سرغنہ کون ؟
(Tariq Hussain Butt, UAE)
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان ایک
ایسے سیاستدان کے روپ میں جلوہ گر ہے جو اپنی بات پر پہرہ دینے میں عار
محسوس نہیں کرتا تبھی تو عوام اپنی امیدووں کی برومندی کی خاطر اس کا دامن
تھا مے ہوئے ہیں۔اس نے کہا کہ رائیونارچ کرنا ہے اوراس نے نہ صرف یہ کہ ما
رچ کیا بلکہ تاریخی جلسہ منعقد کر کے سب کو حیران بھی کر دیا ۔ اس وقت
پاکستان جس غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے وہ سب کے علم میں ہے ۔ سرحدوں
پر جس طرح کی اشتعال انگیزی ہے اس سے بھی ہر ذی شعور شخص آگاہ ہے جبکہ اس
دن گرمی کی شدت اور سیاسی جماعتوں کی بے بسی ایک دوسری کہانی سنا رہی تھی
لیکن اس کے باوجود عوام کا دیوانہ وار رائیو نڈ مارچ میں شرکت کرنا اس بات
کا برملا اعلان تھاکہ لوگ کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ کرپشن کی لعنت نے جس
طرح سیاسی جماعتوں کو بے توقیر کیا ہواہے اس کا رونا روتے روتے عوام خود
آنسو بن چکے ہیں لیکن کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں ہے۔رائیونڈ مارچ
محض مارچ نہیں تھا بلکہ ایک استعارہ تھا اس بات کا کہ عوام کو پاناما لیکس
کا حساب لینا ہے اور کرپشن جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔عوامی غم
و غصہ کے علی الرغم بہت سی ابن الوقت سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر اپنے مکرو
فن سے عمران خان کی راہ کو کھوٹا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ان کا اس مسئلے
کو طوالت دینا در اصل اس مسئلہ پر عوامی جذبات پر سرد پانی ڈالنے کے مترادف
تھا۔ان کا ندازِ فکر یہ تھا کہتاخیری حربوں سے یہ مسئلہ وقتی طور پر اپنی
موت آپ مر جائیگا اور یوں کرپٹ سیاستدان لوٹ مار کا دھندا جاری رکھیں گے
لیکن برا ہو عمران خان کا کہ اس نے اس مسئلے کو سرد خانے کی نذر کرنے کی
بجائے ایک دفعہ پھر زندگی بخش دی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے سیاسی
زعماء اور اینکرزاس جلسے پر ذاتی تنقید میں یک زبان تھے اور اس جلسے کو
ملکی سلامتی کے خلاف ایک سازش سے تعبیر بھی کر رہے تھے لیکن یکطرفہ تنقید
کے باوجود عمران خان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔اس نے را ئیو نڈ جانا
تھا،سو وہ گیا جسے پوری دنیا نے دیکھا اور حکمرانوں سے اسے جو کچھ کہنا تھا
اس نے پوری جرات کے ساتھ کہا۔عمران خان کے اندازِ سیاست سے اختلاف کیا جا
سکتا ہے لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ موجودہ سسٹم کو بدلنا
چاہتا ہے۔اس نے دوسری سیاسی جماعتوں پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں
سیاست اب اسی کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا دل ہے۔وہ جب
چاہے جہاں چاہے حکومت کو چیلنج کر کے حکومتی نظام کو مفلوج کرسکنے کی اہلیت
رکھتا ہے ۔اس کی آواز اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے شدتِ الفاظ سے ایوان لرزتے
محسوس ہوتے ہیں ۔ حکومت اپنے چند حما ئیتیوں کے ساتھ عمران خان کے خلاف
متحدہے لیکن ان کا یہ اتحاد بھی باہم مل کر عمران خان کی حمائت کو کم نہیں
کرسکا۔حکومتی اتحاد ایک ایسا تارِ عنکوبت ہے جو اسے روکنے کی اہلیت نہیں
رکھتا۔عوام عمران خان کے دل کے اس قدر قریب ہیں کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی
سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔پچھلے کئی مہینوں سے وہ میدانِ عمل میں نکلا ہوا
ہے اور ایک انتھک جرنیل کی مانند وہ ہر شہر ہر گاؤں اور ہر قریہ میں اپنی
آواز پہنچا رہا ہے۔لیکن باعثِ تعجب ہے کہ اس کی للکار کی موجودگی میں پی پی
پی جیسی وفاقی جماعت سوئی ہوئی ہے۔
عمران خان عوامی جذبوں کا ترجمان بن کر پی پی پی کے قدموں سے دھیرے دھیرے
قالین کھینچ رہا ہے۔پی پی پی کھلی آنکھوں سے اپنی عدمِ مقبولیت کو دیکھ رہی
ہے لیکن کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے کیونکہ عوام سے اس کا ناطہ ٹوٹ چکا
ہے۔ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک کی عدمِ شرکت کو بہت سے تجزیہ
کار منفی رنگ میں دیکھ رہے تھے۔ان کا خیال تھا کہ عوامی تحریک کے بغیر
عمران خان کا رائیونڈ مارچ وہ آب و تاب دکھانے میں ناکام ہو جائیگا جو اس
کا خاصہ ہے لیکن عمران خان نے اس تاثر کو بھی زائل کر دیا ۔ یہ سچ ہے کہ
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے فدائین گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑے ہونے کی سکت
رکھتے ہیں جس سے تحریکِ انصاف کے جنونی ابھی کوسوں دور ہیں لیکن یہ بھی تو
سچ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عمران جنونیوں میں بھی حوصلہ پیدا ہو تا جا رہا
