جاسٹا کا قانون اورآل سعود کا امتحان

بالاآخر امریکی ایوان نے نائن الیون جاسٹا ( انصاف برخلاف اسپانسرآف ٹیزازم ایکٹ )کے قانون کے خلاف امریکی صدر بارک اوبامہ کے ویٹو پاور کو مسترد کرتے ہوئے جاسٹا کو امریکی آئین کا حصہ بنا لیا ، قانون منظور ہوتے ہی پہلا مقدمہ بھی سعودی عرب کے خلاف ایک امریکی شہری خاتون اسٹیفی نے کردیا، مقدمے میں بتایا گیا کہ گیارہ ستمبر2001 میں اسٹیفی حاملہ تھیں، نائن الیون کے حملوں میں ان کے خاوند اور نیوی کمانڈر پیٹرک ڈن ہلاک ہوگیا تھا ، خاتون نے اپنی یتیم بیٹی کے نام پر بھی سعودی عرب کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا ہے ۔ سعودی عرب جاسٹا قانون کی منظوری سے قبل امریکی انتظامیہ کو انتباہ کرچکا تھا کہ اگر یہ قانون اس لئے منظور کیا جارہا ہے کہ نائن الیون کے مبینہ واقعے میں سعودی شہری ملوث ہیں تو کسی شہری کے ملوث ہونے کا مطلب کسی مملکت کی پالیسی نہیں ہوتی ۔ شاہ سلیمان نے واضح طور پر امریکہ کو پیغام دیا تھا کہ اگر جاسٹا کا قانون منظور ہوا تو وہ امریکہ میں اپنے اثاثے فروخت کردے گا، اس وقت امریکہ میں 750ارب ڈالرز سیکورٹی کی شکل میں امریکہ میں موجود ہیں ۔حواس باختہ امریکی صدر نے سعودی عرب کا ہنگامہ دورہ کیا اور سعودی فرما روا سے ملکر اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جاسٹا کا قانون منظور نہیں ہونے دیا جائے گا ، لیکن تمام تر یقین دہانیوں کے باوجودنائن الیون قانون جاسٹا امریکی ایوان سینٹ نے نہ صرف منظور کیا بلکہ امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر کی منت سماجت کو بھی مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر کے ویٹو پاورکو بھی دو تہائی کی اکثریت سے رد کردیا ۔ اب امریکہ کیلئے جاسٹا کا قانون خود سوہان روح بن چکا ہے کیونکہ اس قانون کی منظوری کے بعد سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوچکی ہے ۔ امریکہ کو دنیا میں واحد سپر پاور کا خبط سوار ہے، جس کے لئے اس نے ہر قسم کی پالیسیاں تخلیق کرکے امریکی عوام کو معاشی بحران ، بے روزگاری ، نسل پرستی اور عالمی نفرت سے بچانے کیلئے کوشش کی ، لیکن امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک چونکہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اس لئے وہ جو کہے گا ، وہی دنیا کو مانناہوگا ۔ اسی خبط میں امریکہ نے 19 افراد میں سے 15 افراد ، جو کہ سعودی شہرت رکھتے ہیں اور مبینہ طور پر نائن الیون کے واقعے میں ملوث بتلائے جاتے ہیں ، ہرجانے کیلئے امریکی ایوان نے جاسٹا کا قانون تخلیق کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ تین ہزارافراد جو اس حادثے میں ہلاک اورہزاروں زخمی ہوئے تھے اب وہ ہرجانے کی وصولی کیلئے قانونی چارہ جوئی کرسکیں گے ۔ لیکن وہ یہاں آکر بھول گئے کہ وہ کسی کمزور مسلم ملک کے خلاف یہ قانون منظور نہیں کرا رہے بلکہ ان کے سامنے سعودی عرب ہے ، جن کے سرمائے سے امریکہ کی معیشت چل رہی ہیں ۔ دیگرعرب ممالک نے بھی امریکہ کی جانب سے اس قانون کی منظوری پر سخت ردعمل ظاہر کیاہے اور اس قانون کو جانبدارنہ قرار دیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب امریکا پر کتنا معاشی دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔گو کہ سعودی حکمران تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر قانون منظور ہوا تو سعودی حکومت اپنے امریکہ میں رکھے اثاثے فروخت کردے گی۔ سعودی عرب مستقل طور امریکہ حمایت میں کئی مرتبہ مختلف مواقعوں پر امریکی انتظامیہ کی مدد کرچکا ہے ۔ خاص طور پر عراق کی جانب سے کویت پر حملے اور امریکہ کی جانب سے عراق پر حملے کی صورت سعودی حکومت نے امریکہ کا کھل کا ساتھ دیا ، لیکن شائد یہ بات امریکی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے اوپر احسان کرنے والوں کی قدر نہیں کرتا اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی آستین کا سانپ بن جاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی امریکی رویہ یہی رہا ۔ روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو خوب استعمال کیا ، لیکن جب روس کو شکست ہوئی اور وہ تربتر ہوگیا تو وہی مجاہدین امریکہ کی نظر میں انتہا پسند و دہشت گرد بن گئے ۔ عراقی صدر کو ایران کے خلاف استعمال کیا ، گیارہ سال لاکھوں انسان امریکی عزائم کی بھینٹ چڑھ گئے ، امریکی شہ پر صدام نے کویت پر چڑھائی کردی اور امریکہ کو موقع مل گیا اور اس نے صدام حسین کے خلاف اپنی سی آئی اے سے جھوٹی رپورٹ تیار کرکے عراق پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر حملہ کردیا اور عراق کی سرزمین کو انسانی خون سے لبریز کردیا۔ عراقی جنگ پر 200کھرب ڈالرز کے امریکی اخراجات آئے تھے، جس کو پورا کرنے کیلئے سعودی حکومت نے بھی بڑا حصہ ڈالا تھا ، اس بلاجواز جنگ پر برطانیہ نے تو باقاعدہ معافی بھی مانگ لی کہ عراق پر حملہ غلطی تھی اور امریکی رپورٹ غلط تھی۔لیکن اب بھی عراق سے امریکہ کی جانب سے مسلط کی جانے والی جنگ کا ہرجانہ وصول کیا جا رہا ہے ، کویت کو عراق اب تک مختلف ہرجانوں کی صورت میں 52ارب چالیس لاکھ ڈالر کی رقم ادا کرچکا ہے ، جو 10لاکھ سے زائد کویتی کمپینیوں ، شہریوں نے عراق پر مقدمات کی صورت میں دائر کئے تھے ۔ان ہرجانوں سے عراق کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ وہ ہرجانے کی آخری قسط 4ارب 60کروڑ ڈالرکی ادائیگی نہیں کرسکا تھا اور اس نے مہلت طلب کی تھی ۔ سلامتی کونسل نے عراق سے پہلے سالانہ25فیصد تیل کی آمدن برائے خواراک کے نام پر ہرجانہ وصول کیا ، بعد میں سالانہ 5فیصد کردیا گیا ۔عراق ایک سو بیس ارب ڈالر کے قرضوں میں ڈوب گیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ اور خانہ جنگی کے ممکنہ خاتمے کے بعد بھی عراق کو اپنی نئے سرے سے تعمیر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی طاقتوں اور اداروں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے اور مستقبل قریب میں بھی عراق میں معاشی ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ عراق کی تعمیر نو کے نوے فی صد ٹھیکے امریکی کمپنیوں اور باقی برطانوی اور کچھ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کو مل رہے ہیں جو مہنگا کام کرنے میں مشہور ہیں اور یوں لوٹ کھسوٹ کا در کھول دیا گیا۔ امریکہ نے اپنے مقاصد کے لئے ایران پر بھی پابندیاں لگائیں اور جب ایران سے اپنے مفادات کا حصول مقصود ہوا تو ، امریکہ کا جھنڈا ایران میں پھر ایک بار لہرانے لگا ۔ سعودی عرب نے عراق ، جنگ کے بڑے اخراجات برداشت کئے ،امریکا کو کرایئے کے فوجی کہا گیا ۔ لیکن اب امریکہ نے سعودی عرب سے حساب کتاب کرنے کیلئے کھاتہ کھول لیا ہے ، کیونکہ امریکہ کے نزدیک سعودی عرب سے زیادہ اسرائیل پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ، اس لئے اسرائیل کے تمام ناز نخروں کو برداشت کرتا ہے ، اس کے خلاف آنے والی تمام قرار دوں کو ویٹو کرتا ہے ۔ کیونکہ اسرائیل نے امریکی معیشت پر اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ۔ 750ارب ڈالرز صرف سعودی حکومت کے پاس سیکورٹی کی شکل میں موجود ہیں ، جبکہ سعودی کے حلیف ممالک جو جاسٹا قانون کے مخالف اور ایسے جانبدارنہ سمجھتے ہیں ، ان کے بھی اربوں ڈالرز امریکہ میں ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی حکومت کرتی کیا ہے۔کیاامریکہ کو تیل کی سپلائی بند کردے گی؟ اثاثے واپس لے لے گی ؟، عراق جنگ میں ہونے والے نقصانات کا ذمے دار امریکہ کو اس لئے قرار دیگی کیونکہ اس نے عراق میں کیمیاؤئی ہتھیاروں کی جھوٹی کہانی بنا کر عراق پر قبضہ کیا ، سعودی عرب کو امریکہ سے اس حوالے سے بات کرنا ہوگی کہ مسلم ممالک میں اس نے جھوٹی رپورٹس پرجارحیت کی ، افغانستان میں صرف ایک شخص اسامہ کیلئے 15سال سے جارحیت کررہا ہے ، لاکھوں افغان مہاجرین اپنے گھروں سے امریکہ کی وجہ سے دربدر ہیں ، اسامہ بن لادن کو جاں بحق کئے جانے کے بعد امریکہ کا پھر بھی افغانستان میں رہنا ، جارحیت ہے۔لاکھوں افغانی امریکی جارحیت کا شکار ہوچکے ہیں ، ڈرون حملوں میں سینکڑوں بے گناہ امریکی جارحیت کا دنیا بھر میں نشانہ بنے ہیں ، امریکی کی انتہا پسند تنطیمیں ایجنسیاں ، بلیک واٹر کی وجہ سے مسلم ممالک میں خانہ جنگیاں ہو رہی ہیں ، اس کے مالی و جانی نقصانات کا مدوا امریکہ کو کرنا ہوگا۔جاسٹا کا قانون اگر امریکہ نے امریکی عوام کے لئے ، اس لئے بنایا ہے کہ وہ سپر پاور ہونے کے خبط میں مبتلا تھا ، تو یہی خبط روس کو بھی تھا ، لیکن اس کا حشر بھی دنیا بھر نے دیکھا ۔ مسلم امہ شاہ سلیمان کے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش مند ہے کہ وہ امریکہ میں موجود اپنے تمام اثاثے ختم کردے ، متحدہ عرب امارات ، سمیت عرب ممالک امریکہ سے اپنے سرمایہ واپس لے لیں ۔امریکہ ایک ساہو کار بھنیسا ہے ، جو کسی بھی وقت کسی بھی ملک یا فرد کے اثاثے مجمند کرکے اس کے اثاثوں کے منافع کو بھی ہضم کرلیتا ہے اور کوئی اس کے خلاف عملی طور کچھ کر نہیں پاتا ، آج امریکی خاتون نے سعودی عرب کے خلاف مقدمہ کیا ہے ، کل باقی لوگ بھی کویت کی طرح مقدمات دائر کرنا شروع کردیں گے ۔ سعودی عرب و دیگر مسلم عرب ممالک کے اثاثوں کے منافعوں سے اپنا پیٹ بھرتا رہے گا۔کیونکہ عسکری کمزوری ہونے کی وجہ سے عرب ممالک کچھ نہیں کرسکیں گے۔اس لئے انھیں اپنے دونوں ہتھیار فوری استعمال کر لینے چاہیں، سب سے پہلے امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کردے ، اس کے ساتھ امریکہ سے تمام اثاثے واپس نکال لے ۔امریکہ کی اجارہ داری ختم کرنا ضروری ہے ، کیونکہ امریکہ عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744821 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.