دنیا کو کیا معلوم تھا کہ میمن
گھرانے میں یکم جنوری 1928 کو پیدا ہونا بچہ بلا تفریق، رنگ و نسل انسانیت
کی خدمت کے ایک اعلٰی رتبہ اور مقام حاصل کرے گا۔ فقیر مثال، انسان دوست
اور انسانیت کے خدمت گار عبد الستار ایدھی کا نام ہمیشہ تاریخ کے سنہرے
ابواب میں لکھا جائے گا ۔ عبدالستار ایدھی نے اربوں روپے بھیک اکٹھی کرکے
اس قوم کے غریبوں، بے بسوں ، بے سہاروں، لا وارثوں پر لگائے لیکن کبھی کسی
دورحکومت کے سربراہ سے فنڈ نہیں لیا۔ ایمبولیس سروسز، یتیم خانے، لنگر خانے،
مردے خانے ، خواتین پروٹیکشن ہومز، زچگی سینٹر، اولڈ ایج ہومز، چلڈ رن ہومز،
مینٹل ہومز ، بلڈ بینک ، اسکول اور اینیمل ہومزیہ ایدھی صا حب کے عظیم
سہولیات ہیں جو وہ اس ملک کے عوام لئے چھوڑ گئے ، یہ تمام وہ اقدامات ہیں
جو انھوں نے بغیر کسی حکومتی سرپرستی و تعاون کے ممکن بنائے گئے ۔پاکستان
میں ایدھی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے امداری مراکز کی تعداد 335 کی
قریب ہے۔ ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں ایدھی سینٹرز پر 800 سے زیادہ
بڑی اور چھوٹی ایمبولینس ہمہ وقت موجود ہیں جو دن رات انسانیت کو بچانے کے
لئے ایک فون کال پر پہنچتی ہیں۔ا یمبولینس سروسزا یدھی صاحب کا ایک عظیم
کارنامہ ہے جس کا اندراج ورلڈ گینیز بک میں درج ہے۔ زخمیوں اور مریضوں کو
بآسانی ہسپتالوں میں لے کر جانے کے ساتھ ملک کے دور دراز شہروں ، گاؤں اور
قصبوں میں بھی انتہائی مناسب ریٹ پر یہ سہولت موجود ہے ۔
بابائے خدمت نے نومولود کی زندگیوں کو بچانے کے لئے قتل نہ کرو جھولے میں
ڈالو مہم شروع کی جس پر علماء اکرم نے فتوے جاری کئے کہ ایدھی صاحب ناجائز
اولاد اور بچوں کو پروان چڑھا رہے ہیں اور اس پر انکو شدید قسم کے ردعمل کا
سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود یہ مشن جاری رہا ۔ ایدھی صاحب بخوبی
جانتے تھے کہ اس قوم میں بھوک، تنگدستی، افلاس ، بے راہ روی جیسے مسائل
موجود ہیں اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑاگناہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھناہے۔ ان تمام
وجوہات کی بناء پر بچوں کو قتل کرکے کوڑے کرکٹ اور کچروں کے ڈھیروں پر
پھینک دیا جاتا تھا ۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی اس قتل و غارت کو رو کنے کے لئے
ان کا یہ قدم قابل تحسین ہے۔ انھوں نے معاشرے کے تمام طبقہ فکر کو اپنا
پیغام پہنچایا والدین، مائیں اپنے بچوں کو بوجھ سمجھ کر قتل کرکے کوڑے،
کچرے کے ڈھیروں پر مت پھینکیں جہاں بعد میں جنگلی جانور (کتے ، بلیاں، چوہے)
ان کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں ۔ ایدھی صاحب نے خود جا کر اپنے ہر سینٹرز کے
باہر جھولے لگائے تاکہ انسانیت کے قتل کو روکنے کے لئے ایک پیغام دیا جا
سکے اور معاشرے میں جہالت کی پنپتی ہوئی سوچ و شعور میں تبدیلی لائی جا سکے۔
