چوہوں کا تھنک ٹینک۔
(Talib Hussain Bhatti, Vehari)
مغربی ملکوں کے حکمران ہمارے حکمرانوں جیسے
مادر پدر آزاد نہیں ہوتے۔بلکہ وہ حضرت عمر کی طرح اپنی قوم کے سامنے جواب
دہ ہوتے ہیں۔ اپنی عدالتوں کا احترام کرتے ، ان کےفیصلے مانتے اور ان پر
عمل کرتے ہیں۔اور اپنے ملک کے کالم نویسوں، دانشوروں،مخلص لوگوں اور
مفکروں(تھنک ٹینک) کی رائے کو اہمیت دیتے، اپنی پالیسی بناتے اور اس پر
چلتے ہیں۔ لہذا ان سے غلطی نہیں ہوتی اور وہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔ اسلئے
ہمارے حکمران ان سے ڈرتے ہیں اور کسی چوں چراں کے بغیر ان کا ہر حکم مانتے
چلے جاتے ہیں، جیسے وہ ان کے خدا ہوں۔ اور ہمارےامیر، وزیر،ایم پی اے،ایم
این ایزمغربی لوگوں کے ہر خلاف شرع اور برے کاموں کو پسند کرتے اور ان کی
پیروی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اچھے اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے مفید کاموں
کی پیروی نہیں کرتے۔ کیونکہ ہمارے امیروں،وزیروں اور ارباب اختیار کو تو
صرف اپنی دھاک بٹھانی ہوتی ہے اور عوام کو دبا کر رکھنا ہوتا ہے نہ کہ ان
کی فلاح و بہبود کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک جگہ چوہے کثرت سے تھے۔ اس لیے وہاں ایک زبردست اور طاقتور
بلی آگئی اور چوہوں میں سے ایک ایک کو پکڑ کر کھانے لگی اور چوہے بے چارے
کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔اس خطرناک صورت حال سے چوہے بہت تنگ تھے کہ اس
عذاب سے کیسے چھٹکارا پائیں۔لیکن چونکہ وہ چوہے تھے اسلئے بلی کو نہ روک
سکتے تھے اور نہ ہی اس کا مقابلہ کر سکتےتھے، اسلئے بہت پریشان تھے کہ کیا
کیا جائے۔ ایک دن چوہے بڑے مزے سے پھر رہے تھے کہ بلی آئی اور اس نے جھپٹ
کر ایک چوہا پکڑ لیا اور کھاگئی، اور پھر تھوڑی دیر بعد جب چوہے اس سے غافل
ہو گئے تھے ، پھر آئی اور ایک اور چوہا پکڑ کر کھا گئی اور چلی گئی۔ چوہے
اس صورت حال سے بہت ہی پریشان ہوتے کہ اس مصیبت سے کیسے جان چھڑائی جائے ۔
چنانچہ تمام چوہے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نوجوان چوہا کھڑا ہوا
اور کہنے لگا کہ میرے ذہن میں ایک بڑی اچھی ترکیب آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم
بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دیں۔ پھر جب بھی بلی آئے گی، ہمیں گھنٹی کی
آواز سے پتہ چل جائے گا، اور ہم دوڑ کر بلوں میں گھس جائیں گے اور موت سے
بچ جائیں گے۔ سب چوہوں نے تالیاں بجا بجا کراسکو داد دی کہ واہ بھئی واہ،
یار ہم تجھے وزیر اعظم بناتے ہیں، تم بہت سیانے اور قوم سے مخلص ہو، ایک
چوہے نے تو اس کے گلے میں ڈالروں کا ہار بھی ڈال دیا۔لیکن اتنے میں ایک
بوڑھا چوہا بولا ، یار تم خوش تو ہو رہے ہو لیکن یہ تو بتاو کہ بلی کے گلے
میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ابھی چوہے اس بات کا جواب ہی نہ دے پائے تھے اور
بلی آئی اور ایک چوہا پکڑ کر لے گئی اور باقی چوہے اس سے ڈر کر اپنے اپنے
بلوں میں جا گھسے۔ اس طرح ان کی پارلیمنٹ ناکام ہو گئی۔
او ظالمو، او غاصبو، چوہوں میں بھی اپنی تباہی و بربادی کا احساس ہوتا ہے ۔
اور ان کے مفکر اور سیانے چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا چاہتے ہیں
لیکن تم لوگوں کو تو اتنا بھی احساس نہیں ہوتا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی
باندھی جائے۔ بلکہ تم مغربی ممالک سے ڈالر لینے کیلئے بھیگی بلی بن جاتے ہو
اور تم چاہتے ہو کہ وہ ڈو مور کہیں اور ہم ان کے حکم پر عمل کریں اور ان سے
ڈالر لے کر آف شور کمپنیاں چلائیں۔ اے امیرو، اے وزیرو،تم مغربی لوگوں کے
خلاف شرع اور گندے کاموں کی تو بہت پیروی کرتے ہو لیکن ان کے اچھے کاموں کی
پیروی نہیں کرتے۔ شاید اس لیے کہ وہ لوگ اپنے ملک اور قوم کیلئے مخلص ہوتے
ہیں لیکن تم نہیں ہوتے۔ تم تو صرف دولت کے پجاری ہو، اقتدار کے پجاری ہو،
امریکہ کے ڈالروں کے پجاری ہو۔ تم نے امریکہ کو خدا بنا رکھا ہے۔ قارون کی
بے بہا دولت کی طرح نہ تمہیں امریکہ کے ڈالر بچا سکیں گے اور نہ ہی فرعون
کی طرح ڈوبنے سے تمہیں امریکہ بچا سکے گا۔ تم نے امریکہ کو خدا بنا رکھا ہے
اور تم امریکہ سے خدا سے بھی زیادہ ڈرتے ہو۔ امریکہ کہتا ہے ڈو مور (Do
more)اور تم کھڑے ہو کر اسے سلیوٹ کرتے ہو اور کہتے ہو یس سر(yes sir) اور
چند ڈالروں کی خاطر اپنی قوم کا نقصان کرتے ہو اور اپنے مسلمان بھایئوں کو
مارتے ہو۔ کیا تمہیں کوئی سمجھانے والا نہیں؟ کیا تم میں کیا سیانا اور
تھنک ٹینک (think tank)نہیں؟ کیا تم چوہوں سے بھی گھٹیا ہو؟ دنیا میں
مسلمانوں کے ۵۸ ملک ہیں اور تمام اسلامی ملکوں کے حکمران چھوٹے چھوٹے ذلیل
چوہے ہیں جنہیں ایک ایک کر کے امریکہ ختم کر رہا ہے، کھا رہا ہے، تباہ کر
رہا ہے۔ کچھ شرم کرو، حیا کرو، ہوش کے ناخن لو۔ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو
اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ جو خدا کو پوجتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اگر تم ۵۸
ملک ایک ہو جاو تو تم دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور بن سکتے ہو، کیونکہ ایک
ایک(۱)، دو گیارہ(۱۱) اور تین ایک سو گیارہ(۱۱۱) ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے
راہنمائی حاصل کرو۔ وما یذکر الا اولوالالباب۔ پہلی قومو ں کے حالات سے
عبرت حاصل کرو۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ |
|