حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی
تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں لکھتے ہیں کہ حضرت جثامہ بن مساحق بن ربیع بن قیس
کنانی ؓ حضرت عمر ؓ کی طرف سے ہرقل کے پاس قاصد بن کر گئے تھے ۔وہ فرماتے
ہیں میں ہر قل کے پاس جا کر بیٹھ گیا میں نے خیال نہ کیا کہ میرے نیچے کیا
ہے ؟میں کس پر بیٹھ رہاہوں ؟وہ سونے کی کرسی تھی ۔جب میں نے اسے دیکھا تو
میں فوراً اس سے اٹھ کر نیچے بیٹھ گیا تو ہرقل ہنس پڑا اور اس نے مجھ سے
پوچھا ہم نے یہ کرسی تمہارے اکرام کے لیے رکھی تھی تم اس سے کیوں اٹھ گئے
میں نے کہا میں نے حضور ؐ کو اس جیسی چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے ۔
قارئین ایک عرصہ کی غیر حاضری کے بعد آج دوبارہ کانوں سے قلم اتار کر آپ کی
خدمت میں آڑی ترچھی لکیریں پیش کر رہے ہیں ۔اپنے تئیں ہم ہمیشہ یہی کوشش
کرتے ہیں کہ دیانتداری سے جو بات محسوس کریں وہی تحریر کریں چاہے اسے لوگ
بدتمیزی سے تعبیر کریں ،بد تہذیبی کا نام دیں یا ایبسٹرکٹ آرٹ کی کسی شاخ
سے تشبیہ دیں ہم اپنے تئیں سچ کہنے اور لکھنے کی سعی نا تمام پہلے بھی کرتے
رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے اسی حوالہ سے فکشن رائٹنگ کے اردو کے
سب سے بڑے نام ابن صفی جو اسرار ناروی کے نام سے شاعری بھی کیا کرتے تھے ان
کا یہ شعر پیش خدمت ہے ۔
’’جو کہہ گئے وہ تو فن ٹھہرا اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی ‘‘
قارئین بغیر کسی مقصد کے اب نہ تو بات کرنے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی
ایسی تحریر لکھنے کی طرف دل مائل ہوتا ہے جس کا کوئی مقصد نہ ہو ۔آج کی
تحریر ہم اپنے دو دوستوں کی خدمت میں اپنی حاضری لگوانے اور ایک کی بات
دوسرے دوست تک پہنچانے کے لیے اس عوامی سٹیج پر پیش کر رہے ہیں وزیراعظم
آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان ہمارے انتہائی محترم دوست ہیں دوستی کا یہ
سلسلہ بنیادی طور پر دشمنی کے ان ایام سے جنم لے کر سامنے آیا جب ان کو ’’
نو ماہی ‘‘اقتدار ملا ۔انہوں نے چیف جسٹس آزادجموں کشمیر سپریم کورٹ جسٹس
ریاض اختر چوہدری کو مختلف وجوہات کی بناء پر ان کے عہدے سے ہٹا کر جسٹس
منظور گیلانی کو بحیثیت چیف جسٹس سامنے لایا میرپور کے دوستوں نے راقم کو
یہ ’’پٹی ‘‘ پڑھائی کہ راجہ فاروق حیدر خان ’’مظفرآبادی‘‘وزیراعظم ہونے کی
حیثیت سے ’’میرپوری ‘‘چیف جسٹس کو عصبیت کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ہم نے بھی
کوئی تحقیق نہ کی اور ’’تیر ،تفنگ ،توپ ،قلم ،مائیک ‘‘اور دیگر ہتھیاروں سے
لیس ہو کر ہم نے وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی صبح شام
گوشمالی کرنا شروع کر دی ۔اس سب ’’جہاد ‘‘کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرپور کی
مقتدر ہستیوں نے اس وقت کی وزیر حکومت محترمہ ناہید طارق صاحبہ کی قیادت
میں ایک وفد یا ’’جرگہ ‘‘ تشکیل دیا اور ہمیں ساتھ لیکر کشمیر ہاؤس اسلام
آباد چل دیئے ۔جہاں وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے ایک تفصیلی نشست میں
اپنے موقف کو بہترین انداز میں پیش کیا ۔بعد ازاں ہم بھی اپنا موقف تبدیل
کرنے پر مجبور ہوئے اور ہم نے راجہ فاروق حیدر خان کو مختلف مواقع پر اپنا
’’معذرت نامہ ‘‘پیش کیا کہ ہم نے جذبا ت اور طرارے میں آ کر کافی ساری
گستاخیاں کی تھیں ۔خیر وہ دن گزر گئے اور مجاور اعظم چوہدری عبدالمجید
وزیراعظم بن گئے ہماری بد قسمتی کہیے یا چوہدری عبدالمجید صاحب کے ستاروں
کی گردش کہہ لیجئے ان کے مشیران باتدبیر نے انہیں یہ باور کروا دیا کہ
میرپور میں ’’انصار نامہ ‘‘کا مصنف جنید انصاری جو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر
اینکر بھی ہے وہ ان کی وزارت عظمیٰ اور بادشاہی کا سب سے بڑا دشمن ہے
۔نتیجہ یہ نکلا کہ آزادکشمیر کے سب سے بڑے ایوان صحافت کشمیر پریس کلب