ایسے تمام بچوں کی ضروریات زندگی کے ساتھ اچھی تعلیم و تربیت کے لئے چلڈرن
ہومز کا قائم عمل میں لائے۔ جہاں ان کو معاشرہ کا بہترین شہری بنانے کیلئے
سہولیات فراہم کیں۔ ایدھی صاحب کو بچوں سے بہت پیار تھا وہ ہر اتوار چلڈرن
ہومز میں بچوں سے ملتے ،ان کو تحفے دیتے، چھوٹے بچوں کو اپنی گود میں
اٹھاتے، مذاق کرتے ، ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ۔ا یدھی صاحب کو آج تک
کسی نے غصہ میں نہیں دیکھا انھوں نے اپنے کسی ورکر زکو برا بھلا نہیں کہا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ورکرز کئی مرتبہ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے، فنڈ ز کی خورد
برد کے کئی واقعات ایدھی صاحب کے سامنے آئے لیکن انھوں نے ہمیشہ درگزر سے
کام لیا۔ وہ اکثر کہتے کہ معاف کرنے و الی واحد ہٗ لا شریک اﷲ تعالی کی ذات
ہے وہ معافی کو پسند کرتا ہے۔
ا یدھی صاحب لا وارث لاشوں (نشہ آور ، مریضوں، بے سہارا،بے گھر، غیرمذاہب)
کو سڑکوں، نالوں اور پارکوں سے اٹھا تے ان کو غسل دیتے ، کفن پہناتے اور
اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے انھوں نے کبھی ذات پات، رنگ و نسل اور دین و مذہب
کی تفریق نہیں کی۔ کئی افراد اپنے رشتے داروں کی گلی سڑی لاشیں ایدھی ہومز
میں چھوڑ جاتے ہیں ایدھی صاحب خود ان مردوں کو غسل دیتے، کفن پہناتے اور
ایدھی قبرستان میں دفن کرتے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ملکی تاریخ کے اندر بڑے بڑے
سانحات، ناگہانی آفات ، حادثات ، دھماکوں پر لواحقین کیلئے بڑے پیمانے پر
کفن و دفن کا بدوبست کرنے کی مثالیں قائم کی ہیں۔
بابائے خدمت نے بہت ہی کٹھن اور سخت حالات و واقعات کو خندہ پیشانی کے ساتھ
برداشت کیا، ایدھی صاحب پر گھناؤنے الزامات لگائے گئے ان کوغیر ملکی ایجنٹ
کہا گیاان پر سیاسی پریشر ڈال کردبانے کی کوشش کی گئی ان کے راستے میں
رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ایدھی صاحب کو جان کی دھمکیاں بھی دی گئیں،کبھی ان
کی امداد کو رو کاگیا۔ایمبولیسز پر حملے ہوئے ڈرائیوز کو ڈرایا اور تشدد کا
نشانہ بنایا گیا۔ بابائے خدمت نے تمام بڑے سے بڑے امتحانات ، چیلنجز کو بہت
سے ٹھنڈے دماغ، نرم خو لہجے اور بردباری سے برداشت کیا کبھی بھی کسی موقعہ
پر شکایت نہیں کی اور اپنا کام اسی جان فشانی سے دن رات جاری رکھا۔ ملک کے
اندر کوئی بھی ناگہانی صورت حال زلزلے، طوفان، آتش زدگی، سیلاب، دھماکے،
دہشت گردی کے سانحے واقع ہونے پر ایدھی کی سروسز سب سے پہلے فرنٹ مین کے
طورپر اپنا رول نبھا تی رہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ملک کے ساتھ غیر ملکی سطح
پر بہت سے فلاحی کاموں کے پروجیکٹ بااحسن طریقے سے سر انجام دئیے جس پر ان
کو دنیا میں پذیرائی ملی ۔ بابائے خدمت ایدھی صاحب کی گراں قدر خدمات کی
نتیجہ میں حکومت پاکستان سمیت دیگر دنیاکے ممالک نے بہت سے اعلی اعزازات سے
نواز ا:
٭ عوامی خدمات : رامون مگسے سے اعزاز: 1986 ٭ لینن امن انعام : 1988 ٭
حکومت پاکستان نشان امتیاز : 1989
٭ سماجی خدمتگار اعزاز حکومت سندھ : 1989 ٭ پال ہیریس فیلو روٹری : 1992
٭بین الاقوامی اطالیہ اعزاز : 2000
٭ ورلڈ گینیز ریکارڈ ، رضاکارانہ ایمبولینس سروس: 2000 ٭ ہمدرانہ اعزاز ،
عرب امارات : 2000 ٭ لائف ٹائم میمن اعزاز : 2005
٭ IBA اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری : 2006 ٭ یونیسکومدنجیب سنگھ : 2009 ٭احمدیہ
مسلم اعزاز : 2010
عبد الستار ایدھی کی خدمات نے انسانی تاریخ پر ا ن مٹ نقوش چھوڑے۔بے لوث
خدمت ، جذبہ حب الوطنی اور دکھی انسانیت کا مسیحابننے والے عبد الستار
ایدھی کا خاندان ہندوستان کے شہر گجرات میں آباد تھا ، ان کے والد گرامی
کپڑے کے متوسط طبقے کے تاجر تھے ۔ایدھی صاحب کے والدین کی خواہش تھی کہ
ایدھی صاحب سکول جائیں ان کی والدہ ان کو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی ،
ایک پیسے وہ خود استعمال کرتے اور ایک پیسے کسی دوسرے کی مدد کیلئے خرچ
کرتے۔ ایدھی صاحب میں نو عمری سے ہی قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں سکول میں
تعلیم کے ساتھ کھیل تماشہ میں بھر پور شرکت کرتے اور دوستوں عزیزو اقارب کے
کام کاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم عمری میں ہی
مشکلات اور تکالیف نے ایدھی صاحب کو گھیرے رکھاجب وہ 11 سال کے تھے ان کی
والدہ شوگر کی مریض بن گئی اور بعد میں بیماری نے ایدھی صاحب کے والد کو
بھی چلنے پھرنے سے معذور کر دیا۔ ایدھی صاحب نے اپنے والدین کی بہت اچھی
طرح سے خدمت گزاری اور تیمارداری کی ، وہ پچپن سے ہی خدمت، محبت، ہمدردی کے
جذبات سے سرشار تھے۔
1947برصیغر کی تقیم کے بعدایدھی خاندان نے ہجرت کی صعوبتیں برداشت کی اور
پاکستان کی شہر کراچی میں اپنی سکونت اختیار کی۔ ہجرت کے بعد ان کی قائد
اعظم سے ملاقات بھی ہوئی۔اپنی ضررویات زندگی کو پورے کرنے کے لئے انھوں نے
کپڑے کی مارکیٹ میں پان بیڑی کا ٹھیلہ لگا یا۔ ایدھی صاحب کے بقول ایک
رونما ہونے والے واقعہ نے ان کو انسانیت کی خدمت کی طرف مائل کر دیا۔ ایک
شخص چاقوکے وار سے زخمی ہو ا کافی دیر تک کسی نے اس کی مدد نہیں کی اور نہ
اٹھایا۔ ایدھی صاحب نے ٹھیلہ کو چھوڑاور ابتدائی طبی امداد دے کر اُس زخمی
کو ہسپتال منتقل کیا اسی واقعہ نے ایدھی صاحب کو جھنجھوڑ کر رکھا دیا ، جس
کے بعد انھوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی کمر کس لی۔ 1951 میں ایدھی
صاحب نے اپنی تمام جمع پونجی سے ایک ڈسپنسر ی کی بنیاد رکھی ڈاکٹر کی مددسے
طبی امداد کی ٹیکنیک سیکھی۔اپنے تمام دوستوں احباب کو تعلیم کے حاصل کرنے
پر زور دیتے۔ ایدھی صاحب میں خدمت کا ایسا جذبہ تھا کہ رات کو ڈسپنسر ی کے
بنچ پر سوجاتے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں فوراً مدددی جا سکے۔
1957 کراچی میں نزلہ، زکام کی وباء بڑے پیمانے پر پھیلی ایدھی صاحب نے اس
