ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں(عدم)
شاعر کو شاہوں کی عدالت سے کوئی توقع نہیں رہی لیکن گلگت بلتستان میں
’شاہوں ‘نے دھوم مچاکر رکھ دیا ہے گلگت بلتستان کے سینئر پارلیمنٹیرین اور
پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے سابق صدر سید جعفرشاہ نے پیپلزپارٹی سے
طویل رفاقت کو ایک جھٹکے میں ختم کرکے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو
دوسری جانب ’شاہ سلیم خان ‘ بھی خلاف توقع معرکہ ہنزہ کے فاتح قرار پائے
۔۔۔۔۔ دونوں واقعات نے میڈیا سمیت سوشل میڈیا کو ہلاکر رکھ دیا ۔۔۔۔
سید جعفرشاہ 11 سال تک پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صدر رہے پیپلزپارٹی کے
لئے جعفرشاہ کی قربانیاں بھی کم نہیں لیکن پیپلزپارٹی ان پر اس سے بھی بڑے
احسانات کئے اتنا طویل رفاقت توڑنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت کی خبر
نے گلگت بلتستان کے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرما دیا ہے پیپلزپارٹی اور
تحریک انصاف کے درمیان تیر و ترکش جاری ہے تو دوسری جانب حکمران جماعت کے
کارکنان ’انجوائے ‘ کررہے ہیں تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ مزید بڑے بڑے
ہیوی ویٹ تحریک انصاف میں شامل ہونگے جو اگلے انتخابات کے لئے روڈ میپ بن
جائیں گے ۔2015کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں کو ایک
ایک سیٹ ملی جبکہ اس کے بعد 2ضمنی انتخابات میں دونوں سیٹیں خاطر خواہ
کارکردگی نہیں دکھاسکیں۔۔۔۔
پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے لئے 2009میں ملنے والی حکومت میں بیڈگورننس کی
انتہا اور حافظ حفیظ الرحمن (موجودہ وزیراعلیٰ ) کی جانب سے اپوزیشن بلکہ
حقیقی اپوزیشن نے ان کے تابوت میں کیل ٹھونک کر رکھ دی ۔۔۔۔۔12دسمبر 2014کو
اپنے پانچ سال مکمل کرنے کے بعد پیپلزپارٹی کو گلگت بلتستان کے 24حلقوں سے
امیدوار نہ مل سکے اور حکمران پارٹی صرف 21امیدواروں کے ساتھ الیکشن لڑی
۔۔۔۔جن 3سیٹوں میں پیپلزپارٹی کو امیدوار نہ مل سکیں ان حلقوں میں 5سال
حکومت کے مزے لینے والے عہدیدار بھی تھے انہی حلقوں میں 1گانچھے کا حلقہ
بھی تھا جہاں پیپلزپارٹی حکومت کے دوران سینئر وزیر کے عہدے پر مراعات ،
پروٹوکول سمیت بھاری تنخواہ لیتے رہے سید مہدی ’شاہ ‘ کی کارکردگی کو مدنظر
رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کی تمام تنظیموں کو تحلیل کردیا گیا
۔۔۔۔۔
اس دوران پیپلزپارٹی گلگت بلتستان سیاسی یتیم بنی رہی بغیر صوبائی صدر کے
الیکشن میں اتری ۔۔۔۔ایک طرف عام انتخابات تھے دوسری طرف پارٹی انتخابات
تھے پیپلزپارٹی کے کارکنان بڑے تذبذب کا شکار رہے ۔۔۔۔ سینئر راہنما اس وقت
عام انتخابات سے زیادہ انٹرپارٹی انتخابات پر فوکس کررہے تھے ۔۔۔ اس دوران
سابق وزیراعلیٰ و امیدوار صوبائی صدارت سید مہدی ’شاہ‘ نے حیرت انگیز بیان