میرپور میں ایک سوال کرنے پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے راقم کی شان میں
کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی وہ زبان استعمال کی کہ اردو زبان بھی شرمندہ ہو
گئی خیر اب وہ باب بند ہو چکا ہے اور ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید ایک انتہائی جہاندیدہ اور سر دو گرم چشیدہ سیاسی کارکن
ہیں اور یہ ان کا اعزاز ہے کہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جدوجہد کرتے
ہوئے وہ ریاست کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچے یہ الگ بات کہ یار لوگ ان کے دور
حکومت کو کرپشن ،بد انتظامی ،کمیشن خوری اور دیگر الزامات سے تعبیر کرتے
رہتے ہیں ۔
قارئین موجودہ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان جب اپوزیشن لیڈر تھے
تو ہم نے ایف ایم 101میرپور ریڈیو آزادکشمیر ریڈیو پاکستان کے لیے درجنوں
بار ان کو انٹرویو کیا اور جب بھی ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو آزادکشمیر
کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک جے کے نیوز ٹی وی اور ویب
ٹی وی کشمیر نیوز نیٹ ورک کے لیے ان کا انٹرویو ریکارڈ کر کے عوام کے سامنے
پیش کیا ۔چند ایسے مواقع بھی آئے کہ الیکشن سے قبل وہ اسلام آبا د سے راقم
کو ٹیلی فون کر کے خصوصی طور پر انٹر ویو دینے کے لیے تشریف لائے ۔ہم اسے
اپنی خوش قسمتی اور ان کی شفقت سمجھتے ہیں ہم نے انہیں ایک بہادر ،جری اور
ریاست کے وقار کے لیے ڈٹ جانے والا انسان سمجھا اور لوگوں کو بھی یہ بات
پہنچائی ۔قصہ مختصر اب وہ وزیراعظم آزادکشمیر بن چکے ہیں حالانکہ راستے میں
کافی ساری ’’کالی بلیاں ‘‘حائل تھیں ۔شاید قدرت ان سے کوئی کام لینا چاہتی
ہے راجہ فارو ق حیدر خان صاحب آپ کے متعلق آج کل بہت سی غلط فہمیاں جنم لے
رہی ہیں آپ نے کابینہ بناتے ہوئے سب سے پہلے آزادکشمیر کے سب سے زیادہ
ریونیو دینے والے ضلع میرپور کو نظر انداز کیا اور میرپور ضلع کے تین ایم
ایل اے چوہدری محمد سعید ،چوہدری محمد رخسار ،راجہ مسعود خالد اپنی اپنی
نشستیں جیتنے کے بعد اپنے حلقے کے عوام سے نظریں چراتے ہوئے چل رہے ہیں
’’پیلو مخبر ‘‘کا یہ کہنا ہے کہ راجہ فاروق حیدر خان وزیراعظم بننے کے بعد
دوبارہ ’’مظفرآبادی وزیراعظم ‘‘بن چکے ہیں اور اداروں اور شخصیات کو ٹارگٹ
کیے ہوئے ہیں اسی طرح کا ایک جملہ سابق وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری
عبدالمجید نے کشمیر پریس کلب میرپور میں ایک ہفتہ قبل راقم کو ٹی وی انٹر
ویو دیتے ہوئے دہرایا تھا ۔مخبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد
راجہ فاروق حیدر خان نے آزادکشمیر کے قومی ادارے تعلیمی بورڈ کو میرپور اور
مظفرآباد دو حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس پر دانشمندی کے
ساتھ کام شروع ہو چکا ہے ۔یہ غیر دانشمندانہ کام ہم راجہ فاروق حیدر خان
جیسے دانش ور وزیراعظم سے سر زد ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ۔کیونکہ اب ضلع
میرپور میں چائے خانوں اور گلیوں محلوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ اہل
میرپور کو اس صورت میں یہ مطالبہ کرنا پڑے گا کہ گرمائی دارلحکومت مظفرآبا
د کو رکھا جائے اور سرمائی دارلحکومت میرپور میں قائم کر دیا جائے ۔ہم اسے
بھی غیر دانشمندی قرار دیں گے ۔اسی طرح سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے
مختلف باتوں پر لاکھ اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
انہوں نے تین میڈیکل کالجز اور تین یونیورسٹیز کو شروع کر کے ایک بہت بڑے
تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی ہے راجہ فاروق حیدر خان ،شاہ غلام قادر
،چوہدری طارق فاروق ،بیرسٹر افتخار گیلانی ،چوہدری محمد سعید ،چوہدری رخسار