وباء کے خاتمہ کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ تمام شہر میں خیمے لگائے گئے
شہریوں میں مفت ادویات تقسیم کی گئیں۔ بیماری کے روک تھام کے لئے شہریوں
میں آگاہی کے پروگرام مرتب کئے ان کے کاموں کو دیکھ کر سارے ملک سے عطیات
آنے کا بھرپور سلسلہ شروع ہوا۔ایدھی صاحب نے اپنی پہلی ڈسپنسری کی بلڈنگ کو
خرید ا۔ رفاء عامہ کے کاموں کو بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے زچگی سنیٹربنایا
جہاں نرسو ں کی تربیتی کورس کا آغاز کیا گیا۔ ایدھی صاحب کی انہی کاوشوں سے
ایدھی فا ؤ نڈیشن کی بنیاد پڑی۔ ایدھی صاحب نے محسوس کیا شہریوں کی سب سے
بڑی پریشانی مریضوں کا گھروں سے ہسپتال منتقل کرنا ہے جس پر انھوں نے ایک
ایمبولینس خریدی جس کو وہ لمبے عرصے تک خود چلاتے رہے اور مریضوں کو گھروں
سے ہسپتال پہنچاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایمبولینس کی تعداد میں اضافہ
ہوتا گیا، ایدھی صاحب نے شروع میں کئی رضاکار بھی بھرتی کئے جن کو رہنے کے
ساتھ ساتھ پیٹ بھرنے کیلئے کھانا دیا جاتا تھا ۔
1965 ایدھی صاحب کی شریک حیات بلقیس ایدھی تمام رفا عا مہ اور فلاحی کاموں
میں ان کی معاون و رفیق بنی وہ ہر امور میں ایدھی صاحب کے ساتھ رہی۔ بلقیس
ایدھی شادی سے پہلے ایک نرس کے طور پر کام کرتی رہیں ۔ ایدھی صاحب کی زندگی
میں دیگر نشیب و فراز کی طرح شادی کا بندھن بھی امتحان بناکر سامنے آیا
بلقیس ایدھی سے پہلے ان کی شادی ایک خاتون سے طے ہوئی جو ان کے ساتھ ہی کام
کرتی رہی پھر اس نے یہ کہا کر انکار کر دیا کہ ایدھی تو ایک فقیر ہے میں
کیسے ایک فقیر کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتی ہوں۔اسکے کچھ عرصہ بعد ایدھی
صاحب نے بلقیس سے شادی کا فیصلہ انسانیت کے جذبے کودیکھ کر کیا ۔ بلقیس
ایدھی کے مطابق ہم دونوں فقیر تھے اﷲ تعالی نے ہمت عزم و حوصلہ کے ساتھ
ساتھ عزت بڑھا دی۔ ایدھی صاحب نے ساری زندگی سادگی کا درس دیا ہمیشہ سادہ
لباس، سادہ کھانا، سادہ اوڑھنا اور سادہ فرمودات پر عمل پیرا رہے۔ ملیشیا
رنگ کے کپڑے کے دو جوڑے ایک میلے ہوتا تو دوسرا پہن لیتے۔ وہ اپنی اہلیہ کے
ساتھ دو کمروں کے گھر میں مقیم رہے ۔
بلقیس ایدھی چلڈرن ہومز اور ویمن ہومز کی ذمہ داری بہت ہی احسن طریقے سے سر
انجام د یتی رہیں۔ ایدھی ہومز میں جن چھوٹے بچوں کو لایا جاتا وہ خود ان کو
نہلاتی،کپڑے پہنا تی، ان کی دیکھ بھال خود کرتی۔بلقیس ایدھی نے دیگر امور
کے ساتھ گھر کے امور کو چھی طرح سر انجام دیا۔ ان کا ایدھی صاحب سے ہمیشہ
گلہ رہتا کہ وہ گھر کے کاموں میں کبھی وقت نہیں دیتے ۔ ایدھی صاحب کے چار
بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے بیٹے فیصل ایدھی اور ان کی بیٹی کبرٰی ایدھی
اب اس مشن کو آگے بڑھانے میں اپنے والدین کا دست بازہیں۔ 2013 سے ایدھی
صاحب گردے کے عارضے میں مبتلا رہے ان کا علاج انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی کراچی