دیا تھا انہوں نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی کی
صوبائی صدارت محمد جعفر(جس نے 1حلقے سے امیدوار کھڑا نہ کرانے میں اپنا
کردار ادا کیا تھا )کو سونپ دی گئی تو مجھے قبول ہوگا لیکن اگر سید
جعفر’شاہ‘ کو سونپ دی گئی تو کسی صورت قبول نہیں کروں گااور اس کی وجوہات
وقت خود بتائے گا۔۔۔۔جنرل انتخابات 2015کے لئے سید جعفر’شاہ‘کو گلگت ڈویژن
کے لئے جبکہ سید مہدی ’شاہ‘کو بلتستان ڈویژن کے لئے کوآرڈینیٹر مقرر کردیا
۔۔۔دونوں رہنماؤں نے خوب محنت کی لیکن سید مہدی ’شاہ‘ اپنے ڈویژن سے ایک
نشست پیپلزپارٹی کو دینے میں کامیاب رہے جبکہ سید جعفر’شاہ‘اپنے ڈویژن سے
کوئی سیٹ نہیں دے سکے۔۔۔۔جبکہ پارٹی انتخابات میں امجد ایڈوکیٹ نے دیگر کے
مقابلے میں میدان مارلیا۔۔۔
اب کے تحریک انصاف کے سینئررہنما جسٹس(ر) سید جعفر’شاہ‘ نے یہ کہتے ہوئے
پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دیدیا کہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت سے اختلافات تھے
اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے سی پیک سمیت آئینی حقوق کے
لئے گلگت بلتستان کی نمائندگی اور جنگ لڑنے کا اعلان کیا جس پر تحریک انصاف
میں شامل ہوگیاہوں۔۔۔ تحریک انصاف کے لئے سید جعفر ’شاہ‘ کی وکٹ یقینا
قیمتی ہے اس میں گلا ب شاہ آصف کی بھرپور محنت نظر آرہی ہے اور یہ آنے والا
وقت بتائے گا کہ پیپلزپارٹی سے سید جعفر’شاہ‘ کا نکلنا فائدہ مند ہے یا
نقصاندہ۔۔۔۔مجھے زاتی طور پر سید جعفر’شاہ‘صاحب کے اس بیان پر حیرت رہی جو
انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے دیا تھا پیپلزپارٹی کی
یہی مرکزی قیادت تو اس وقت بھی تھی جس وقت آپ سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر
عدالت عظمیٰ کے جج بن گئے ۔۔۔ اس وقت بھی یہی قیادت تھی جس وقت آپ
کوآرڈینیٹر بن کر امیدواروں کی کیمپین چلارہے تھے ۔۔۔اور دوسرا جملہ کہ
عمران خان نے آئینی حقوق اور سی پیک میں حصہ کے لئے آواز اٹھانے کی یقین
دہانی کرائی ہے ۔۔۔۔یہ جملہ اور طریقہ انتہائی گھسا پٹھا جملہ ہے ماضی سے
اب تک گلگت بلتستان میں یہی آئینی حقوق کے نام سے حکومتیں کی گئی ہیں ’شاہ‘
صاحب کو چاہئے تھا کہ کسی نئے موضو ع کو تحریک انصاف میں شمولیت کی وجہ
قرار دیتے ۔۔۔اگر مسلم لیگ ن (نوازشریف ) اور پیپلزپارٹی ( بلاول بھٹو
زرداری ) سے بڑھ کر عمران خان نے گلگت بلتستان کے لئے آواز نہیں اٹھایا اور
کامیاب نہ ہوئے تو ’شاہ‘صاحب اپنا استعفیٰ لکھ کر دیں اسی وقت ’شاہ‘صاحب کی
موجودہ صداقت پر مہر لگے گا ورنہ عوام کو اب ان جملوں کی زیادہ ضرورت نہیں
رہی۔۔
دوسری جانب ’شاہ‘سلیم خان نے طرح طرح کے پروپیگنڈوں کے باوجود ہنزہ کے ضمنی
الیکشن میں نشست جیت لی۔۔۔یہ انتخابات روایتی انتخابات سے مکمل ہٹ کر تھے
اس سے قبل ہونے والے انتخابات میں پارٹیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا جبکہ
اس دفعہ شخصیات میں مقابلہ رہا ’شاہ‘سلیم خان پر الزامات بھی زاتی تھے اور
اس کا ووٹ بھی میری نظر میں بڑی حد تک زاتی رہا ۔۔۔ان انتخابات میں
’شاہ‘سلیم کے لئے اہم درپیش مسئلہ گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر (باپ ) اور
چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی قانون ساز اسمبلی رانی عتیقہ (والدہ )تھی ۔۔۔ہنزہ
کے عوام ایک گھر کو تیسری نشست دینے کے لئے تیار نہیں تھے ۔۔۔ان انتخابات
میں شاہ سلیم کا مقابلہ روایات سے ہٹ کر ایسے کنڈیڈیٹ سے تھا جو پہلے
اسماعیلی ریجنل کونسل کا صدر رہا بعد میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سروے کمیٹی
کی طرف سے پارٹی کے نامزد ہوگئے تاہم ٹکٹ نہیں مل سکا ۔۔۔۔۔گلگت بلتستان کے
مقامی اخبارات میں ’شاہ‘سلیم خان کے لئے جگہ نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ
مخالف امیدواران سرخیوں میں ہی تھے ۔۔۔۔’شاہ‘سلیم خان کی جیت کے بعد ہی
سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی کہ وزیراعلیٰ کی کرسی کا رخ حافظ
حفیظ الرحمن سے ہٹ کر ’شاہ‘ کی طرف ہوسکتا ہے ۔۔۔’شاہ‘سلیم خان نے پھر جیت
کے بعد فوری ایک انتہائی خطر ناک بیان داغ دیا کہ ’ہر قسم کے سازشوں کے
باوجود وزیراعظم کے تعاون سے کامیاب ہوا ،یہ نہیں بتاسکتاہوں کہ صوبائی
قیادت نے کتنا تعاون کیا،وزیراعلیٰ بننے کا فوری ارادہ نہیں ہے ۔مرکزی
حکومت کے تعاون سے اپنا کردار ادا کروں گا گلگت بلتستان میں ترقی کا پہیہ
جام ہوچکا ہے جسے چالو کرنے ضرورت ہے ۔۔۔موجودہ اسمبلی میں وزیراعلیٰ حافظ
حفیظ الرحمن ، ڈپٹی سپیکر جعفراﷲ خان کے علاوہ چند ایک ہی ایسے اراکین ہیں
جو مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی اور پارٹی سے الیکشن نہ لڑے ہوں۔۔موجودہ وزراء
میں ایک بھی وزیر عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوچکا ہے ۔۔۔ سی
پیک جیسے موضوع میں آج تک کسی وزیر کو حکومتی ترجمانی کرتے نہیں دیکھا۔۔۔
حتیٰ کہ امجد حسین ایڈوکیٹ کا ایک ہی بیان سارے وزراء پر سکتہ طاری کرتا ہے
۔۔۔۔ اگر اخبارات اور میڈیا کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پھر بھی کوئی بیان
جاری کرنا پڑا تو وزیرتعلیم بجلی پر بیان دیتا ہے ، وزیرتعمیرات بلدیاتی
نظام پر بیان دیتا ہے ، وزیر بلدیات تعلیمی اصلاحات اور سینئر وزیر یہ بیان
دیتا ہے کہ ’سی پیک ہمارا مستقبل ہے ‘۔یہ بیانات صرف ’جاری کردہ ‘ہیں
خطابات میں تو وزراء اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں ۔۔۔ایسے مایوس کن حالات میں
وزیراعلیٰ کو ’شاہ ‘سلیم خان جیسے نوجوان قیادت کی اشد ضرورت ہے اگر
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ’شاہ‘سلیم خان کو ’کچن کیبینیٹ ‘ کا رکن لیتے ہیں
تو میرے نزدیک نہ صرف پارٹی منظم ہوسکتی ہے بلکہ حکومتی امور میں بھی تیزی
آئے گی ۔ |