احمد اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کے حکومت میں آنے سے پہلے ہم نے متعدد ٹی
وی اور ریڈیو انٹرویوز کیے تھے اور ان اداروں کے متعلق ان کا موقف لینے کی
کوشش کی تھی ان سب معززین کا یہ کہنا تھا کہ اگرچہ یہ تمام ادارے بغیر کسی
مالیاتی منصوبہ بندی کے قائم کیے گئے ہیں لیکن چونکہ اب یہ ادارے قائم ہو
چکے ہیں اس لیے ہم حکومت میں آ کر ان اداروں کو بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ
چلائیں گے اور کوئی بھی ادارہ ’’رول بیک ‘‘ نہیں کیا جائے گا ۔اپنے اقتدار
کی آخری ’’سہ ماہی ‘‘میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے محترمہ بینظیر بھٹو
شہید میڈیکل میرپور کو میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیا جس کا
مقصد یہ تھا کہ آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل
کونسل کی ہدایات کے مطابق ایک میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری
میڈیکل سٹوڈنٹس کو جاری کریں بدقسمتی سے ’’پیلو مخبر ‘‘نے بتایا ہے کہ
بوجوہ میرپور ہیلتھ یونیورسٹی کو رول بیک کیا جار ہا ہے اور اس کی وجہ بھی
راجہ فاروق حیدر خان کی ’’میرپور دشمنی ‘‘ہے ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ
جھوٹا الزام ہے کیونکہ جس راجہ فاروق حیدر خان کو ہم نے دیکھا جانا اور
سمجھا ہے وہ اتنا تنگ نظر نہیں ہو سکتا پھر آخر وہ کونسے خفیہ ہاتھ ہیں جو
انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلے کرواتے ہوئے راجہ فاروق حیدر خان کو بند گلی
کی طرف لے جا رہے ہیں یہ لوگ نہ تو راجہ فاروق حیدر خان کے دوست ہو سکتے
ہیں اور نہ اس ریاست کے خیر خواہ ہیں ۔
قارئین اب چلتے ہیں کالم کے آخری حصے کی طرف ۔میرپور میں ایک ایسی شخصیت
موجود ہے جنہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بارہ سال کی عمر میں چھ ابلے
ہوئے انڈے بیچنے سے کیا تھا آج اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم اور نیک والدین کی
دعاؤں کے صدقے وہ نفیس گروپ آف کمپنیز برطانیہ و پاکستان اور کشمیر کراؤ ن
بیکرز برطانیہ کے مالک ہیں اور ان کے کاروبار میں اس وقت برطانیہ آزادکشمیر
اور پاکستان میں چھ سو سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں حاجی محمد سلیم نام کی
یہ نابغہ روزگار شخصیت درویشی ،خدمت خلق اور سادگی کا عملی نمونہ ہے حاجی
محمد سلیم نے 2001میں اپنے بہنوئی کی عارضہ قلب میں وفات کے بعد میرپور میں
ہی ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ساتھ امراض قلب کے علاج کے لیے ’’کشمیر انسٹیٹیوٹ
آ ف کارڈیالوجی ‘‘قائم کیا ۔اس وقت کے وزیراعظم سالار جمہوریت سردار سکندر
حیات خان نے اس ادارے کا افتتاح کیا تھا ۔بعد ازاں دو مرحلوں کی توسیع کے
بعد اب یہ ادارہ 140بستروں پر مشتمل ہسپتال بن چکا ہے سابق وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید سے متعدد درخواستیں کرنے کے باوجود اس ادارے کو دل کے آپریشن کے
لیے ابھی تک اپ گریڈ نہ کیا جا سکا راجہ فاروق حیدر خان وزیراعظم آزادکشمیر
اور سپیکر قانون ساز اسمبلی شاہ غلام قادر نے راقم کو ہی انٹرویوز دیتے
ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر وہ اس ادارے کو اپ گریڈ کرینگے
گزشتہ دنوں الیکشن جیتنے کے بعد جب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف
انتہائی خوشی اور جوش کے عالم میں مظفرآباد پہنچے او رایک روایتی جشن کی
تقریب رکھی گئی تو اس تقریب میں نوا ز شریف نے مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر کے
الیکشن میں کامیابی پر اپنی مسرت کا اظہار بھی کیا اور میرپو ر سے پاکستان
تحریک انصاف آزادکشمیر کے صدر سابق وزیراعظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری کو شکست دینے والے اپنے مسلم لیگی کارکن و رہنما چوہدری محمد سعید