ہے ۔پی پی پی کے جیالے اس جوہر سے متصف تھے لیکن پارٹی قیادت نے انھیں بے
وقعت کر دیا ہے۔جلسے اور دھرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور رائیونڈ
مارچ دھرنا نہیں ایک جلسہ تھا ۔ہاں جب ۳۰ اکتوبر کو ۱سلام آباد کو بند کرنے
کا مرحلہ درپیش ہو گا تو ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اس وقت پی ٹی آئی کے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایسے نکلیں گئے جیسے وہ ازل سے پی ٹی آئی کے
ہمدرد،دوست اور ساتھی ہیں۔رائیونڈ کے جلسے کو اگربہت سے ناقدین لاہور کی
تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دے رہے ہیں تو اس کی وجہ عوام کی وہ محبت ہے
جو کسی بھی تنِ مردہ میں جان ڈال دیتی ہے ۔ شہر سے باہر ایک ایسے مقام پر
جلسہ کرنا جہاں پر پہنچنا کافی دشوار تھا لیکن پھر بھی عوامی سیلاب نے اس
جلسے میں اپنے جذبات سے ایک سماں باندھ دیا۔خواتین کی شرکت اس جلسے کا سب
سے حسین پہلو تھا۔ عمران خان جیسا سحر انگیز قائد ہی ایسا معجزہ سر انجام
دے سکتا تھا۔خواتین تو مردوں کی موجو دگی سے اکثر خا ئف رہتی ہیں لیکن
عمران خان کی موجودگی میں وہ شیر ہو جاتی ہیں اور جلسے کو نیا روپ عطا کر
دیتی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مردوں کی ساری بے باکی اور نعرہ بازی ان
کے دلکش لشکاروں کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے ۔کون ہے جو خواتین کو قومی دھارے
میں لایا ہے ؟کون ہے جس نے ان میں یہ حساس اجاگر کیا ہے کہ وہ قوم کا مقدر
بدل سکتی ہیں؟۔خواتین کو سیاسی دھارے میں شامل کرنا ایک ایسا مستحسن فعل ہے
جس پر عمران خان کو دادو تحسین سے نواز جا نا چائیے۔ذولفقار علی بھٹو کے
بعد عمران خان ایسے قائد ہیں جھنوں نے خواتین کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور
ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔،۔
بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اور والدہ محترمہ کے نقشِ قدم پر چل کر
پاکستانی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی اہلیت رکھتاہے۔وہ اپنی پر کشش شخصیت
سے عوام کے دلوں میں گر کر سکتا ہے۔وہ نوجوان اور پر عزم ہے اور سب سے بڑی
بات یہ کہ جیالے بھی اس سے محبت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عوامی
پذیرائی کی اس بلندی تک نہیں پہنچ پایا جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔اس
کی ایک وجہ تو پی پی پی کے پچھلے دورِ حکومت میں پی پی پی کی کمزور کار
کردگی بھی ہو سکتی ہے ۔میری ذارتی رائے ہے کہ پی پی پی کے پاس کوئی ایسا
نعرہ نہیں ہے جس پر وہ اپنی سیاست کی بنیادیں رکھ سکے۔اسے مفاہمتی سیا ست
نے جس طرح نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ پی پی
پی پنجاب میں جلسے کے انعقاد میں کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ جلسے کیلئے
کارکن چائیں ،عوام چائیں اور بندے چائیں جو اس بات کی شہادت دیں کہ ہم پی
پی پی کے ساتھ ہیں لیکن پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے کارکنوں کی
جس طرح سے تذلیل کی وہ ناقابلِ بیان ہے ۔پی پی پی کی قیادت شائد یہ سمجھ
رہی تھی کہ پی پی پی کے کارکن ان کے مزارع ہیں،ان کے کمی کمین اور ان کے
غلام ہیں لہذا وہ انھیں جیسے بھی ہانکے گی وہ اف نہیں کریں گئے لیکن وہ
ایسا کرتے وقت یہ بھول گئے کہ جیالوں میں جتنی خوداری ہے وہ کسی دوسری
جماعت کے کارکن کے پاس نہیں ہے۔جوجیالے جنرل ضیا ا لحق کی آمریت کے سامنے
سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہوں انھیں کوئی بھی نظر انداز اور ذلیل و
رسوا کر کے کامیاب و کامران نہیں ہو سکتا۔ یہ سچ ہے کہ جیالے پی پی پی کی
فلاسفی سے اب بھی محبت کرتے ہیں، وہ اب بھی بھٹو ازم کے متوالے ہیں لیکن
کوئی انھیں عزت و احترام کی نظر سے تو دیکھے؟عمران خان کے اندر ذولفقار علی
بھٹو بول رہا ہے ۔وہ اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اور ایک نئے
پاکستان کی بنیادیں رکھنے کے عزم سے لیس ہے ۔ اس کا یہ کہنا کہ رائیونڈ کے
محلوں کی اونچی فصیلوں سے عوام کے ٹیکسوں کی چوری کی بو آ رہی ہے عوامی
آرزوؤں کا ایسا لطیف استعارہ تھا جس پر ہر کوئی واہ واہ کر رہا ہے۔رائیونڈ
کی سڑکوں،باغیچوں، قمقموں اور محلات پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات
میاں برادران کی ذاتی جیب سے ادا ہونے کی بجائے قومی خزانے سے ادا ہو رہے
ہیں جس سے قوم دن بدن قرضوں میں جکڑی جا رہی ہے اور عوام غربت کی چکی میں
پستے رہیں گے۔ہمیں اس کلچر کو باہم مل کر شکست دینی ہے۔پاناما لیکس نے واضح
کر دیا ہے کہاس کلچر کا سرغنہ کون ہے ؟۔،۔ |
|