پارٹی الیکشن اور شیر!

کون کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آزاد اور خود مختار نہیں؟ آزادی کی تازہ خبر ملاحظہ فرمائیے کہ کمیشن نے پاکستان کی حکمران جماعت کو انتخابی نشان الاٹ کرنے سے انکار کردیا ہے، وجہ اس انکار کی یہ ہوئی کہ کمیشن کے قواعدوضوابط کے مطابق ہر سیاسی جماعت دیگر امور کے علاوہ اپنی پارٹی کے اندر عہدیداروں کے انتخابات کے نتائج پیش کرنے کی پابند ہے، پارٹی کے اندر الیکشن کیسے ہوا، الیکشن کس کی نگرانی میں ہوا، اور کون لوگ عہدوں پر منتخب کئے گئے؟ الیکشن کمیشن کے اس انکار کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ضمنی الیکشن بہت قریب ہوتا تو ن لیگ کے امیدوار کو ’شیر‘ کے نشان سے محروم رہنا پڑتا۔ اگرچہ حکومتی پارٹی کے امیدوار کی شکست کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، مگر خیریت یوں بھی گزری کہ کوئی ضمنی الیکشن قریب بھی نہ تھا۔ الیکشن کمیشن کے یوں کباب میں ہڈی بننے کے بعد پارٹی قیادت اور قریبی مشیروں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی میں الیکشن کروا ہی لئے جائیں۔

ویسے تو یہ اپنی جمہوریت کا المیہ ہے، مگر دل کے خوش رکھنے کو اگر اسے جمہوریت کا حُسن بھی قرار دے لیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا، کہ پاکستان میں جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تو ستم ظریفی کی انتہا اس وقت بھی ہو جاتی ہے، جب فوجی حکمران بھی خود کو جمہوریت کے چمپیئن قرار دینے پر مُصر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کو دیکھ لیں، پارٹی کی ذاتی جاگیر یا وراثتی جائیداد سے زیادہ کی حیثیت نہیں۔ حکومتی پارٹی ایک شخص کے نام پر ہے، گویا وہ اس کا مالک ہے۔ پی پی کو دیکھ لیں، وراثت کی طرح ایک ہی خاندان میں تقسیم ہورہی ہے، پہلے وراثت بیٹی کو منتقل ہوئی، پھر معاملہ داماد کے ہاتھ میں چلا گیا اور اب سیاست میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نواسے کی ذات ہی تبدیل کردی گئی۔ تاہم پارٹی کا اندرونی معاملہ جانتے ہوئے اسے سب نے قبول کرلیا، مالکوں کی مرضی وہ اپنا جو بھی نام رکھیں۔ پی ٹی آئی میں پارٹی کے بانی ہی پارٹی کے سربراہ ہیں، مگر ان کے بغیر نہ پارٹی کی پوزیشن دکھائی دیتی ہے ،نہ اس میں کسی کی دلچسپی، اور نہ ہی ان کے ہوتے کسی اور کی مجال ہے کہ وہ چیئرمین بن کر دکھائے۔ اے این پی، جے یوآئی اور دیگر جماعتوں کا بھی یہی عالم ہے۔ ایم کیوایم کی چند روز قبل تک یہی کہانی تھی، اب بھی یار لوگوں کو یقین نہیں آرہا کہ پارٹی سے اس کے بانی کا نام مائینس کردیا گیا ہے۔ رہ سہہ کر جماعت اسلامی ہی ایک پارٹی بچتی ہے، جس کے اندر حقیقی جمہوریت ہے، یہ تلخ حقیقت مخالفین کو بھی تسلیم کرنا پڑتی ہے۔

حکومتی پارٹی کا تو کیا ہی کہنا کہ جس کا نام بھی ایک شخصیت کے نام پر ہے، گویا مسلم لیگ ن کی اگر ’’ن‘‘ ختم کردی جائے تو پارٹی کا وجود ہی نہیں رہتا۔ اگر مسلم لیگ ’ن‘ ہے تو پھر اس میں الیکشن کا کیا کام؟ اور اگر الیکشن کمیشن کے کہنے پر پارٹی میں الیکشن ہو بھی جائیں گے تو وہ محض کاغذی کارروائی ہوگی، کمیشن کی بلا سے کاغذی کارروائی ہو، یا حقیقی ، بس رپورٹ ہونی چاہیے، مجبوراً پارٹی نے رپورٹ تیار کرنے کا بندوبست شروع کردیا ہے، چندروز بعد ہی عاملہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے، جس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈالی گئی ’پھٹیِک‘ سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ تقریریں ہونگی، تھوڑی بہت سنی جائیں گی، زیادہ تر کہی جائیں گی، گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے طریقے زیر بحث لائے جائیں گے، الیکشن کی تاریخ مقرر ہو جائے گی، اور قوم کے سامنے یہ بڑی خبر بھی جلد ہی آجائے گی کہ جناب میاں محمد نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے، اسی طرح پنجاب میں بھی بہت ہی شفاف الیکشن کے نتیجہ میں جناب میاں محمد شہباز شریف صوبے کے صدر منتخب ہو گئے ہیں، بعد ازاں مبارکبادوں کے پیغامات ہونگے، خوشی اور شادمانی کی لہر پوری پارٹی میں دوڑ جائے گی اور قانونی ماہرین کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پیش کردی جائے گی، جس کے بعد وہ پارٹی مذکور کو شیر کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا پابند ہو جائے گا۔ اسی قسم کے پارٹی الیکشن کی وجہ سے ہی کسی پارٹی عہدیدار کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اپنے قائد کے بارے میں ایک جملہ بھی ادا کرسکے۔ اسی لئے اس قسم کے قائدین ملک کو اپنی پارٹی کے طریقے سے چلانے کے عادی ہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472484 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.