کو بھی خراج تحسین پیش کیا ۔اگلے ہی روز ہمیں حاجی محمد سلیم نے حکم دیا کہ
ہم ان کے پاس پہنچیں ہم نے حکم کی تعمیل کی انہوں نے ہم سے تین مکتوب تحریر
کروائے ۔یہ خط وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ،وزیراعظم پنجاب شہباز
شریف اور وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے نام تھے ۔ان خطوط کا
متن یہ تھا کہ اﷲ کے فضل و کرم سے میں اپنا علاج اپنے خرچ پر کروا سکتا ہوں
لیکن آزادکشمیر کے غریب لو گ جو دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں
آپریشن کی ضرورت ہے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈ یالوجی کے ڈاکٹرز جن میں ڈاکٹر
سعید عالم ،ڈاکٹر رضا گورسی اور ڈاکٹر یوسف چوہدری شامل ہیں جب مریضوں کو
آپریشن کے لیے راولپنڈی اسلام آباد یا لاہور جانے کے لیے ریفر کرتے ہیں تو
مریض بے چارگی سے ڈاکٹرز سے کہتے ہیں کہ ہمیں ادویات لکھ کر دے دیں کیونکہ
ہم لاکھوں روپے کی اینجیوگرافی اور اینجیو پلاسٹی نہیں کروا سکتے جب کہ
بائی پاس سرجری تو دیوانے کا خواب ہے زندگی ہوئی تو بچ جائیں گے ورنہ موت
قبول ہے ۔حاجی محمد سلیم نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف
اور وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے مخلصانہ انداز سے دکھائی
دیتا ہے کہ وہ ریاست کے غریب عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں میری ان سے
درخواست ہے کہ وہ کشمیر انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کو امراض قلب کے علاج کے
لیے مکمل کارڈیالوجی ہسپتال کے طور پر خود مختار حیثیت میں اپ گریڈ کریں یہ
مکتوب تحریر کیے ہوئے کئی ہفتے گزر چکے ہیں وزیراعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سیکرٹریز کے فون تو آئے
ہیں لیکن راجہ فارو ق حیدر خان کی طرف سے مکمل خاموشی ہے ۔اس سے آگے ہم
تبصرہ کچھ نہیں کرتے ہم جواب کے منتظر ہیں بقول چچا غالب
کب سے ہوں ؟کیا بتاؤں ؟جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے ،آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے،خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں ،جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ،ان کی بزم میں ،آتا تھاد ورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکرِ وفا ہو ،فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
قارئین آخر میں ایک چھوٹی سے چٹکی ۔پیلو مخبر نے بتایا ہے کہ ایم بی بی ایس
میڈیکل کالج میرپور کے فیکلٹی ممبران اور دیگر ملازم گزشتہ چھ ماہ سے بغیر
تنخواہ کے کام کر رہے ہیں ہم سواد اعظم جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس
کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کی درجنوں تقریروں میں یہ جملہ ضرور
سنا کرتے تھے کہ ’’کشمیری پاکستان کے بلا تنخواہ سپاہی ہیں ‘‘لیکن اب عملی
طور پر یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان سے آزادکشمیر میں آ کر میڈیکل کالجوں میں
کام کرنے والے ’’پاکستانی ڈاکٹرز کشمیر کے بلا تنخواہ سپاہی ہیں ‘‘باقی
وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ،وزیر صحت ڈاکٹر نجیب نقی ،سیکرٹری ہیلتھ
جنرل خالد اسد اور ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر محمد بشیر چوہدری خود سمجھدار
اور زیرک لو گ ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ کس موقع پر کیا کرنا بہتر ہے ۔آخر
میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
بیوی نے غصے سے شوہر سے کہا
’’تم رات کو سوتے ہوئے مجھے گالیاں دے رہے تھے ‘‘
شوہر نے بے ساختگی سے کہا
’’کون کم بخت سو رہا تھا ‘‘
قارئین آج کے کالم میں ہم نے کوشش تو یہی کی ہے کہ تلخ نوائی کو شوگر کوٹنگ
کے ساتھ پیش کریں اﷲ ہم سب کو قبر حشر اور آخرت سامنے رکھتے ہوئے دنیا میں
زندگی گزارنے کی توفیق د ے آمین ۔
|