محمد فہیم شاکر، شیخوپورہ
ایک آدھ دن سے زیادہ پہلے کی بات نہیں ہے کہ جب فضا اچانک مکدر ہوئی
اورپاکستان اچانک ہی دنیا میں سفارتی سطح پہ تنہا ہونا شروع ہوگیا ارباب حل
و عقد سوچیں کہ اگر ہمارا وزیر خارجہ زمین پہ کہیں موجود ہوتا تو ایسا
ہوتا؟یقینا ہر گز نہیں، لیکن کیا کیجئے ہمارا ملک روئے زمین پہ یقینا واحد
ملک ہے کہ جہاں تمام نظام ہی لولا لنگڑا ہے یہی وجہ ہے جگ ہنسائی ہمارا
مقدر ٹھہری ہے۔کشمیر میں جاری ظلم و ستم پہ پاکستان نے جو موقف اختیار کیا
اس پہ کشمیری قیادت ہماری مشکور ہوئی اور دنیا پہ واضح ہوا کہ ہم کشمیر کی
خاطر آخر ی حدتک جا سکتے ہیں کیونکہ محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ کشمیر
پاکستان کی شہہ رگ ہے ۔لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ پاکستان کے اندر سے کچھ
ایسی آوازیں بلند ہوئیں کہ جو نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔
انہی معاملات پہ سوچتے سوچتے میں سوچ کے دھارے کے ساتھ بہتا بہت پیچھے چلا
گیا اور میری آنکھوں کے سامنے 1492ء کے واقعات گھومنے لگے کہ جب اندلس کے
مسلمانوں کی آخری جائے پناہ غرناطہ بھی ان سے چھن گئی،جب بوڑھوں اور جوانوں
پہ بخشش کی تمام راہیں مسدود کر دی گئیں اور جب مسلمانوں کو ملک بدر کرنے
سے قبل ان کے معصوم بچے ان سے چھین لئے گئے ، غرناطہ کو آگ کے شعلوں میں
لپٹا ہوا دیکھ کر میں سوچنے پہ مجبور ہوا کہ ان جوانوں کی تعداد کیا تھی جن
کو فریڈم فائیٹرز ہونے کی جرم میں آگ میں زندہ جلا دیا گیا، ان عورتوں کی
تعداد کیا تھی جنہیں درے مار کر ہلاک کیا گیا ان معصوم کلیوں کی تعداد کیا
تھی جنہیں بدترین اذیتیں دے کر قتل کیا گیا۔لیکن یہ کوئی غیر متوقع حادثہ
نہ تھاحالات انہیں مستقبل کے خطرات سے آگاہ کر چکے تھے کہ قرطبہ، اشبیلیہ
،طلیطلہ اور دوسرے مقامات چھن جانے اور غرناطہ میں مغلوب ہوجانے کے بعد
انہیں ظلم و استبداد کے اسی طوفان کا سامنا کرنا پڑے گاجو اندلس کے باقی
حصوں کے مسلمان دیکھ چکے تھے۔لیکن اس کے باوجود وہ اجتماعی خطرات کا سامنا
کرنے کیلئے ایک متحدہ محاذ نہ بنا سکے مجاہدین کے گروہ میدان میں آئے لیکن
ان کا عزم اس قوم کی تقدیر نہ بدل سکا جس کا اجتماعی کردار فنا ہو چکا تھا
ان جانبازوں کے لئے باہر کے دشمن کی نسبت گھر کے غدار کہیں زیادہ ناقابلِ
تسخیر ثابت ہوئے۔اور آج پاکستان کی حالت کو دیکھ لیجئے کتنے ہی غدار ہیں جو
اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔غرناطہ میں ہلال و صلیب کی جنگ محض ایک حکومت کا
دوسری حکومت یا ایک فوج کا دوسری فوج کے ساتھ تصادم نہ تھا بلکہ دو مختلف
قوموں ، دو مختلف نظریوں اور دو مختلف تہذیبوں کا تصادم تھا ۔اور آج
پاکستان اور ہندوستان کے مابین تصادم بھی دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ ہے،
محض شوق کی بنیاد پہ نہیں۔قسطلہ اور ارغوان کو جس مشترکہ خصوصیت نے منظم کر
دیا تھا وہ ان کی اسلام دشمنی تھی اندلس کے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے
کی نیت سے وہ یکجان ہو چکے تھے لیکن مسلمان ہر افق پہ تباہی و بربادی کی
تاریک گھٹائیں دیکھ کر بھی اپنے اجتماعی جذبہ دفاع کو بروئے کار نہ لا سکے
اور وہ یہ ثابت نہ کر سکے کہ اگر کفر ایک ہو چکا ہے تو تمام اسلام بھی ایک
ہے ان میں عربی ، بربری اور اندلسی کے اختلافات اس وقت بھی موجود تھے جب
دشمن ان کے دروازوں پہ دستک دے رہا تھا۔
آج کے حالات کو بھی دیکھ لیجئے مسلمانوں میں لسانی، نسلی و عصبیتی اختلافات
کو دانستہ ہوا دی جا رہی ہے تاکہ ان کی ہوّا اُکھڑی رہے اور یہ متحد نہ ہو