میں جاری رہا اس کے ساتھ ان کو شوگر کا مرض بھی لاحق رہا۔لمبے عرصے تک علیل
رہنے کے بعد8 جولائی 2016 کو 88 سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسے۔ مرنے کے
بعد بھی خدمت کی ایک عظیم مثال قائم کرگئے اپنی آنکھیں نابینا افراد کے وقف
کر گئے۔ شدید بیماری کے دوران ان کو بیرون ملک علاج کی آفر بھی کی لیکن
انھوں صاف طور پر انکار کردیا۔
بابائے خدمت کی وفات پر ایدھی فاؤنڈیشن کے ہر ورکرز ، رضاکاروں کے ساتھ
ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کا دل غم زدہ ، دکھی اور پریشان ہے وہ ایک ایسی
ہستی تھی جس کا خلا کبھی پور انہیں ہو گا۔ایک ایسی انجان شخصیت جس نے
وسائل، اختیارات، امدادکی پراہ کئے بغیر یہ سفر شروع کیا ، وہ ہمیشہ کہتے
تھے کہ پاکستان جیسی قوم دنیا میں کہیں موجود نہیں جو ہر مشکل، پریشانی اور
تکلیف میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر اکٹھی ہو جاتی ہے۔ ایدھی ایک
فلسفہ، نظریہ، زمانہ کا نام ہے جو رہتی دنیا تک ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ایک پاکستانی ہونے کے نا طے سے یہ اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم
ایمانداری، فرض شناسی اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ معاشرے میں اپنے فرائض کو
بااحسن طریقے سے سر انجام دیں۔
بابائے خدمت نے بے مثال سماجی اور فلاحی خدمات کے وجہ سے دنیا بھر میں
انسانوں کے دل جیت لئے ۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے سویلین شخصیت ہیں جن
کے پاس کبھی بھی کوئی سرکاری عہدہ نہ رہا اس کے باوجود ان کو مکمل سرکاری
اعزاز کے ساتھ ایدھی قبرستا ن میں 25 سال پہلے انہی کی بنائی ہوئی لحد میں
مدفن کیا گیا۔ قائد اعظم، جنرل ضیاء الحق کے بعد تیسری بڑی شخصیت عبد
الستار ایدھی ہیں جن کو پاک فوج کی روایتی گن کیرج وہیکل کے ذریعے خراج
تحسین پیش کرتے ہوئے کراچی اسٹیڈیم میں جنازہ کے لایا گیا،انیس توپوں کی
سلامی دی گئی ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، صدر مملکت ممنون حسین،
مسلح افواج کے سربراہان ، وفاقی وزراء،صوبائی وزیر اعلٰی سمیت بڑی تعداد
میں عوام الناس نے شرکت کی۔
عبد الستار ایدھی کے اقدامات پاکستان کے تمام اداروں ، سیاست دانوں ،
بیورکریٹس، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جن کے پاس
اقدار اور اختیار ہونے کے باوجود ملک کے اندر سرکاری اداروں کی پرفارمنس
بہت ہی بدتر ہے ۔ ریاست میں کرپشن، رشوت،لوٹ کھسوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی،
بددیانتی کا بازار گرم ہے۔ ہمیں عبدالستار ایدھی جیسے بے لوث ، مخلص ،
سادہ، ایماندار اور محب الوطن قائد کی ضرورت جو اس پاکستان کے مستقبل کا
خیر خواہ ہو۔
میری اﷲ تعالی سے دعا ہے وہ ہمیں سچ بولنے، کہنے اور لکھنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین |