دو ماہ بعد آپ کی خدمت میں
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اپنی تحریرات پڑھنے والو ں سے آج میں دو
ماہ بعد مخاطب ہورہا ہوں۔شکر الحمد اﷲ میرے قلم نے دوبارہ چلنا شروع کیا۔
دو ماہ بغیر لکھے کیسے گزرے۔ اس کیفیت کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں۔ بسااوقات
کوئی معقول وجہ سامنے نہ ہوتے ہوئے بھی کسی کام کو کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
کچھ ایسی ہی کیفیت سے میں بھی دوچار رہا۔ اگست 16کو بابائے اردوڈاکٹر مولوی
عبدالحق کی 55ویں برسی کے موقع پر میرامضمون ’’پنچھی اڑ گیا پر ڈالی ابھی
تک جھول رہی ہے‘‘آن لائن ہوا تھا اس کے بعد میرے قلم کو ایسی چپ لگی کہ
پورے دوماہ اس نے باوجود کوشش کے چل کر نہیں دیا۔ البتہ اس دوران کوئی سوکے
قریب مضامین مجھے پڑھنا پڑے جو پاکستان کے حوالے سے مقابلے کے لیے لکھے گئے
تھے۔ یہ مقابلہ ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام منعقد کرایا گیا
تھاموضوع تھا ’میرا پاکستان کیسا ہو‘ ایک ہی موضوع پر سو مختلف لکھاریوں کی
تحریرات پڑھنا اوران کے معیار کا تعین کرنا کٹھن اور مشکل کام تھا۔ انصاف
کرنے کی بھر پور کوشش کی اب اس مقابلے کے نتائج کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔
تمام ہی لکھاریوں نے پاکستان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار انتہائی
خوبصورتی کے ساتھ اس طرح کیا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو پاکستان سے
محبت و عقیدت کا اظہار کرنے والے ہر لکھاری کو انعام کا مستحق قرار دے دیتا
لیکن مقابلہ تو پھر مقابلہ ہوتا ہے، کسی کو تو فوقیت دینا ہی پڑتی ہے۔ سو
ایسا ہی ہوا۔ اس مشقت میں کوئی ایک ماہ لگ گیا۔ وقت مقر ر تھا 6ستمبر کو
اعلان بھی کیا جانا تھا۔ اﷲ کے فضل سے یہ کام وقت مقررہ پر ہوگیا۔ کسی کی
حق تلفی ہوئی ہو تو اس کے لیے اﷲ مجھے معاف فرمائے۔ کوئی انفرادی طور پر یہ
محسوس کرتا ہو کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو اس سے بھی معافی کی
درخواست۔ ہر لکھنے والا جس نے اپنے قلم کے ذریعہ پاکستان سے اپنی دلی محبت
اور عقیدت کا اظہار کیا قابل مبارک باد اور ستائش کے قابل ہے۔ جی تو کرتا
ہے کہ ہر لکھاری کا نام لے کر اسے خراج تحسین پیش کروں لیکن مجبوریا ں ہیں
، انشاء اﷲ ان تمام مضامین کی ایک’ ای بک‘ تشکیل دینے کی کوشش کی جائے
گی۔ابتدئی کام شروع کردیا گیا ہے۔ ای بک کاعنوان ’’میرا پاکستان کیسا ہو؟
ہماری ویب رائیٹرز کلب کے لکھاریوں کی نظر میں‘‘۔اگر کسی لکھاری نے مضمون
لکھا ہو ، کسی وجہ سے مقابلہ میں شرکت نہ کی جاسکی ہو تو وہ اپنا مضمون اب
بھی بھیج سکتے ہیں اس مضمون کوای بک میں شامل کرلیا جائے گا۔
اب آتا ہوں قلم کی خاموشی کی جانب ۔اس کی وجہ ڈھیروں مضامین کا پڑھنا تھا،
اس مشقت سے تھکن کا غلبہ طاری رہا، اس دوران بے شمار موضوعات اور طرح طرح
کے مسائل و معاملات سامنے آئے ، ایک کالم سندھ کے بڑے سائیں سید قائم علی
شاہ کی رخصتی پر لکھا تھا عنوان تھا ’’الودعٰ بڑے سائیں۔تبدیلی ضروری تھی‘‘
خیال تھا کہ ایک کالم میں نئے سائیں قبلہ سید مراد علی شاہ کو خوش آمدید
کہوں گا، یہ اس اعتبار سے بھی منفرد اور ممتاز ہیں کہ ان کے والد بزرگوار
قبلہ سید عبد اﷲ شاہ مرحوم بھی سندھ کے بڑے سائیں کچھ عرصہ رہ چکے ہیں۔
کراچی کی قدیم بستی لیاری سید عبداﷲ شاہ کی پسندیدہ جگہ تھی ان کے رات دن
اسی علاقے میں بسر ہوا کرتے تھے اور ہمیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ ہم لیاری کے