سکیں اور اگر کوئی ان کو متحد کرنے کی بات یا کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف
کفر سارا متحد ہوکر اپنے چیلے چانٹوں کے ہمراہ کیل کانٹے سے لیس ہوکر اپنے
پروُردہ اور تنخواہ داروں کی مدد سے ان کوششوں کو رائیگاں کر دیتا ہے
۔اندلس کے مسلمانوں کے انتشار کا نتیجہ یہ ہوا کہ آٹھ سو برس کی حکومت کے
بعد وہ عظیم قوم بے خانماں انسانوں کا گروہ بن کر رہ گئی اور آٹھ سو برس کی
حکومت کے بعد آج وہاں ایک بھی مسلمان دکھائی نہیں دیتا قرطبہ ، اشبیلیہ اور
غرناطہ کی مساجد تو وہاں موجود ہیں لیکن وہاں اذان دینے والی زبانیں ہمیشہ
کے لئے خاموش ہو چکی ہیں ۔اگر اہلِ پاکستان نے آج اس عفریت کو نکیل نہ ڈالی
تو خاکم بدہن اندلس جیسا حال ان کا بھی ہو سکتا ہے ۔مملکت خداداد وطن ِ
عزیز پاکستان میں اذان پہ پابندی کے ساتھ ساتھ مذہب پہ قدغن لگاتے کئی ایسے
قوانین کا پاس ہونا الارمنگ سیچویشن ہے ۔اور پھر میرے سامنے وہ مناظر بھی
آئے جب اندلس میں مسلمانوں کی آخری سلطنت غرناطہ کی تباہی کے بعد وہ عظیم
قوم بھی مٹ گئی جس کے غازیوں نے آٹھ صدیوں قبل جبل الطارق کے سامنے اپنی
کشتیاں جلا ڈالی تھیں میں کتنی ہی دیر ساحل پہ اترنے والے ان قافلوں کو
دیکھتا رہا جن کی راہوں کے گرد و غبار میں فرزندانِ اسلام کے ماضی کی
عظمتیں پوشیدہ تھیں ۔ آج پاکستانی قوم کے دفاع پہ مامور مسلح افواج کو
’’بیک فُٹ‘‘ پہ کھڑا کرنے کی کوششیں کہاں منتج ہوں گی،ذمہ داران کو سوچنا
ہوگا۔
قوموں کے عروج و زوال اچانک ہی شروع نہیں ہوجایاکرتے ان کے پیچھے بہت سے
عوامل کارفرما ہوتے ہیں وہی عوامل اندلس کے مسلمانوں کے زوال میں موجود تھے
اور ان عوامل کو پیداکرنے اور پھرپالنے کا کام چند ضمیر فروش مسلمانوں کے
ذریعے لیا گیا اور آج وہی تاریخ پھر سے دہرائی جا رہی ہے۔اندلس میں
مسلمانوں کی آٹھ صدیوں کی شان و شوکت اور اس کے بعد اس قوم کی نا اتفاقی کا
انجام میرے سامنے تھامیں اداس اور رنجیدہ گم صم سا بیٹھاسوچوں میں غرق تھا
گویا کہ کسی مسیحا کا منتظر ہوں میں نے ذرا ہوش سنبھالی تو میرے سامنے امت
مسلمہ کی کھوئی ہوئی شان و شوکت اور وہی عظمتیں لوٹانے والا مردمجاہد حافظ
سعید موجود تھا لیکن اسی حافظ سعید کے خلاف برسر اقتدار پارٹی کے ذمہ داران
کی طرف سے نازیبا بیانات کس طرف اشارہ کر رہے ہیں قوم کو اب سمجھ لینا
چاہئے، اس سے پہلے کہ یہ غیروں کے تنخواہ دار چند ٹکوں کے عوض اس پاکستانی
قوم کو بھارت کے ہاتھوں بیچ ہی نہ دیں، قوم ہوش کے ناخن لے۔حافظ سعید
کشمیریوں کیلئے ایک موثرآواز ہیں بھارت اس آواز کو دبانا چاہتا ہے اور اس
کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اور ایک پاکستانی حکومتی مشینری ہے کہ
اوروں کی ڈکٹیشن پہ اپنوں ہی کو پابند سلاسل کرنے پہ پھر سے تلی بیٹھی ہے
حالانکہ پاکستانی اعلی عدالتوں نے ہر اس معاملے پہ حافظ سعید کو بری قرار
دیا ہے جس پہ ہندوستان نے پاکستان کی طنابیں کھینچی ہیں ۔اور اب ایک مرتبہ
پھر ہندوستان نے پاکستان میں موجود اپنے ہمدردوں کے ذریعے حافظ سعید کو
سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی تیاری کی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان قوم
ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گی۔آج کے واقعات پاکستانی قوم سے اتحاد اور اتحاد
کے داعیان کے دفاع کے متقاضی ہیں اگر ہم آج بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے تو
وقت اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے ۔ |