اور خارجہ امور کی نگرانی پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کا معاملہ اہم ہے کیونکہ اس وقت تک کشمیر کاز سے متعلق تمام امورغیر سیاسی بنیادوں پر چلائے جا رہے ہیں جس سے کشمیر کاز کے علاوہ پاکستان کے مفادات کو بھی کئی بار شدید نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔بلاشبہ پالیسی بنانے اور چلانے میںپارلیمنٹ کی بالادستی ناگز یر ہے تاہم اس کے لئے ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت و قابلیت بہتر بنانے کے ساتھ پارلیمنٹ کے لئے کشمیریوںسے مشاورت کا سلسلہ شروع اور مشاورت کے عمل کو باقاعدہ شکل دینا بھی ضروری ہے۔کشمیر کاز ،کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی اور سفارتی حمایت کو غیر سیاسی بنیادوں پر ہی نہ چلایا جائے،کشمیر کاز سے متعلق سیاسی امور،سیاسی ذرائع سے ہی بروئے کار لائے جائیں۔پاکستان خود کو کشمیریوں کا وکیل کہتا ہے اور پاکستان کی پارلیمنٹ عوامی جذبات اور رائے کی عکاس ہے۔پارلیمنٹ نے بھارت اور کشمیر کاز کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر پالیسی بنانے سے متعلق جن سفارشات کی منظوری دی ہے،ان سفارشات کی روشنی میںبھارت اور کشمیر کاز سے متعلق پالیسی بناتے ہوئے اگر کشمیریوں کی مشاورت بھی شامل کی جائے تو کسی خرابی کا موجب نہ ہو گا،بلکہ کشمیری یقین دلاتے ہیں کہ ایسا کرنا کشمیر کاز ہی نہیں خود پاکستان کے بھی وسیع تر مفاد میں ہے۔کشمیریوں سے مشاورت،کشمیریوں کی اخلاقی،سیاسی ،سفارتی مدد کو خامیوں اور خرابیوں سے محفوظ بنانے، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے تعین سے متعلق مزید امور کی شمولیت سے پاکستان کی کشمیر پالیسی اوربھارت سے نمٹنے پر موثر طور پر پیش رفت کی جا سکتی ہے۔

موجودہ صورتحال میں اس بات کی ضرورت اشد معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مضبوطی سے ''سٹینڈ'' لے،اپنی پالیسی سے اقوام عالم پر یہ واضح کیا جائے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے لئے کیا کیا مضبوط اقدامات اٹھا سکتا ہے۔پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح قرار دینے سے ہی اقوام عالم مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔اسے وقت کہ جب بھارت نہتے کشمیریوں کے خلاف فوج کشی میں مصروف ہے،پاکستان کے خلاف جنگی ماحول کا دبائو ڈال رہا ہے،ایسے وقت میں ہمیںبھارت سے متعلق مضبوط پالیسی اپنانے اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے،اس وقت کمزوری اور بھارتی شرائط پر مفاہمت کے رجحان سے گریز کرنا چاہئے۔
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612427 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More