ہی مکین تھے اور لیاری میں واقع عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں خدمات انجام
دے رہے تھے۔ اس کالج میں میری علمی خدمات 23 سالوں پر محیط ہیں۔ یہ دور
حکمرانی تھا بے نظیر بھٹو شہید کا۔ ہم نے سید عبد اﷲ شاہ کو دیکھا، سنا اور
سندھ پر حکمرانی کے جوہر بھی دیکھے اور اب ان کے بیٹے کی حکمرانی کو بھی
دیکھنے کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ مختصر یہ کہ قبلہ مراد علی شاہ کو خوش آمدید
کہنے کی خواہش پوری نہ ہوئی اب بات پرانی ہوچکی ہے ، ہماری نیک تمنائیں ،
خواہشات اور کامیابی کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ علامہ آصف علی زرداری نے
انہیں لائن میں پیچھے سے سندھ کے بڑے بڑے لیڈروں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
یہ ان کی قسمت ہے۔ جوان ہیں، جوشیلے ہیں، جیالے ہیں، پارٹی سے محبت کا جذبہ
موجود ہے، وفادار ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، مثبت سوچ رکھتے ہیں ، سندھ
اور سندھ کے عوام بشمول شہری علاقوں کے عوام کے لیے بہتر کر نے کی سوچ اور
خواہش رکھتے ہیں۔ اﷲ انہیں ان کے نیک مقصد میں کامیاب کرے ، جو لائن میں ان
سے بہت آگے تھے وہ وہیں کھڑے رہ گئے اﷲ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے ، مستقبل
قریب میں انہیں بھی اسی اعزاز سے نوازے۔
’پاناما لیکس‘ نے میاں صاحب کے مخالفین کو متحرک کیا ہوا ہے عمران خان
پاناما لیک سے کچھ زیادہ ہی مقاصد حاصل کرنے کی امید سے ہیں۔ البتہ قبلہ
زرداری صاحب میاں صاحب کی کرسی کا ایک ڈنڈا پکڑ کر انہیں پریشانی میں تو
مبتلا کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا دھڑن تختہ نہیں چاہتے۔ یعنی جمہوریت کو ڈے
ریل کرنے کے حق میں نہیں۔ اس وقت عمران خان تنہائی کا شکار نظر آرہے ہیں ،
لیکن سیاست لمحوں میں نئے رخ اختیار کرلیتی ہے، ابھی 30 اکتوبر میں پندرہ
دن باقی ہیں، نہیں معلوم کون کون اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتا ہے، ڈاکٹر
طاہر القادری صاحب ملک سے باہر ہیں ، انہیں رام کرنے کی کوششیں نظر آرہی
ہیں، کچھ اور بھی اسمبلی سے مستعفی ہونے کی باتیں کررہے ہیں۔ کپتان پاناما
کے حوالے سے میاں صاحب کو مستعفی ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں ہر
جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے ہمسائے دشمن
کی جانب سے سرحدوں پرجو صورت حال ہے، جس قسم کے پاکستان مخالف بیانات مودی
اور اس کے ہمنوا دے رہے ہیں اس صورت حال میں کپتان کی جانب سے میاں صاحب کا
رخصت ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ دیکھیں اس بار کپتان کامیاب ہوتے ہیں یا پھر
سابقہ دھرنوں کی طرح اپنے حامیوں کو شرمندہ اور افسردہ کرکے ہیٹرک کی جانب
رواں دواں ہوجاتے ہیں۔
انہی دو ماہ کے دوران سندھ شہری علاقوں کی سیاسی جماعت کے سربراہ نے عجیب و
غریب ، مضحکہ خیز صورت حال پیش کردی جس سے ان کے اپنے مشکل میں آگئے ۔ جس
قوم کے باپ دادا نے اپنا سب کچھ قربان کر کے پاکستان کے قیام میں اہم کردار
ادا کیا ہو ، وہ خود یا ان کی اولاد پاکستان کے بارے میں وہ الفاظ جو اس
سیاسی جماعت کے قائد نے کہے کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی۔جو الفاظ کہے گئے
انہیں زبان پر لاتے ہوئے ، قلم کے توسط سے قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے نہ دل
، نہ دماغ اور نہ ظمیر اس بات کی اجازت دے رہا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل
ہے کہ فلاں فلاں نے پاکستان کے خلاف بات کی ان کے خلاف کچھ نہ ہوا، بہت خوب
قائدِ محترم کوئی غلط کام کرے تو ہم بھی کریں، کوئی گالی دے تو ہم بھی دیں،
اس منطق اوردلیل میں کوئی وزن نہیں۔پاکستان تا ابد ’زندہ باد‘ رہے گا۔ اس
کو بری آنکھ سے دیکھنے والے، اس کے لیے غلط الفاظ ادا کرنے والے دنیا میں
ہی رسوا ہوں گے، نا کام ہوں گے، نامراد رہیں گے۔پاکستان کی 59تاریخ پر نظر
ڈالیں تو بہت سے چہرے ایسے نظر آتے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے لیے اسی قسم
کے بیہودہ الفاظ استعمال کیے۔ انہیں اس دنیا سے گئے سالوں ہوچکے قوم انہیں
کس نام سے یاد کرتی ہے ؟ ان کا ذکر کن الفاظ سے ہوتا ہے۔ سب کچھ برداشت کیا
جاسکتا ہے پر اپنی دھرتی ماں کے لیے گالی ہر گز باداشت نہیں کی جاسکتی۔
برائی پھر برائی ہے، اس کی پیروی ، اس کی نقالی با شعور لوگوں کو، اہل علم
کو، تہذیب یافتہ قوم کو کسی صورت زیب نہیں دیتی۔
ایم کیو ایم کے بطن سے حقیقی تو پہلے ہی جنم لے چکی تھی، اس سال پاک سرزمین
پارٹی جس کے بنانے والے کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی جماعت پاکستان کی سطح کی
جماعت ہے لیکن گروپ کے قائدین کی گفتگو کا محور و منبع ایم کیو ایم کے قائد
ہی رہے ہیں۔ یہ اگر ایک الگ سیاسی جماعت بھی ہے تو اس نے ایم کیو ایم کی
کوکھ سے ہی جنم لیا ہے۔ ایم کیوایم ابھی حقیقی اور کمال و انیس کے تیر نشتر
کی زد میں تھی کہ اس کے اپنے قائد نے ازخود’مائینس ون‘ کا فارمولا پیش
کردیا اور اپنے ہی عمل سے اپنے آپ کو مائینس ون کر لیا۔ اب یہ جماعت دو
واضح دھڑوں ایم کیو ایم پاکستان جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار نے سنبھالی
اور دوسری ندیم نصرت کی سرپرستی اور قائد تحریک کی رہنمائی میں ایم کیو ایم
(لندن) کی صورت میں دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے، یہ
وقت ہی بتائے گا کون حق پر ہے کون غلط ہے۔ وقت ہی اسے ثابت کرے گا۔ لیکن یہ
عمل اس جماعت کے لیے، جماعت کے رہنماؤں کے لیے، اس جماعت کے کارکنوں کے
لیے، اس جماعت کو جو ایک مخصوص قوم اپنا مسیحا سمجھتی رہی تھی اس کے لیے ہر
گز ہر گز اچھا نہیں ہوا اور نہ ہورہا ہے۔ویسے تو پاکستان میں سیاسی جماعتوں
میں ٹوٹ پھوٹ کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں، جس کسی کو کچھ شہرت حاصل ہوئی
اس نے الگ جماعت بنا لی، پاکستان میں کون سی سیاسی جماعت ایسی ہے جس کے حصے
بکرے نہیں ہوئے۔ بڑی بڑی منظم جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوچکی ہیں۔ مسلم
لیگ کے کتنے دھڑے ہوئے اور آج بھی ہیں، جماعتِ اسلامی جو بہت ہی منظم جماعت
ہے اس میں اختلافات ہوئے اوربڑی بڑی شخصیات نے اپنی اپنی الگ تنظیمیں
بنائیں، پاکستان پیپلز پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی، اس کے کئی دھڑے ہوئے،
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک کا سربراہ بیٹا
تو دوسرے دھڑے کی سربراہ ماں ہے۔جو اے این پی (ولی) کے نام سے میدان سیاست
میں ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام کئی کئی دھڑوں میں منقسم
ہیں۔یہی نہیں تحریک انصاف میں بھی دھڑوں کے قیام کی آوازیں اٹھنا شروع
ہوگئی ہیں۔ سیاست کی کل ٹیرھی ہوتی ہے، کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے
دشمن کل کے دوست بن جاتے ہیں ، یہ سیاست داں قابل اعتبار اور قابل بھروسہ
نہیں ہوا کرتے ، ان کا کوئی پتہ نہیں کہ یہ کسی وقت کیا چیز پیش کر دیں اور
اپنے چاہنے والوں کو مشکل میں ڈال دیں۔ |
|